سکھرمیونسپل کارپوریشن کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود سندھ کا تیسرا بڑا شہر پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم
شہری اوردیہی علاقوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی صوبائی حکومت اوربلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن سندھ کے عوام ان سہولتوں سے محروم نظرآتے ہیں۔

سکھرسندھ کا تیسرا سب سے بڑا اور گنجان آباد شہر ہے، یہ دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے اوراس میں ایک میونسپل کارپوریشن ہے جوشہریوں کو سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ تاہم، حکومتی ادارے کی موجودگی کے باوجود یہاں کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسرنہیں۔
آج بھی شہری آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور شہر کے کئی علاقے جن میں نیو پنڈ، قریشی گوٹھ، بھوسہ لائن اور پرانا سکھر شامل ہیں، کئی روزسے پانی سے محروم ہیں۔ ایک جانب پینے کا پانی کئی کئی دن تک فراہم نہیں کیا جاتا تو دوسری طرف فراہم کیا جانے والا پانی انسانی استعمال کے لیے موزوں نہیں ہے۔
دریں اثناء، وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید احمد شاہ، سندھ کے وزیر بلدیات سید ناصرحسین شاہ، سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اورموجودہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سمیت معروف سیاست دانوں نے سکھر کے باشندوں سےاپنے پیغامات میں اس کے برعکس وعدہ کیا۔
متعدد بارحکومت اوران سیاسی شخصیات نے دعویٰ کیا کہ سکھر کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے فلٹر پلانٹ لگایا جارہا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اس مقصد کے لیے 540 ملین روپے خصوصی طور پر مختص کیے گئے ہیں۔ مزید برآں، پانی کے حصول کے لیے ایک پورا نظام بھی نصب کیا گیا تھا، تاہم، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ تاحال حل طلب ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ سکھر کے شہریوں کو پینے کے لیے جو پانی فراہم کیا جارہا ہے، وہ مکمل طور پر غیرمحفوظ ہے۔ بندرروڈ کے واٹر ورکس آلودہ ہیں اوردریائے سندھ کے کنارے واقع ہیں۔ مکین اپنا پانی یہاں کے ساتھ ساتھ واٹر ورکس کے تالابوں سے حاصل کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر سے باہر قریشی روڈ پر واقع تالابوں میں پانی پہنچایا جاتا ہے، جہاں سے اسے شہریوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔
پانی کے تالابوں اور شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پانی کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ تالابوں میں گندا اور بدبودار پانی موجود ہے۔ وہاں کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ اس کی بجائے ان تالابوں میں دریا کا پانی تقسیم ہونے سے پہلے ایک مدت تک رکھا جاتا تھا۔
یہ گندہ اورآلودہ پانی شہریوں کو فراہم کیا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک سکھرمیونسپل کارپوریشن شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کی ذمہ دار تھی لیکن پینے کے پانی کی فراہمی کا عمل ایک تباہ کن کوشش ثابت ہوا۔
واٹرکمیشن کے چیئرمین امیرہانی مسلم نے چند سال قبل سندھ حکومت کو پینے کے پانی کی فراہمی کی ذمہ داری محکمہ صحت عامہ کو منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ متعدد شکایات کے باوجود محکمہ صحت عامہ کے افسران نے کبھی شہریوں سے ملاقات نہیں کی اورنہ ہی محکمہ نے پینے کے پانی کی فراہمی یا پانی کی فلٹریشن کے حوالے سے کوئی کارروائی کی۔
جس کے نتیجے میں سکھر کے شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، ایک طرف توانہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں تو دوسری جانب کئی علاقوں میں کئی کئی روز سے پینے کا پانی فراہم نہیں کیا گیا، محکمہ صحت میں ان کی شکایات کو کوئی سننے والا نہیں۔
یہ صورت حال آج تک برقرار ہے، سکھر کے رہائشی اب بھی آلودہ پانی پینے پرمجبور ہیں۔ مزید اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت سندھ نے ایک بار پھرپینے کے پانی کی فراہمی کی ذمہ داری سکھرمیونسپل کارپوریشن کے سپرد کردی ہے۔
سکھرڈیویلپمنٹ الائنس (ایس ڈی اے) کے صدرجاوید میمن کے مطابق سندھ حکومت کے دعوے اہم لیکن جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہرکوبیاباں میں تبدیل کردیا گیا ہے، کئی علاقے کئی دنوں سے پینے کے پانی سے محروم ہیں، لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب پانی فراہم کیا جاتا ہے تو وہ اتنا گندا اورآلودہ ہوتا ہے کہ پینے کو تو چھوڑیں، اسے کپڑے دھونے کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
جاوید میمن نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) 14 سال سے سندھ میں برسراقتدار ہے، لیکن پارٹی نے ابھی تک سکھر کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں شہری پینے کے پانی کی مہنگی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ تاہم، پسماندہ علاقوں کے لوگ جومنرل واٹر کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ہینڈ پمپ کے ذریعے زیرزمین پینے کا پانی حاصل کرنے پرمجبور ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہر کی صورتحال تشویش ناک ہے، لیکن حکومت اورضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ جاوید میمن نے یہ بھی بتایا کہ شہر بھر میں پینے کے پانی کی عدم دست یابی یا آلودہ پانی کی فراہمی پر احتجاج جاری ہے۔
ایس ڈی اے کے صدر نے کہا کہ ہم نے کئی باراحتجاج بھی کیا لیکن صوبائی حکومت نے کان نہ دھرے اوروہ عوام کے مسائل سے لا پروا ہے۔ اس کے باوجود شہری احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں اورحکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں پینے کے لیے صاف پانی فراہم کیا جائے جو کہ ان کا بنیادی حق ہے۔
علاوہ ازیں سکھر میونسپل کارپوریشن کے میونسپل کمشنرمحمد علی شیخ نے بتایا کہ سندھ حکومت نے آپریشن اینڈ مینٹیننس (O&M) کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا ہے، جس کے تحت محکمہ صحت عامہ پانی دریائے سندھ سے تالابوں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد میونسپل کارپوریشن شہریوں کو پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے، اور اس کا عملہ پائپ لائنوں پرنصب واٹرسپلائی والوزکو بھی چلاتا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ اگر کسی علاقے میں پینے کے پانی کی پائپ لائنوں میں خرابی کی اطلاع ملتی ہے تو اس کی دیکھ بھال بھی میونسپل کارپوریشن کا عملہ کرتا ہے۔
میونسپل کمشنر کے مطابق محکمہ صحت عامہ واٹر ورکس میں پانی کے تالابوں کی صفائی اور پانی کو فلٹر کرنے کے لیے ایلومینیم سلفیٹ (یا پھٹکری) لگانے کا انچارج ہے۔
محمد علی شیخ نے نشاندہی کی کہ اگر باقاعدگی سے صفائی کی جائے اور فلٹریشن کے لیے پانی میں پھٹکری شامل کردی جائے تو شہریوں کو صاف پانی مل سکتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News