Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ڈی جےسائنس کالج کے مستقبل کا فیصلہ کون کرے گا؟

Now Reading:

ڈی جےسائنس کالج کے مستقبل کا فیصلہ کون کرے گا؟

صوبائی حکومت کی جانب سے تاریخی عمارت کے اندر سندھی لینگویج اتھارٹی کے دفاتر قائم کرنے کے منصوبے کے بعد 19ویں صدی کے ڈی جے (دیارام جیٹھامل) سائنس کالج کا مستقبل خطرے میں پڑگیا۔جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے معاملے کو میڈیا پر اُٹھاتے ہوئے سندھ حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ سرکاری کالج کو بند کرنےکےلیے یہاں طلباء کے انرولمنٹ (اندراج ) کے سلسلے کو ختم کرکے سرکاری دفاتر یہاں منتقل کر رہی ہے۔

اس معاملے پر بات کرنےکےلیے ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان خواجہ اظہار الحسن اور سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار شاہ سے متعدد بار کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہوسکا۔سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن نے بھی ڈی جے کالج کی عمارت کے اندر لینگویج اتھارٹی کے دفاتر کے قیام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔

سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر پروفیسر منور عباس کا کہنا ہےکہ ہم کسی زبان، خاص طور پر سندھی زبان کے خلاف نہیں جو ہماری مادری زبان ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اساتذہ ہر طرح کے تعصبات سے بالاتراور زبانوں کے فروغ کے حق میں ہیں لیکن ڈی جے سائنس کالج میں جس طرح سندھ لینگویج اتھارٹی کے دفاتر قائم کیے جارہے ہیں ،اس پر ہمارا اعتراض اپنی جگہ ہے۔

پروفیسر منور عباس نے کہا کہ ہم نے قائم مقام سیکرٹری تعلیم عبدالعلیم لاشاری سے ملاقات کی ہے اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے مثبت انداز میں جواب دیتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ دو سے تین ماہ میں اتھارٹی کے دفاتر کو دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے گا۔

عبد العلیم لاشاری ایڈیشنل سیکرٹری ہیں اور ان کے پاس سیکرٹری تعلیم کا اضافی چارج ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر منور عباس نے کہا کہ کالج کے ایک حصے پر کئی سال قبل محکمہ سکول ایجوکیشن کا قبضہ تھا۔اسی طرح کئی ہاسٹلز بھی برسوں سے پاکستان رینجرز کی تحویل میں ہیں۔انہوں نے رینجرز ہیڈ کوارٹر کے قریب اسپورٹس گراؤنڈ میں ہیلی پیڈ بنا رکھا تھا ،اس لیے گراؤنڈ کا آدھا حصہ پہلے ہی بیکار ہوچکا تھا اور اب کالج کا پورا حصہ عملی طور پر ان کی تحویل میں چلا جائے گا۔

Advertisement

پروفیسر منور عباس نے مزید کہا کہ ہمیں حکومت کی باتوں پر اعتبار نہیں۔ وہ لینگویج اتھارٹی کے دفاتر کے لیے دو سے تین کمروں پر قبضہ کرنے کے بعد باقی کے کمروں پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں۔

پروفیسر منور عباس نےفیڈرل بی ایریا ،یا جامعہ ملیہ کے کالجوں میں قائم اساتذہ کو تربیت دینے کے اداروں میں دفاتر بنانے کا مشورہ بھی دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ وہاں با آسانی دفاتر قائم کرسکتے ہیں ۔اس حوالے سے ہم نے سیکریٹری تعلیم سے بات کی ہے اور انہوں نے ہماری تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے ہمیں یقین دلایا ہے کہ اس بارے میں وزیر تعلیم سندھ سے بات کریں گے۔

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا ہے کہ اتھارٹی کا دفتر ڈی جے سائنس کالج میں نہیں بلکہ بلاول ہاؤس یا سی ایم ہاؤس کے احاطے میں قائم کیا جائے۔انہوں نے ڈی جے سائنس کالج میں داخلوں میں زبردست کمی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی کالج میں ہر سال سینکڑوں ذہین طلباء کو داخلے کی پیشکش کی جاتی تھی جب کہ اس سال داخلوں کی تعداد میں 85 فیصد کمی کردی گئی ۔ ان حقائق سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ اس ادارے کو گرانے اور اس کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔

سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر پروفیسر منور عباس نے کالج میں داخلےرد کرنے کی سازش کی تردید کرتے ہوئے اسے ڈی جی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے دفتر میں تعینات اسسٹنٹ ڈائریکٹرراشد کھوسو کی نااہلی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ پروفیسر منور عباس نے کہا کہ راشد کھوسو اپنے عہدے کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے ڈی فیکٹو سیکرٹری کے طور پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ شہر کے مختلف کالجوں میں داخلوں اور ہیومینیٹیز کے مضمون کی بندش کی پالیسی میں تبدیلی کا برا اثر پڑا اور اس بارے میں سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن نے ہمیشہ راشد کھوسو کے اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی۔جماعت اسلامی کے رہنما نےبتایا کہ ڈی جے کالج میں 200 طلباء کی گنجائش والا ہاسٹل موجود ہےلیکن کالج کو کئی سال قبل ہاسٹل کی سہولت سے محروم کیا جاچکا ہے۔

پروفیسر منور عباس نے ڈی جے سائنس کالج کی تاریخی عمارت پر قبضہ ختم کرانے کےخلاف سلسلہ وار احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کراچی او ر ملک کے مشہور اور قدیم تعلیمی ادارے کا شمار قومی ورثے میں ہوتا ہے۔

کالج کے طلباء کے ایک گروپ نے محکمہ تعلیم کے کالج کے کمروں پر مبینہ قبضے کے خلاف ادارے داخلی دروازے پر احتجاج کیا ہے ۔طلبا ء نے محکمہ تعلیم سےمطالبہ کیا ہے کہ خالی آسامیوں پر اساتذہ کو تعینات کرکے کلاس رومز کو تعلیمی سرگرمیوں کےلیے کھولا جائے ۔

Advertisement

تاریخ:

کراچی کی برنس روڈ نامی مشہور فوڈ اسٹریٹ کے قریب واقع ڈی جے سائنس کالج کی موجودہ تاریخی عمارت کی تعمیر 1887ء میں مکمل ہوئی۔ ایک لاکھ 86 ہزار 514 روپے کی مبینہ لاگت سے کالج کی تعمیر میں 5 سال کا عرصہ لگا ،جس کےلیے حکومت نے 97 ہزار 193 روپے کا حصہ ڈالا تھا۔ڈی جے کالج کاسنگ بنیاد 1882ء میں وائسرائے انڈیا لارڈ ڈفرن نے رکھا تھا۔سنگ بنیاد رکھنے کے وقت کالج کا نام سندھ آرٹس کالج رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن دیارام جیٹھ مل کے عطیہ اور کالج کی تکمیل کے بعد اس کا نام ڈی جے سائنس کالج رکھ دیا گیا۔

کالج 17 جنوری 1887ء کو بمبئی کے گورنر عزت ماب لارڈ رے نے بندر روڈ پر واقع تھائی کمپاؤنڈ کے ایک بنگلے میں کھولا تھا۔بعد میں اسے 1892 ء میں موجودہ عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔اگلے 60 سالوں تک، ڈی جے سائنس کالج نے علاقے کے واحد ادارے کے طور پر صوبے کے لوگوں کی فکری اور علمی ضروریات کو پورا کیا۔اس کالج نے طلباء کو بمبئی اور سندھ یونیورسٹی میں پیش کیے جانے والے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورسز کے لیے تیار کرنے کے ساتھ سائنس میں تحقیق کی سہولیات بھی فراہم کیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آئی ایس پی آر کا نیا نغمہ ’قوم کے شہیدوں تمہیں سلام‘ ریلیز کردیا گیا
قطر پر حملہ سنسنی خیز تھا، ٹرمپ کو لگا اسرائیلی قابو سے باہر ہورہے ہیں، امریکی ایلچی کا انکشاف
ٹیلر سوئفٹ دنیا کی امیر ترین گلوکارہ بن گئیں
ٹرمپ پیوٹن ملاقات پر ترجمان وائٹ ہاؤس کا صحافی کو اشتعال انگیز جواب
شہر قائد میں آج موسم کیسا رہے گا، محکمہ موسمیات کی اہم پیش گوئی
سلطان آف جوہر ہاکی کپ میں برطانیہ نے پاکستان کو ہرا دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر