Advertisement
Advertisement
Advertisement

خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق کیس، غلط جواب جمع کرانے پر وزرات انسانی حقوق کے حکام کی سرزنش

Now Reading:

خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق کیس، غلط جواب جمع کرانے پر وزرات انسانی حقوق کے حکام کی سرزنش

وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق کیس میں غلط جواب جمع کرانے پر وزرات انسانی حقوق کے حکام کی سرزنش کردی۔

تفصیلات کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ جسٹس سید محمد انور  اور جسٹس قاسم ایم شیخ پر مشتمل دو رکنی بنچ  نے خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ 2018 کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کی۔

جماعت اسلامی پاکستان کے سینیٹر مشتاق احمد خان، جے یو آئی ف کے وکیل سینیٹر کامران مرتضیٰ، پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور دیگر فریقین عدالت میں پیش ہوئے ۔

دوران سماعت وزارت انسانی حقوق  اور نادرا نے اپنی رپورٹس جمع کرائیں ۔وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ قانون آنے کے بعد ملک کے کسی ادارے میں ایک بھی خواجہ سرا کو ملازمت نہیں دی گئی ۔

رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ سندھ اور خیبرپختونخوا کی جیلوں میں کل پانچ خواجہ سرا قید ہیں ۔باقی صوبوں میں کوئی خواجہ سرا جیل میں موجود نہیں ہے ۔ اسلام آباد میں بنائے گئے پروٹیکشن سینٹر میں 100 خواجہ سراؤں  کی رجسٹریشن کی گئی ہے ۔

Advertisement

نادرا کی جانب سے بتایا گیا کہ خواجہ سراؤں کے تحفظ کا قانون آنے سے پہلے شناختی کارڈ میں مرد خواجہ سرا  یا خاتون خواجہ سرا لکھا جاتا تھا اب ایسا نہیں کیا جاتا ۔ اب ان کی مرضی کے مطابق صنف لکھی جاتی ہے۔

درخواست گزار احسن گجر ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ خواجہ سراؤں کے تحفظ  کے لیے بنائے گئے قانون میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔

خواجہ سرا الماس بوبی نے موقف اپنایا کہ محض کسی کے احساس کی بنیاد پر جنس کا تعین نہیں کیا جاسکتا، آج میرے احساسات مرد والے، کل عورت والے ہوں گے تو کیا میں اس بنیاد پر اپنی جنس تبدیل کرتا رہوں۔

الماس بوبی نے مزید کہا کہ کل اگر میں محسوس کروں میں ملک کا وزیر اعظم ہوں تو کیا مجھے وزیر اعظم والا شناختی کارڈ دے دیا جائے گا۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف اپنے کیس تک محدود رہیں ۔الماس بوبی نے کہاکہ ہمیں تو سعودی عرب میں حج کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

ایک اور خواجہ سرا جولی خان نے موقف اپنایا کہ خواجہ سراؤں کو میڈیکل کرانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے،ہمارے حقوق کو ہائی جیک کیا جا رہا ہے،میڈیکل بورڈ کے ذریعے تعین ہونا چاہیے میری جنس کیا ہے۔

Advertisement

دوران سماعت نادرا کی طرف سے تحریری جواب جمع کرا دیا گیا جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ جو خواجہ سرا اپنی جنس منتخب کرتا ہے ہم اس کے مطابق اندراج کر لیتے ہیں۔

2012 سے لے کر آج تک تین ہزار اکتالیس خواجہ سراؤں کا اندراج کیا گیا،خواجہ سراؤں کے تحفظ کے قانون سے قبل نادرا مرد خواجہ سرا یا عورت خواجہ سرا کے نام سے اندراج کرتا رہا ، جب قانون بنا تو ایکٹ کے تحت ایکس کا اندراج شروع کیا گیا۔

نادرا کے وکیل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق 1953 مرد خواجہ سرا اور 902 عورت خواجہ سراؤں  کا اندراج کیا گیا۔

دوران سماعت  قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ نے نادرا کے وکیل سے  مکالمے  کے دوران اہم سوال اٹھاتے ہوئے  استفسار کیا کہ  کیا کسی شخص نے خواجہ سرا کی شناخت کو ختم کرنے  کے لیے نادرا میں درخواست دی ہے؟ اس پر وکیل نے جواب دیا کہ اس حوالے سے ریکارڈ چیک کرکے عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔

جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ یہ جانچنا ضروری ہے کہ تاثر میں تبدیلی کیا ذہنی خرابی کے سبب تو پیش نہیں آئی،یہ بھی جانچ ہونی چاہیے کہ تاثر میں تبدیلی کی وجہ بدنیتی تو نہیں۔

کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ سے خاندانی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ذاتی پسند نا پسند پر جنس کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔

Advertisement

کامران مرتضیٰ کا  مزید کہنا تھا کہ میر اجسم میری مرضی ، میرا احساس میری مرضی کا نعرہ  اسلامی معاشرے  میں نہیں چل سکتا۔سوشل میڈیا پر سینیٹر مشتاق احمد خان کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی کسی کی عزت نہیں اچھا ل سکتا ، کیا کوئی ایسی مثال ہے جس میں اس قانون کا غلط استعمال کیا گیا؟

سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ پنجاب پولیس نے آئی جی کو خط لکھا کہ خواتین پولیس اہلکار خواجہ سراکے ساتھ ٹریننگ کے لیے تیار نہیں، وہ خواجہ سرا لڑکی بن کر بھرتی ہوگیا تھا، قانون کے غلط استعمال کی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔

جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل مکمل کرلیے ۔

 دوران سماعت وزارت انسانی حقوق نے اپنی رپورٹ جمع کرائی جس میں بتایا گیا تھا کہ قانون آنے کے بعد ملک کے کسی ادارے میں ایک بھی خواجہ سرا کو ملازمت نہیں دی گئی ۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ اور خیبرپختونخوا کی جیلوں میں کل پانچ خواجہ سرا قید ہیں ،پنجاب، بلوچستان میں کوئی خواجہ سرا جیل میں موجود نہیں ہے۔  اسلام آباد میں بنائے گئے پروٹیکشن سینٹر میں 100 خواجہ سراؤں  کی رجسٹریشن کی گئی ہے ۔

Advertisement

اس دوران  قائم مقام چیف جسٹس  نے وزارت انسانی حقوق کے حکام پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ تیسری مرتبہ عدالت میں غلط بیانی کی گئی ہے،ہمیں  بتایا گیا کہ کسی خواجہ سرا نے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا۔

اس دوران نمائندہ این جی اوز شیر خان نے کہا کہ نادرا میں ایگزیکٹو پوسٹ پر تعینات نتاشا کو ہراساں کیا گیا ۔خواجہ سرا نتاشا نے مقدمہ درج کرا رکھا ہے ۔

اس دوران غلط جواب پر وزارت انسانی حقوق کے حکام  کا عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وزارت داخلہ نے جو رپورٹ دی ویسے ہی عدالت میں جمع کرائی ، جس پر عدالت نے حقائق پر مبنی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کر دی ۔

 دوران سماعت این جی او ٹرانسجینڈر ریسرچر کے نمائندے نے جماعت اسلامی پر الزام لگا دیا ۔

نمائندہ این جی اوز شیر خان  نے کہا کہ جماعت اسلامی خواجہ سراؤں کے خلاف مہم چلا رہی ہے ۔

سینیٹر مشتاق احمد خان نے عدالت سے کہا کہ مجھ پر اور میری جماعت پر بغیر ثبوت الزام لگایا گیا ہے،جس پر عدالت نے این جی او کے نمائندے  کو ایسے الزامات لگانے سے روک دیا۔

Advertisement

قائم مقام چیف جسٹس کا فریقین سے کہنا تھا کہ ادھر ادھر جانے کی بجائے  اصل پوائنٹ پر رہیں ،اب یہ قانون بن چکا ہے اس میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی جائے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 نومبر تک ملتوی کردی۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
کراچی میں پانی کا بدترین بحران ، شہریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی
حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی، نوٹیفکیشن جاری
تمباکو اب بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، ترجمان صدر مملکت مرتضیٰ سولنگی
صدر مملکت سے وزیراعظم کی اہم ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی
مصطفیٰ کمال کی سعودی ہم منصب فہد بن عبدالرحمن سے ملاقات، باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
افغان جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کر رہے ہیں ، خواجہ آصف
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر