
وزارت خارجہ کی سندھ حکومت کو مہمانوں کو سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت
ٹھٹھہ – ناظم جوکھیو کے بہیمانہ قتل کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد ایک ’نایاب پرندے‘ ) جس کا شکار سرکاری طور پر ممنوع ہے( کو شکار کرنے کا تین ماہ کا اجازت نامہ ملنے کے بعد عرب کے شاہی خاندان کے افراد اپنی جدید اور قیمتی گاڑیوں میں سندھ کے دیہی علاقوں میں جانے کے لیے تیار ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں وزارت خارجہ نے سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ دولت مند عرب شہزادوں کو ’زیادہ سے زیادہ سہولیات‘ فراہم کرے جو ’تلور‘ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ تلور وسط ایشیائی پرندہ ہے جو ہر موسم سرما میں اپنے دوسرے مسکن، پاکستان چلا آتا ہے۔ ریونیو اور جنگلات کے محکموں کے افسران کی وزیرخارجہ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے دوڑیں لگ گئی ہیں، جو 15 سے سندھ پر حکومت کرنے والی پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔
حکام نے ، ٹھیک ایک سال قبل ملیر کے ایک نوجوان کے قتل کی وجہ سے اٹھنے والی آوازوں کے شور وغل کو نظرانداز کرتے ہوئے فوری طور پر عرب شیخوں کو تین ماہ کے شکار کا اجازت نامہ جاری کیا جو کہ اگلے سال جنوری تک کارآمد رہے گا۔ 26 سالہ ناظم جوکھیو کو حکمران پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی جام اویس نے اپنے فارم ہاؤس میں مبینہ طور پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ وہ عرب شکاریوں کی فلم بندی کرنے اور سوشل میڈیا پر ویڈیوز پوسٹ کرکے پرندے کی ہلاکت کے خلاف آواز اٹھانے کا مجرم تھا۔
ایک مقامی صحافی اقبال جاکھرو نے سندھ میں ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کے شکار کے رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’جیسے ہی حکام کو عرب کے شاہی افراد کے شکار کے لیے آنے کی تفصیلات موصول ہوتی ہیں، تو وہ مقامی لوگوں کو تلور کے شکار کے لیے نشان زد علاقوں سے نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس بار کوئی ان کے راستے میں نہ آئے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اجازت نامے کی شرائط کی تحریر کے مطابق فیس کا 50 فیصد ان علاقوں پر خرچ کرنا ہوتا ہے جہاں شکار کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ جاکھرو کے مطابق مٹھی، عمرکوٹ، ٹھٹھہ اور خیرپور میں مقامی لوگوں نے، خاص طور پر ناظم جوکھیو کے قتل کے بعد عربوں کے شکار کرنے کی مخالفت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضلعی سطح پر انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان علاقوں میں سیکیورٹی الرٹ رکھیں جہاں عرب مہمان شکار کے لیے آئیں گے۔
مرغی کے سائز کا شرمیلا، نایاب پرندہ عربوں میں جنسی طاقت میں اضافے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ہر سال تقریباً 40ہزار تلور تقریباً چھ ماہ کے لیے پاکستان ہجرت کرتے ہیں۔ پہلے وہ جزیرہ نما عرب کی جانب مزید جنوب کی طرف سفر کرتے تھے لیکن اب پاکستان میں زیادہ شکار کی وجہ سے انہیں معدومیت کا سامنا ہے۔
شکار کرنے والی جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ 10 دن کی مدت میں 100 پرندوں کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے لیکن اکثر وہ اس کوٹے سے تجاوز کر جاتی ہیں۔
خطرے سے دوچار حیاتیاتی انواع کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی قانون نقل مکانی کرنے والی نسلوں کے تحفظ کے اقدامات پر زور دیتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے متعدد بار خطرے سے دوچار انواع کے تحفظ کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن پاکستان نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس کے ذریعے اس طرح کے بے رحمانہ شکار کو روکا جاسکے۔
نومبر کا مہینہ سائبیریا کے ساحلوں سے سندھ میں ہجرت کرنے والے پرندوں کی آمد کا اعلان کرتا ہے، تو دوسری جانب عرب دنیا کے شکاری – زیادہ تر شاہی خاندان کے افراد، میدانی علاقوں میں خیمے کے شہر قائم کرتے ہیں۔ رہائشیوں کے مطابق عرب شاہی خاندان کے افراد جہاں قیام پذیر ہوتے ہیں وہ جگہ مقامی لوگوں کے لیے ’ممنوعہ علاقہ ‘ بن جاتی ہے۔
علاقے کے ایک مقامی محمد بچل جاکھرو نے شکوہ کیا کہ جاگیرداروں کو مہمانوں کی آمد سے قبل انتظامات کو حتمی شکل دینے کا کام سونپا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے بدلے میں اچھی خاصی رقم دیتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے عرب مہمانوں کے قیام کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے ذاتی طور پر تھرپارکر کا دورہ کیا۔
تکلیف دہ یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ٹھٹھہ کے علاقے جنگ شاہی سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ پیر بخش سومرو نے کہا کہ وہ اس واقعے کو نہیں بھول سکتے جب 1986 ء میں ٹھٹھہ کے قریب شکار کے لیے آنے والے عرب شاہی خاندان کے کیمپ سے دو نوعمر بہنوں کی لاشیں ملی تھیں۔ رپورٹ میں نوجوان بہنوں کی وحشیانہ عصمت دری کو ان کی موت کی وجہ بتا یا گیا تھا ۔ اسی طرح کا ایک واقعہ 14 اور 15 دسمبر 1997 ء کی درمیانی رات کو بدین اور تھرپارکر ضلع کے قریب رحیم کی بازار کے علاقے میں سامنے آیا جہاں دو نوجوان خواتین کو مبینہ طور پر آنے والے عرب مہمانوں کی طرف سے جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ متاثرین کے لواحقین کو معاوضے کی مد میں کچھ رقم ملی، لیکن انصاف نہیں ملا۔
عالمی حکام کی جانب سے ہجرت کرنے والے پرندوں کو معدومی کے خطرے سے دوچار پرندوں کی فہرست میں شامل کیے جانے کے باوجود کئی دہائیوں سے سندھ اور بلوچستان میں شکار کے غیر منظم طریقے دیکھے جا رہے ہیں۔
حکومت عرب شاہی خاندان کو 1960 ء کی دہائی سے پاکستان میں پرندے کے شکار کی اجازت دے رہی ہے جب متحدہ عرب امارات کے بانی شیخ زید بن سلطان النہیان شکار کے لیے اپنے بازوں کے ساتھ آنا شروع ہوئے تھے۔ 2016 ء میں، بی بی سی نیوز نے پاکستان کو ‘ تلور کے شکار کی صنعت’ قرار دیا تھا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News