Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

موسم سرما کے وسط میں ویرانی

Now Reading:

موسم سرما کے وسط میں ویرانی

طویل عرصے سے جاری سیاسی عدم استحکام کے باعث مسائل کے شکار ٹیکسٹائل کے شعبے میں چھانٹیوں کا سلسلہ زور شور سے جاری ہے۔اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اس صورتحال سے کافی ناخوش ہیں اور اب اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

ایک دہائی سے زائد عرصے تک ایک معروف ملبوسات تیار کرنے والی ڈینم ایکسپورٹر میں کام کرنے والے محمد عارف کو حال ہی میں ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے،انہوں نے کہا کہ انہوں نے سیٹھوں (کاروباری افراد) میں ایسی بے چینی اور مایوسی پہلےکبھی نہیں دیکھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل کے شعبے کا معیشت میں ایک بڑا حصہ ہے، جو ملک کی برآمدات میں 60 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔اس شعبے میں ملک کی مجموعی افرادی قوت کا تقریباً 45 فیصد اور مینوفیکچرنگ ورکرز کا 38 فیصد کام کرتا ہے۔تاہم، موجودہ صورتحال وبائی مرض سے زیادہ سنگین ہے۔

محمد عارف نے مزید کہا کہ بڑے عالمی برانڈز کو 25 فیصد تک کی رعایت پر بھی کوئی نہیں خرید رہا، کیونکہ ان کی مانگ میں کمی آئی ہے۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ زیادہ تر خریداروں کا رجحان نسبتاً کم قیمت والی مصنوعات کی طرف منتقل ہورہا ہے۔ وہ مارکیٹ اب بھی برقرار ہے لیکن خریداروں کا ہماری بروقت فراہمی کرنے کی صلاحیت پر اعتماد کم ہورہا ہے ۔

Advertisement

وفاقی ادارہ برائے شماریات (پی بی ایس) کے مطابق رواں برس اکتوبر کو مالی سال 2023ء کے ابتدائی چار ماہ میں ٹیکسٹائل کی برآمدات ایک فیصد کم ہو کر 5اعشاریہ94 ارب ڈالر رہ گئیں۔ ترتیب وار بنیادوں پر اکتوبر میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات میں 11 فیصد کمی واقع ہوئی۔

ترقی میں سست روی بنیادی طور پر عالمی کساد بازاری کی وجہ سے ہے، جس کے نتیجے میں برآمدی آرڈرز کم ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ درآمد کرنے والے ممالک میں انوینٹری کا انبار ہے۔

پاکستان اپیرل فورم کے چیئرمین جاوید بلوانی نے کہا کہ حکمرانوں کی غلط ترجیحات کی وجہ سے ہر صنعت کو نقصان ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ برآمدات گر رہی ہیں، صنعت بند ہو رہی ہے اور صنعتی شعبے کی رفتار میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔

جاوید بلوانی نے ایک تاریک منظر نامے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ قطع نظراس کہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی توجہ صرف درجہ حرارت میں اضافے پر مرکوز ہے۔

انہوں نے مزیدکہا کہ ٹیکسٹائل کے شعبے میں بنیادی طور پر گارمنٹس کی صنعت میں بڑے پیمانے پر چھانٹی ہوئی ہے۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ گارمنٹس کی صنعت 50 فیصد سے کم صلاحیت پر چل رہی ہے۔ ہم ان کے مسائل کا احساس ہے، لیکن آجر کب تک اضافی یا غیرفعال عملے کی ملازمت برقرار رکھ سکتا ہے؟ صورت حال جلد بہتر ہوتی نظر نہیں آتی۔

انہوں نے کہا کہ ہزاروں کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کم از کم اجرت پر کام کر رہے تھے۔ اگرچہ، کم از کم اجرت کی شرح 25ہزار روپے ماہانہ ہے لیکن زیادہ تر صنعتی یونٹ اس سے بھی کم اجرت پر ملازمت پر رکھتے ہیں۔ ان کارکنوں کو نقد ادائیگی کی جاتی ہے۔

محمد عارف کے مطابق ٹیکسٹائل کے شعبے سے برطرف ہونے والے زیادہ تر کارکن اب بائیکا چلا رہے ہیں، فرنچ فرائز کی دکانیں یا اسی طرح کے دیگر چھوٹے کاروبار کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا اس شعبے میں درمیانی اور سینئر سطح پر عملے کی چھانٹی نسبتاً کم ہے۔ ان کے لیے ملازمت تلاش کرنا مشکل ہوگا۔

روس اور یوکرین کے درمیان غیر متوقع جغرافیائی سیاسی صورتحال نے بھی بین الاقوامی خوراک کی رسد میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ جس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث لوگ ٹیکسٹائل مصنوعات پرخرچ کرنے کی بجائے بنیادی ضرورت کے طور پراشیائے خوردنوش پر اخراجات کو ترجیح دینے پرمجبور ہیں۔

اگر اشیائے خوردونوش کی مہنگائی قابو سے باہرہو جاتی ہے تو خریداری میں کمی آتی رہے گی اور چھانٹی کا سلسلہ جاری رہے گا۔

Advertisement

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے وزیر اعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں نشاندہی کی کہ بنیادی طور پر لیکویڈیٹی کی شدید کمی کی وجہ سے تقریباً 60 فیصد صنعتیں بند ہو چکی ہے ۔

خط میں مزید کہا گیا کہ یہ بحران برآمدی ممالک میں کساد بازاری کے آغاز پر طلب کی شدید کمی، غیر ملکی خریداروں کی جانب سےشمپنٹس کے بدلے ادائیگی کی مدت میں توسیع، کرنسی کی قدر میں کمی اور پھنسے ہوئے ٹیکس ریفنڈز کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

عالمی کساد بازاری کا احاطہ کرتے ہوئے جاوید بلوانی نے کہا کہ کرنسی کی قدر میں کمی ہورہی ہے، خام مال اور مشینری کی درآمدات محدود ہیں اور یوٹیلٹیز کی کمی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں انڈسٹری میں 30 سال سے ہوں اور میں نے کبھی بھی اتنے برے حالات نہیں دیکھے۔

جاوید بلوانی کے مطابق غیر ملکی خریدار پاکستان کی پیداوار اور فراہمی کی صلاحیت کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں، کیونکہ وہ حالات کے بارے میں پوری طرح سے آگاہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارےآرڈرز منسوخ کر کے دوسرے ممالک کو دیے جا رہے ہیں۔ٹیکسٹائل برآمدکنندگان کے طور پر ہماری ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

Advertisement

انہوں نے مزید کہا کہ یوٹیلیٹیز کے لیے صنعت کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے، جیسا کہ دنیا بھر میں رائج ہے۔لیکن ہمارے یہاں صنعتی کنکیشنز پر گھریلو صارفین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بائیو گیس استعمال کرنے والے بعض علاقوں کو قدرتی گیس پر منتقل کر دیا گیا اور صنعت کو سپلائی کم کر دی گئی۔ اس سے سیاسی جماعت کو کچھ ووٹ ملے۔ اپنے ووٹوں کے لیے سیاستدانوں نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔

تجزیہ کاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ 2023ء میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی مزید تشویشناک ہو جائے گی۔ صورت حال نہ صرف پاکستان بلکہ چین، بنگلہ دیش، ویت نام، انڈونیشیا اور بھارت جیسے ٹیکسٹائل برآمد کرنے والے دوسرے بڑے ممالک میں بھی پائی جاتی ہے۔

توانائی اور اشیائے خوردونوش کی بلند قیمتوں، مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور امریکا، یورپی یونین اور چین میں اقتصادی سست رفتاری کے باعث عالمی ترقی کے امکانات کمزور ہو رہے ہیں۔

کئی کم ترقی یافتہ ممالک سمیت ترقی پذیر ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد کو قرضوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے درمیان مستحکم ترقی کے امکانات اور پائیدار ترقی کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔

بالخصوص افریقہ اور مغربی ایشیا میں خوراک کے بگڑتے ہوئے عدم تحفظ نے اس نقطہ نظر کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ اس کے علاوہ، یورپ میں توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے دوران جغرافیائی سیاسی اور توانائی کے تحفظ کے خدشات سیاسی ایجنڈے میں سرفہرست ہیں۔

عالمی اقتصادی حالات کے علاوہ پاکستان کو تباہ کن مون سون سیزن اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام سے منسلک سخت معاشی حالات کی روشنی میں مقامی طور پر اہم اقتصادی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔

Advertisement

نظر آنے والے اہم چیلنجز میں توانائی کے زیادہ ٹیرف،مالیاتی لاگت میں غیر معمولی اضافہ، تاریخی زیادہ افراط زر، روپے کی قدر میں کمی، خام مال کی قیمتوں میں اضافہ، اعلی افراط زر اور عالمی سطح پر ٹیکسوں کی کٹوتی کے بعد حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی اور نئے اور بڑھے ہوئے ٹیکسوں کے نفاذ کی وجہ سے فروخت کی قیمتوں پر دباؤ شامل ہیں۔

ٹیکسٹائل اور چند دیگر شعبوں کے لیے ٹیکس کی شرح باقی شعبوں کے مقابلے میں 250 فیصد زیادہ ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ زیادہ ٹیکس لگانے سے کمپنیوں کی جانب سے ورکنگ کیپیٹل (روزمرہ کے اخراجات کے انتظام کے لیے کاروبار کی لیکویڈیٹی لیول کی نشاندہی کرتا ہے اور انوینٹری، نقد، قابل ادائیگی اکاؤنٹس، قابل وصول اکاؤنٹس اور قلیل مدتی قرض کا احاطہ کرتا ہے)کے انجیکشن پر اثر پڑے گا اور تجارتی قرضوں پر انحصار بڑھے گا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
بھارت نے پھر کوئی حماقت کی تو جواب نیا ، تیز، فیصلہ کن اور تباہ کن ہوگا، افواج پاکستان
جاپان کی سیاست میں نئی تاریخ رقم، پہلی خاتون وزیرِاعظم بننے کے قریب
صمود فلوٹیلا کے 137 امدادی کارکن استنبول پہنچ گئے
کراچی، شاہراہِ فیصل ناتھا خان پل پر ایک اور شگاف، ٹریفک کی روانی متاثر
ملازمت کی کون سی شفٹ گردوں کی صحت کو متاثر کرتی ہے؟
سونا پھر مہنگا، قیمت میں بڑا اضافہ ریکارڈ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر