شاید بہت کچھ! تمام قابل فہم اورناقابل فہم امراض خواہ وہ کسی بھی نوعیت کے ہوں ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ ملک اپنی پیدائش کے بعد سے انتہائی نگہداشت کے یونٹ (ICU) میں ہے، جن پرانکیوبیٹر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ بدلتے رہتے ہیں، لہٰذا، بیماربچہ (ریاست) مستقل معذوری کا شکار رہتا ہے یا اس کے پاس بیماری کے ساتھ رہنے کے لیے مہارت اور ارادہ ہونا چاہیے۔
اس سانحے کا ہمارا ضمیر گواہ ہے۔ ان بیماریوں کے تمام پہلوؤں میں جو ہمیں متاثر کرتی ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کے ذریعے ہم سب امراض کی بڑھتی ہوئی تعداد میں حصہ ڈالتے ہیں۔
ہمارے مصائب بہت زیادہ ہیں۔ جوسیاسی، معاشی اورسماجی میدانوں کو گھیرے ہوئے ہیں۔ 75 سال گزرنے کے باوجود ہم مذکورہ ہرایک شعبے میں صحت مند اورمضبوط باہرآنے میں ناکام رہے ہیں۔
سیاسی عدم استحکام ہمارے لیے سب سے زیادہ مستحکم اورمستقل عنصر رہا ہے۔ 1950ء کی دہائی کے اوائل میں اتنی تیزی سے حکومتوں کی تبدیلی دیکھی گئی کہ اطلاعات کے مطابق اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ایک صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ وہ پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیرپرمذاکرات کیوں نہیں کرتے، جواباً کہا کہ کہ جب بھی میں اپنی شیروانی بدلنے جاتا ہوں، وہ اپنی حکومت بدل لیتے ہیں۔
ہمارا ہمسایہ جس نے ہمارے ساتھ ہی آزادی حاصل کی، 1950ء میں جمہوریہ بن گیا۔ جب کہ ہمیں اپنے آئین کو لکھنے اوراس پرمتفق ہونے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔ بہت درد سری اوربہت زیادہ کچھ لواوردو کے ساتھ ہم 1956ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا آئین لے کر آئے۔
اس سے پہلے کہ متعلقہ شقوں کو ریاست کی حکمرانی، مقننہ یا حتیٰ کہ عدلیہ میں پڑھا اور لاگو کیا جاتا، اسے گِلوٹین(سر قلم) کردیا گیا تھا۔ 1958ء میں پہلے مارشل لاء کے تحت بوٹوں تلے آئین کو کچل دیا گیا اور اسے منسوخ کر دیا گیا۔
مارشل لاء اوربنیادی (کنٹرولڈ) جمہوریت بد اعتمادی اورانتشار کے ماحول میں ایک ساتھ موجود تھیں۔ یہ تقسیم 1969ء تک جاری رہی۔ پہلے کراچی اور پھراسلام آباد میں تیار ہونے والی پالیسیوں سے ملک کے مشرقی بازو میں مایوسی پھیلنا شروع ہوگئی تھی۔اس 10 سالہ دور میں کچھ سنجیدہ مثبت معاشی نمو دیکھنے میں آئی اوراسے’’ترقی کی دہائی‘‘ کے طورپرمنایا گیا۔ خودنمائی وقتی ہوسکتی ہے لیکن اس میں پائیداری کا فقدان ہوتا ہے۔
اس دورانیے میں مکمل صدارتی طرزحکومت کا تجربہ کیا گیا- جوکہ بری طرح ناکام ہو گیا۔ بھارت کے ساتھ 1965ء کی جنگ سے ملک کو پہنچنے والےاقتصادی دھچکے نے صدر کی مقبولیت کو ختم کر دیا۔ ایک اور مارشل لاء نے سماجی انتشار اور شہری بدامنی کا خاتمہ کرکے افکار میں اعتدال کوبحال کیا، جو زیادہ ترذوالفقارعلی بھٹو،شیخ مجیب الرحمان اوردیگر چھوٹے سیاسی زعماء نے پیدا کیا تھا۔
دوسرے مارشل لاء کے زیرانتظام ملک ٹوٹ گیا۔ ہم ایک جنگ ہارگئے، ہم نے مشرقی پاکستان کوکھودیا۔ شرمندگی کے ساتھ جینا یا پھرعزت سے مرجانے کا رجحان پایا جاتا تھا۔
اس موڑپرہم سیاسی،مالی،معاشی اورسماجی طورپردیوالیہ ہو چکے تھے۔ اس وقت ہم صرف 25 سالہ نوجوان ملک تھے۔ اس تباہی کے بعد ہم نےایک سیاسی طورپرہوشیار، شاندار مقرر اورمذاکرات کار، ایک جاگیردار سے سخت جمہوریت پسند بن جانے والے ذوالفقارعلی بھٹو کو تاریخ میں پہلی بار سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اورصدرکاعہدہ سنبھالتے ہوئے دیکھا۔
اس حقیقت کے پیش نظر کہ ذوالفقار علی بھٹو کی عمر 45 یا اس سے کچھ زیادہ ہے، یہ امید بندھی کہ جمہوری نظام ہمیشہ قائم رہے گا،لیکن ان کا منتخب کردہ آرمی چیف ان کے خاتمے کا ذریعہ بن گیا۔
تیسرا مارشل لاء گزشتہ دو مارشل لاء کے مقابلے میں زیادہ تاریک اور سخت تھا۔ چنانچہ سیاسی فکر کے میدان اورافق پرملک چند صدیوں پیچھے چلا گیا۔ سیزر (ذوالفقارعلی بھٹو) کےبروٹس (جنرل ضیاء) 90 دنوں کے اندرانتخابات کرانے کے اپنے ’’ وعدے‘‘ سے مکر گئے۔ جھوٹی زبان سےسچ نہیں نکلتا۔ طاقت کی کشش نے جنرل کو بدعنوان بنا دیا۔ چالاک لومڑی کی طرح اس نے مذہبی کارڈ کو دھوکہ دینے کے لیےبڑی خوبصورتی سے استعمال کیا جتنا کہ اس سے پہلے کسی بھی سیاسی جماعت نے ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی تلقین کی جا رہی تھی! تاریک دور 11 سال تک جاری رہا اورپھرایک خدائی مداخلت سے جمہوریت کی واپسی ہوئی۔
1988/99ء کا درمیانی عرصہ ایک بار پھرسیاسی سرکس کی شکل اختیارکرگیا – جس طرح 1950ء کی دہائی میں جمہوریت کے ڈھونگ کا بھرپورغلط استعمال کیا گیا۔ اس پاک سرزمین کے ہر ایک مسام سے بدعنوانی کی سڑاند آنے کے ساتھ ہم نے چوتھے مارشل لاء کے نفاذ پر پاکستان کی سڑکوں پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔
2008ء کے انتخابات سے منظم جمہوریت برقراررہی۔ اس کے بعد سے تاحال 2008/2013ء کے دور کےعلاوہ کسی بھی حکومت نے اپنی مدت پوری نہیں کی، ایک بارپھربدعنوانی کےعفریت راج کررہے تھے۔ کسی حد تک انسان بدعنوان ہوتے ہیں، لیکن کوئی پیدائشی بدعنوان نہیں ہوتا۔ہ ماری سرزمین پرغربت نے جرائم کوجنم نہیں دیا ہے، بلکہ یہ امراء اوراشرافیہ ہیں، جوجرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لہٰذا؛ اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ایک چیف جسٹس نے ایک وزیراعظم کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے فلم کے مشہورمکالموں کا حوالہ دیا کہ ’’ہر خوش قسمتی کے پیچھے بڑا جرم ہوتا ہے‘‘۔ یہ ہمیشہ بڑے جرائم ہوتے ہیں جوچھوٹے کو بچانے کے لیے جاتے ہیں۔
کیا ہم سیاسی طورپربیمارہیں؟ جی بالکل، ہمارے پاس بہترین دماغ ہیں جن کی کوئی بھی ملک یا معاشرہ خواہش کرسکتا ہے، لیکن ہم اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی اخذ کرسکے کہ ہمارے لیے کون سا سیاسی نظام موزوں ہے، بطور معاشرہ ہمارا ذہنی تربیت کا عمل بدستور بدحال ہے۔ ہم اب بھی صدارتی اوروزیراعظم کی طرزحکومت پر بحث کررہے ہیں اورپھرشرمناک جمہوریت کے انتہائی مختصر وقفے کے بعد مارشل لا لگا دیتے ہیں۔ ہمارا ہمسایہ جو کہ ایک بڑا ملک ہے اس کو ایسا کوئی مرض لاحق کیوں نہیں؟ اس پرغورکرنے کی ضرورت ہے۔
1960ء کی دہائی کے سات سے آٹھ سال کوچھوڑکر ہم 1947ء کے بعد سے ایک مایوس کن معاشی صورتحال سے دوچاررہے ہیں۔ معاشی ترقی کا ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ممالک کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
کیا ہم معاشی منصوبہ سازوں کی کمی کا شکار ہیں؟ جی ہاں، اجتماعی طورپرہم غیرمنظم ہیں، تاہم انفرادی طورپرہم شانداردماغ رکھتے ہیں۔ معاشی پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان ہے۔ ہر آنے والی حکومت گذشتہ پالیسیوں کو کالعدم کردیتی ہے۔ بدعنوانی سے بھرپوردماغ ذاتی مفاد پر مبنی اقتصادی پالیسیاں بناتے ہیں۔ اس ملک کے عوام کی اکثریت غریب ہیں۔لیکن جو لوگ دولت مند اورطاقت ورہیں وہ کاروبارکے سلسلے میں اخلاقی اقدار کا پاس نہیں کرتے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو ’’عارضی ٹیکس کے وقفے‘‘ نہیں دیتا لیکن پھر لگتا ہے کہ پوری قوم مستقل ٹیکس ہالیڈے پرہے۔
محصولات کے اہداف مسلسل پورے نہیں ہوتے ہیں۔ جی ڈی پی کے تناسب سے شرمناک حد تک کم ٹیکس ریونیو کی وصولی میں اضافے کے دعوے کو درست ثابت نہیں کرتے۔ معمولی کام کرنے والے ہمیشہ بڑی شیخی بگھارتے ہیں۔ جس طرح ہرپرندے کو اپنی آواز پسند ہوتی ہے اسی طرح ہمارے ریونیو اکٹھا کرنے والے بھی صرف اپنی مدھ سرائی پسند کرتے ہیں۔
مالیاتی انتظامات درہم برہم ہیں۔ کیا ہم نااہل معاشی ماہرین ہیں؟ جی ہاں. ایسا اس لیے نہیں کہ ہمارے پاس صلاحیت نہیں بلکہ سیاست دانوں اور تاجروں کی بدعنوانی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے ہے۔ 75 سال کے بعد بھی ہم بے سمت ہیں – ہم دو انتہائی معاشی نظاموں یعنی استحصالی سرمایہ داری سے منتخب سوشلزم کے درمیان بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔آج ہماری معیشت میں جو الجھاؤ ہے،جسے دورنہیں کیا جا سکتا۔
معاشرتی نظام کی منظم تباہی ایک تلخ حقیقت ہے۔ سوشلسٹ نعروں نے کام کی اخلاقیات کا معیارچھین لیا۔ تعلیم ایک غیر ترجیحی شعبے کے طورپرپیچھے رہ گئی ہے۔ علمی معیشت جو ہمسایہ ملک میںعروج پر ہے ہمارے لیے بعید از قیاس ہے۔ ہم بل گیٹس سے انسدادپولیو کی ویکسین امداد میں لیتے ہیں۔جبکہ نریندرمودی نے مائیکروسافٹ کے تحت بھارت میں مزید آئی ٹی مراکز قائم کرنے کے لئے بات کی۔ ہمسایہ ملک بین الاقوامی شہرت کے 22 سے زیادہ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کا حامل ہے اورہمارے پاس کتنے ہیں؟ اس کا سب کواندازہ ہوگا۔
ہم نے خود کومناسب طورپرجنوبی ایشیا کا بیمارملک کہلانے کی کوشش کی ہے۔ تو،ایسا کیا ہے،جو ہمیں بیمارکررہا ہے؟ کیا اس کا جواب جاننے کی ضرورت ہے! ہم اخلاقی، مالی، اقتصادی اور سماجی طور پر ختم ہوچکے ہیں- کیا ایسا صلاحیتوں کے فقدان ،افرادی قوت کی کمی یا انٹرپرائز کی کمی کی وجہ سے ہے؟ نہیں، اس میں سے کسی کی کوئی کمی نہیں۔ یہ سب قیادت اوربدعنوانی کی وجہ سے ہے۔ اگر ان دونوں کو سیاسی تقسیم سے جوڑا جائے تو ایک عام آدمی کی معاشی ترقی بعید از امکان ہی رہے گی۔
ہمارے پاس کوئی معاشی دوراندیش رہنما نہیں ہے۔ متعدد دیگر ترقی پذیرقوموں کی طرح ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے یہاں بدعنوانی ہے،لیکن پھر بھی ان کی یہاں معاشی ترقی ہورہی ہے،جبکہ ہم مشکلات کا شکارہیں۔ہمارے یہاں مالی، اخلاقی اورسب سے بڑھ کرفکری طور پربدعنوانی پائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ اب ہمارے معاشرے کا بنیادی عنصربن چکی ہے.
راقم کی نظرمیں ہم ایک متکبرقوم ہیں- یہی تکبرہمیں سیکھنے یا اصلاح کرنے سے روکتا ہے۔ قیادت کی تعریف ’’مجھ سے اتفاق کرو یا راستہ بدل لو‘‘ کے طور پر کی جاتی ہے۔ اچھے اخلاق اور بدزبانی کبھی ایک ساتھ نہیں ہوسکتے۔ اگر ایسی قیادت کا قیدخانوں میں یا پھانسی کے پھندے پرخاتمہ ہوجائے تواس پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
عمومی مایوس کن رویہ عوام کی امیدوں اور عزائم پرسیاہ بادل کی طرح چھایا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ منفیت ہمارے وجود میں سرایت کرگئی ہے۔ ہم حال یا مستقبل میں کچھ بھی اچھا یا روشن نہیں دیکھ سکتے۔ ایک ایسی حکومت کے ساتھ جو یہ مانتی ہے کہ کفایت شعاری امید کی آخری کرن کو بجھانے سےشروع ہوتی ہے،وہاں ان سے کوئی کیا توقع کر سکتا ہے! لہٰذا، کاہنوں کا ایک تھوک بازارلگا ہوا ہے،جو قیامت کے منظر نامے کو رعایتی داموں پرفروخت کرکے اپنی دکان چمکا رہے ہیں۔
حیرت انگیزطورپرہم آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں عوامی سطح پر بحث کرتے ہیں! کیا کوئی ایسا ملک ہوگا جہاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس طرح کے حساس معاملات پر بحث کی جاتی ہو۔ درحقیقت، کسی بھی عام بھارتی یا یہاں تک کہ کسی بنگلہ دیشی سے پوچھیں کہ آپ کا چیف آف آرمی اسٹاف، چیف جسٹس یا ان کی انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ کون ہے، وہ خاموشی سے آپ کا چہرہ دیکھیں گے۔ یہاں کسی بھی عام آدمی سے پوچھیں، وہ نہ صرف صحیح ناموں کے بارے میں بتائے گا بلکہ اس پر بھی آواز اٹھائے گا کہ کون کامیاب ہوگا!
1947ء تک ہم ایک جیسے رویوں کے حامل برصغیر کے عوام ایک ساتھ رہتے تھے، تو پھر ایسا کیا ہوا، جس نے آج ہمیں اتنا مختلف بنا دیا ہے۔ بیوروکریسی کے ساتھ ملی بھگت میں سیاستدانوں کی دلچسپی نے ہمیں اس مقام تک پہنچا دیا ہے۔
قومیں لیڈروں اورپالیسیوں سے بنتی ہیں۔ ذہین لیڈروں کا ہونا کوئی اشد ضرورت نہیں بلکہ درحقیقت یہ بنیادی ضرورت ہے کہ رہنما ایماندار اورمخلص ہو۔ اعتبار کا خلاء کبھی پرنہیں ہوسکتا۔ پالیسی سازی کے لیے کسی بھی ملک کو ایک ٹھوس، خودمختار اوراچھی بیوروکریسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ بیوروکریسی یا سول سروس میں آتے ہیں وہ میرٹ کے نتیجے میں وہاں پہنچتے ہیں – کسی کو بھی سفارش کی بنیاد پریا کوٹہ سسٹم جیسے متعصبانہ نظام کے نتیجے میں بیوروکریٹ نہیں بنایا جانا چاہیے۔
بیوروکریسی منتخب حکومتوں کی معاونت کرتی ہے، اسے سیاست دانوں کوختم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاناچاہیے۔ دیانتداراور مخلص سیاست دانوں اوربیوروکریٹس کا اچھا امتزاج ایک کامیاب قوم بنانے کی ضمانت ہے، جسے اسے ایک نڈرعدلیہ کی جانب سے مناسب حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ بحیثیت قوم ہم نے وہ سب کیا، جونہیں ہونا چاہیے تھا، اور آج اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
پھر بھی، ہم سب پرامید ہیں۔
(مضمون نگار ایک فری لانس لکھاری ہیں)
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News