Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

بڑھتی ہوئی مقبولیت

Now Reading:

بڑھتی ہوئی مقبولیت

2013ء کے بعد سے ہونے والے 2018ء کے عام بلدیاتی اور ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابیوں کی واحد وجہ عمران خان کی شخصیت ہے

خیبرپختونخوا (کے پی) سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں نے ایک بار پھر پنجاب اور آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) سے آنے والے پارٹی کارکنوں کو تعداد میں پچھاڑ دیا ، جو 26 نومبر کو بڑی تعداد میں راولپنڈی میں اپنے قائد عمران خان کا ساتھ دینے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ تین ہفتے قبل خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان پہلی بار کسی عوامی اجتماع میں آئے تھے۔

یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ پنجاب کے بہت سے دوسرے حصوں کے مقابلے میں خیبرپختونخوا، وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی سے زیادہ قریب ہے لیکن سابق وزیر اعظم کے کٹر حامیوں نے چترال سے 12 گھنٹے سے زیادہ کا سفر طے کیا اور ڈیرہ اسماعیل خان اور اس کے جنوب میں ٹانک سے بھی فاصلے تقریباً اتنا ہی تھا۔

اگرچہ اگلے عام انتخابات میں ابھی کئی ماہ باقی ہیں لیکن حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کے مداحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی بنیاد پر کوئی بھی اعتماد کے ساتھ یہ پیش گوئی کر سکتا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کو صوبے میں ان کی منتخب پارٹی کے اراکین کی بہت سی خامیوں کے باوجود عمران خان کو شکست دینے میں انتہائی مشکل پیش آئے گی۔

سیاسی تجزیہ کار لحاظ علی کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عوام عمران خان کی ہر بات پر لبیک کہتے ہیں اور پی ٹی آئی کو جو ووٹ ملتا ہے وہ سب ان کی مقناطیسی شخصیت کی وجہ سے  ملتا ہے۔ ان کے مطابق ’’  خیبرپختونخوا کے عوام پی ٹی آئی یا مقامی لیڈروں کو نہیں، بلکہ یہ صرف عمران خان ہیں جن کی وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پیروی کرتے ہیں۔ 2013ء ،  2018 ء کے عام انتخابات، بلدیاتی انتخابات اور حالیہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت کی وجہ عمران تھے۔ جہاں انہوں نے چارسدہ میں ایمل ولی خان اور مردان میں مولانا محمد قاسم جیسے مضبوط امیدواروں کو شکست دی۔‘‘

Advertisement

انہوں نے کہا کہ کے پی میں پی ٹی آئی کی کامیابی یا ناکامی کے لیے صوبائی قیادت بہت کم اہمیت رکھتی ہے۔ لحاظ علی کے مطابق ’’اگر سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک یا موجودہ وزیر اعلیٰ محمود خان پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کر لیں تو بھی وہ پارٹی کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، کیونکہ لوگ اب بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے کیونکہ وہ سب سے اوپر موجود عمران خان کو دیکھتے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے الیکشن لڑنے کے لیے منتخب ہونے والے کو پی ٹی آئی کا ووٹ بغیر کسی ابہام کے ملے گا۔اس کی ایک اچھی مثال پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر ضیاء اللہ آفریدی کی ہے، جنہیں 2013-2014 میں کچھ لوگوں نے صوبے کا ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ کہا تھا۔ انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا، وہ 2018 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ٹکٹ پر عام انتخابات میں چوتھے نمبر پر آئے تھے۔‘‘

خیبرپختونخوا کے بعض سیاسی ماہرین کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں پی ٹی آئی کے جلسوں میں شامل ہونے والے تقریباً 80 فیصد لوگ کے پی سے آتے ہیں اور یہ سب عمران خان کو سننے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’یہی وجہ ہے کہ اگر صوبائی یا ان کی مقامی قیادت احتجاجی ریلیوں کے دوران ان کی قیادت نہیں کرتی تو وہ پریشان نہیں ہوتے ۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ خیبرپختونخوا میں سرکاری ملازمین یا تاجروں کو جس طرح سے وہ چاہتے ہیں احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہے، وہ پھر بھی کسی بھی انتخابات میں عمران خان کی بھرپور حمایت کرتے ہیں کیونکہ وہ انہیں ایک مخلص رہنما سمجھتے ہیں جو ان کے مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری نظام میں موجود خامیوں کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکا۔‘‘

دوسری جانب ایک پشتو ٹاک شو کے میزبان عرفان خان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر ان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی وجہ سے صوبے میں خصوصاً پشتون اکثریتی علاقوں میں عمران خان کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ کو حکومتی معاملات میں ملوث ہونے پر قومی سطح پر اتنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو۔

عرفان خان نے مزید کہا، ’’اس سے پہلے، پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) کے نوجوان رہنما منظور پشتین نے اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی تھی۔ اسی طرح، عمران خان کے معاملے میں، سابق وزیر اعظم لوگوں کے مزاج کو بخوبی جان سکتے ہیں، اور وہ احتیاط سے اپنی چالیں اس بنیاد پر چلتے ہیں کہ لوگ کیا سننا چاہتے ہیں۔ یہ حکمت عملی انہیں تمام محاذوں پر کامیابی عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حامیوں کی تعداد میں بھی اضافہ کررہی ہے۔ اور مزید پیروکاروں کو لا رہی ہے۔‘‘

تجزیہ کار کے مطابق ایک اور عنصر یہ ہے کہ کے پی کے نوجوان تقریباً مکمل طور پر عمران خان کی حمایت کرتے ہیں۔ عرفان خان نے کہا ’’ہمارے ملک کی 220 ملین آبادی کا تقریباً 64 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوان مرد اور خواتین عمران کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، اور یہی بات کے پی میں بھی ہے۔ مزید برآں، عمران خان کے پی میں بلاشبہ سب سے زیادہ معروف رہنما ہیں، اور ووٹرز ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور ان کے کہے پر عمل کرتے ہیں۔ عمران خان کے کہے ہوئے الفاظ، پی ٹی آئی کی مضبوط سوشل میڈیا ٹیموں کی بدولت کسی بھی خبر سے زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں، اور زیادہ تر لوگ بیشتر معاملات پر ان سے اتفاق کرتے ہیں۔‘‘

عرفان خان نے مزید کہا کہ اہم معاملات پر پی ٹی آئی کے سربراہ کا واضح موقف بھی ایک وجہ ہے کہ وہ ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، حتیٰ کہ اپوزیشن جماعتوں کے ووٹر بھی ان کی باتوں پر توجہ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ عرفان ان الفاظ میں وضاحت کرتے ہیں،’’چونکہ اپوزیشن جماعتوں کا بیانیہ غیر واضح ہے اور لوگ اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے، اس لیے کے پی میں اپوزیشن جماعتیں اس خلا کو پر کرنے سے قاصر ہیں۔ مثال کے طور پر، لوگ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امن کے بیانیے پر اب یقین نہیں کرتے کیونکہ یہ بار بار ناکام ہو چکی ہے۔ دوسری طرف کرپشن پر عمران خان کے سابقہ بیانات کو بہت سنجیدگی سے لیا گیا۔ اور اب، غیر منصفانہ طریقوں سے اپنی منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا ان کا موجودہ بیانیہ صوبے بھر کے لوگوں کو قائل کر رہا ہے۔‘‘

Advertisement

تاہم، تجربہ کار صحافی محمود جان بابر کے ، عمران کی سیاست اور PDM پارٹیوں کے درمیان فرق انسانی مفاد کے منصوبوں کو ان )عمران خان ( کا عملی شکل دینا ہے۔ وہ کہتے ہیں،’’ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی پارٹی دوسروں سے میلوں آگے ہے، اور لوگ غالباً انہیں دوبارہ ووٹ دیں گے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ صحت کارڈ کی سہولت نے غریب ترین افراد کو بھی معیاری طبی علاج حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے جو بصورت دیگر ان کی پہنچ سے باہر ہوتا۔ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ عمران خان کی بہترین کامیابی ہے اور آنے والے کئی انتخابات میں انہیں اسی وجہ سے ووٹ ملتے رہیں گے۔ اسی طرح ایک اور بڑی کامیابی پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (BRT) کی سہولت ہے جس سے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد خاص طور پر خواتین مستفید ہوتی ہیں۔ اس نے لوگوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ پی ٹی آئی ان کا خیال رکھتی ہے اور انہیں ایسی سہولیات فراہم کرتی ہے۔‘‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان نے جن سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا ہے ان سے لوگ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ محمود جان بابر نے کہا، ’’عمران خان کی حمایت کر کے، لوگوں نے دو مقاصد حاصل کیے: پہلا، وہ سیاست دان جن کو وہ ناپسند کرتے تھے، عمران خان نے بھی انہیں ناپسند کیا، اور وہ مسلسل انہیں چیلنج کرتے رہے؛ دوسرا، پی ٹی آئی نے لوگوں کو اہم ریلیف اور اچھی خدمات فراہم کیں۔‘‘

محمود جان بابر پی ٹی آئی کے ساتھ جو ایک مسئلہ دیکھتے ہیں وہ صوبے میں پی ٹی آئی کی قیادت میں اکثر نظر آنے والا اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’حالیہ ضمنی انتخابات کے برعکس جن میں عمران خان نے تمام حلقوں سے حصہ لیا، پی ٹی آئی کے کارکن پارٹی ٹکٹوں پر آپس میں دست و گریباں ہوتے دیکھے گئے، جس کے نتیجے میں کئی معاملات میں شکست ہوئی، خاص طور پر رواں سال کے آغاز پر پشاور کے میئر کے لیے ہونے والے الیکشن میں انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ پھر بھی، میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس عمران خان کے ساتھ رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں کوئی قبول نہیں کرے گا اور پی ٹی آئی ہی ان کی واحد پناہ گاہ ہے۔‘‘

 گفتگو کے اختتام پر محمود جان بابرنے کہا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ جب تک عمران خان کے خلاف کوئی ایسی تباہ کن بات سامنے نہیں آتی جسے عوام ہضم نہیں کر پاتے، تو پی ٹی آئی کو صوبے میں شکست نہیں دی جا سکتی۔ تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کے امیج کو خراب کرنے کی کسی بھی کوشش سے پہلے پیشگی اقدامات سے کام لینا ایک کامیاب حکمت عملی ثابت ہوئی ہے۔ بابر نے دلیل دی۔ انہوں نے مزید کہا، یہ حکمت عملی لوگوں کو اپنے لیڈر کے خلاف کسی بھی الزامات کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتی ہے، اور وہ بنیادی طور پر ان الزامات کو جھوٹا مان لیتے ہیں، چاہے ان کی قیادت کے کسی غلط کام ملوث ہونے کے اشارے ہی کیوں نہ مل رہے ہوں۔‘‘

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ٹی وی میزبانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ! برطانوی چینل پر بھی اے آئی اینکر متعارف
پیرس کے تاریخی ’’لوور میوزیم‘‘ میں چوری کی واردات کس طرح انجام دی گئی؟ تفصیلات سامنے آگئیں
حماس نے جنگ بندی توڑی تو انجام تباہ کن ہوگا، امریکی صدر کی دھمکی
مہنگائی کا نیا طوفان آنے کا خدشہ ، آئی ایم ایف کا پاکستان کو انتباہ
کراچی میں 20 گھنٹوں کے دوران ٹریفک حادثات، 2 بچوں سمیت 10 افراد جاں بحق
کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟ خامنہ ای کے قریبی ساتھی کی بیٹی مغربی لباس میں دلہن بن گئیں
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر