
پاکستانی طالبان تیسری بار جنگ بندی ختم کرتے ہوئے کیا سوچ رہے ہیں اور پاکستان کی حکمت عملی کیا ہو گی
پاکستانی طالبان کی طرف سے جنگ بندی ختم کرنے اور پاکستانی سرزمین پر حملے دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے نے لوگوں میں تشویش پیدا کر دی ہے، خاص طور پر جنوبی صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) اور بلوچستان میں جہاں ایک دہائی پر پھیلی دہشت گردی کی افسردہ یادیں اب بھی باقی ہیں۔
اس فیصلے کا اعلان گزشتہ ہفتے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی نے کیا۔ انہوں نے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ جہاں اور جب بھی ممکن ہو پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حملے دوبارہ شروع کریں۔ اس فیصلے کی وجہ کے طور پر، انہوں نے پاکستانی افواج کی طرف سے ’’مجاہدین کے خلاف آپریشنز کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے‘‘ کا حوالہ دیا۔
اس موقع پر ٹی ٹی پی کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے: ’’ٹی ٹی پی کے وزیر دفاع، مفتی مزاحم، تمام گروپ لیڈروں، تحصیل انچارجوں اور گورنروں کو ملک بھر میں حملے کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ ہم نے مذاکراتی عمل کو بچانے کے لیے صبر کیا لیکن (پاکستانی) فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ہمارے خلاف آپریشن جاری رکھا۔‘‘
حالیہ جنگ بندی، جو طالبان کے اعلان کے بعد ختم ہوچکی، کا اعلان 2 جون 2022 کو کیا گیا تھا، یہ گزشتہ سال اکتوبر میں دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات شروع ہونے کے بعد سے تیسری اور طویل ترین جنگ بندی تھی۔ ٹی ٹی پی کے ان دعووں کے ساتھ نومبر کے اوائل میں دوبارہ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان اکتوبر میں ہونے والے مذاکرات کے دوران کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کر رہا جن میں جیل میں قید 102 ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی رہائی بھی شامل ہے۔ افغان طالبان نے اس سال مئی میں ایک اور جنگ بندی کی ثالثی کی تھی لیکن وہ بھی ایک ماہ کے اندر ختم ہو گئی۔
جون میں ہونے والی ملاقاتیں کابل میں ہوئی تھیں جن کے نتیجے میں تازہ ترین جنگ بندی عمل میں آ تھی۔ ان ملاقاتوں میں مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے اعلیٰ کمانڈر مفتی نور ولی نے شرکت کی تھی۔ دونوں فریقین نے اپنے اپنے مسائل اور ان کے حل کے امکانات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا تھا۔
لیکن زمینی صورتحال ، خاص طور پر اگست کے سیاحتی سیزن کے دوران سوات میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے ظاہر ہونے کے بعد کشیدہ رہی جس نے مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی چونکا دیا۔ جنگجوؤں کی آمد کے خلاف لوگوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے اور اس کے بعد فوج کی نقل و حرکت نے جنگجوؤں کو منظرعام سے غائب ہونے پر مجبور کردیا۔
لیکن کے پی میں سیکورٹی کی صورت حال بدستور کشیدہ ہے، خاص طور پر افغان سرحد کے قریبی علاقوں میں جہاں سیکیورٹی فورسز اکثر حملوں کی زد میں آتی رہتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صورتحال مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ کوئٹہ کے مضافات میں سیکیورٹی ڈیوٹی کے لیے پولیس اہلکاروں کو لے جانے والے ٹرک پر حالیہ خودکش حملہ اس کی ایک مثال ہے۔ اس حملے کے بعد ایک بیان میں، ٹی ٹی پی نے کہا کہ یہ حملہ اگست میں افغانستان کے صوبہ پکتیا میں سڑک کنارے بم حملے میں مہمند طالبان کے رہنما، عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکام کے پاس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا آپشنز ہیں؟
پشاور میں مقیم ایک سیکیورٹی تجزیہ کار، ناصر داوڑ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا خاتمہ ’’ٹی ٹی پی کے لیے پاکستان کے نئے آرمی چیف کو پیغام دینے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے نئے دفتر میں آئندہ کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کو فراموش نہ کریں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ تھی، لیکن کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، جن کا تذکرہ کے پی حکومت کے ترجمان نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران کیا۔
ناصر داوڑ کے مطابق ’’(ترجمان) نے کہا کہ افغانستان میں امن مذاکرات میں سہولت کاری کرنے والے اہم شخص (ایک افغان) کو غیر متوقع مسائل کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر کابل میں ڈرون حملہ جس میں (القاعدہ کے سربراہ) ایمن الظواہری کو مارا گیا۔ اس حملے نے اس اہم شخص کی توجہ اپنے ہی ملک میں مزید اہم معاملات پر مرکوز کر دی۔ ‘‘
انہوں نے کہا کہ اس سال کی بارشیں اور سیلاب بھی افغانستان اور پاکستان دونوں میں فیصلہ سازوں کے لیے پریشانی کا باعث رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی توجہ امن عمل سے ہٹ گئی ہے۔
ان کے مطابق اس تاخیر سے ٹی ٹی پی کو فائدہ ہوا ہے۔ یہ کے پی میں اپنے آپ کو مضبوط کرنے اور ان علاقوں میں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہی جہاں پہلے اس کی رسائی نہیں تھی۔ مزید برآں، یہ افغان طالبان کے طرز پر اپنی تنظیم نو کر رہی ہے، جس کا مقصد افغانستان کے پڑوس میں ایک اور اسلامی امارت قائم کرنا ہے۔
ناصر داوڑ کے خیالات کی تصدیق سیکیورٹی سے متعلق تازہ ترین اعدادوشمار سے ہوتی ہے۔ نومبر کے دوران ٹی ٹی پی نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر 29 حملوں کا دعویٰ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تازہ ترین حکمت عملی بالخصوص شہری آبادی سے دور علاقوں میں سیکیورٹی دستوں پر حملوں، گھات لگا کر حملے کرنے اور خودکش بم دھماکوں پر مرکوز ہے۔
ٹی ٹی پی میں اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے، پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی، رسول داوڑ نے کہا کہ اگر امن مذاکرات اور جنگ بندی بحال نہ کی گئی تو، ’’ٹی ٹی پی اپنی اہمیت قائم کرنے اور مزید توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں حملوں میں اضافے کرے گی۔اس سے پاکستانی افواج زیادہ طاقت کے ساتھ باہر نکلنے اور سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہوں گی کیونکہ کسی بھی نرمی کا مطلب ٹی ٹی پی اس کے قدم مضبوط کرنے میں مدد کرنا ہوگا۔‘‘
تاہم، تجزیہ کار ناصر داوڑ کا خیال ہے کہ حکومت امن عمل کو دوبارہ شروع کرنے کا انتخاب کرے گی۔ ’’کے پی حکومت کے ترجمان، بیرسٹر محمد علی سیف نے میڈیا سے حالیہ بات چیت میں دعویٰ کیا کہ وہ ٹی ٹی پی کی قیادت سے رابطے میں ہیں۔ لہٰذا حکومت کابل کا دورہ کرنے اور امن مذاکرات کو بحال کرنے کے لیے ایک اور قبائلی جرگے پر غور کر رہی ہے۔‘‘
اس پس منظر میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کا کابل کا ہائی پروفائل دورہ ایک نازک وقت پر آیا ہے۔ پاکستان ممکنہ طور پر طالبان کو یہ پیغام دینا چاہے گا کہ دوحہ معاہدہ ان پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں، ٹی ٹی پی کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کے حملوں کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اس گروپ کو کابل کی حمایت حاصل ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان افغانستان کو کھلے عام کسی سنگین نتائج کی دھمکی نہیں دے سکتا جیسے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان کے اندر فوجی کارروائی، یہ ممکنہ طور پر اس حقیقت پر دوبارہ زور دے سکتا ہے کہ اس کی بین الاقوامی تنہائی کے پیش نظر افغانستان کے پاس صرف پاکستان ہی ا ایک قابل بھروسہ حامی اور دوست ہے، اور اسے کھونے سے اس کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News