Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ادب فیسٹیول – محض ایک ادبی تقریب سے کچھ زیادہ

Now Reading:

ادب فیسٹیول – محض ایک ادبی تقریب سے کچھ زیادہ

مختلف دورانیوں پر مشتمل چوتھے ادب فیسٹیول میں ادبی کاوشوں کے علاوہ نئے موضوعات پر بھی توجہ مرکوز کی گئی

گزشتہ ہفتے کے آخر میں، کراچی کے فریئر ہال کی طرف جانے والی درختوں کی قطار سے مزئین وہ سڑک اتنی پرسکون نہیں تھی جتنی کہ عام دنوں میں ہوتی ہے۔ شہر کے نوآبادیاتی ماضی کی یاد دلاتا یہ علاقہ اب ایک لائبریری اور نمائش کی جگہ کا کام دے رہا ہے، اور یہاں منعقد ہونے والے چوتھے ادب فیسٹیول میں لوگوں کی بڑی تعداد جوش و خروش کے ساتھ شریک ہوئی۔ پچھلی دہائی کے دوران ادبی میلے تیزی سے مقبول ہوئے ہیں اور یہ دو روزہ نمائش شہری زندگی کے ہیجان سے ایک انتہائی ضروری فرار کا موقع فراہم کرتی ہے۔

افتتاحی خطاب

افتتاحی تقریب برٹش کونسل ہال کے نام سے مشہور سامنے کے لان میں واقع ایک خیمہ دار مرکزی آڈیٹوریم میں منعقد کی گئی۔ قومی ترانے کے بعد سینٹ جوزف کانونٹ اسکول کے طلباء نے ادب فیسٹیول کا ترانہ پیش کیا۔ اس سال کی ادبی تقریب میں موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی اور اہم مقررین نے حالیہ برسوں میں پاکستان کو درپیش ماحولیاتی تباہی کی سنگینی کی طرف توجہ مبذول کروائی۔

Advertisement

پہلی کلیدی مقرر کے طور پر وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے موسمیاتی تبدیلی کے ان عوامل پر روشنی ڈالی جو لوگوں کی ذاتی زندگی پر بری طرح اثرانداز ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ آب و ہوا کی وجہ سے صنعتی اور زرعی شعبوں کو کافی چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’گزشتہ تین سالوں میں پاکستان کرہ ارض کے گرم ترین شہروں کا ملک رہا ہے۔ ان شہروں میں درجہ حرارت زرعی اور صنعتی سرگرمیوں کے لیے سازگار نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ ایک فعال کردار اپنائیں اور آب و ہوا سے متعلق تباہی سے نمٹنے کی جدوجہد میں خود کو بنیادی اسٹیک ہولڈرز کے طور پر دیکھیں۔ وفاقی وزیر نے دلیل دی کہ اگر شہری مراکز میں اشرافیہ ماحول کے حوالے سے اپنی اخلاقی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتی تو ریاست کی شمولیت بے سود ہو گی۔ شیری رحمٰن نے زور دے کر کہا کہ موسمیاتی خواندگی، خاص طور پر بچوں میں، مثبت تبدیلی کے حصول کا ایک اہم جزو ہے۔

دوسرے کلیدی مقرر اور ماہر ماحولیات طارق ایلگزینڈر قیصر نے بھی گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والے مسائل پر زور دیا۔ امینہ سید نے اپنی استقبالیہ تقریر میں کتب میلے کے شریک بانی آصف فرخی کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا، جو 2020ء کے موسم گرما میں انتقال کر گئے تھے۔ ممتاز شاعرہ زہرہ نگاہ نے بھی سامعین سے ادبی میلوں کے فوائد پر روشنی ڈالی، ان کا خیال تھا کہ یہ تخلیقی آزادی کے جذبے کو فروغ دینے میں مددگار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’اس طرح کی (تخلیقی) آزادی اس مشکل دور میں ایک نعمت ہے۔‘‘

زیر بحث نکات

دو روزہ فیسٹیول پینل مباحثوں اور کتابوں کی رونمائی کے ایک مکمل مجموعے پر مشتمل رہا۔ ناول نگار مونی محسن اپنی نئی کتاب ’دی امپیکیبل انٹیگریٹی آف روبی آر‘ کی رونمائی کے لیے کراچی پہنچیں تھیں۔ صحافی پیرزادہ سلمان کی کتاب ’بٹوین دی ایفیمیرل اینڈ دی اٹرنل‘ اور قائد اعظم محمد علی جناح پر یاسر لطیف ہمدانی کی کتاب کی بھی رونمائی ہوئی۔ دو روزہ میلے کے دوران قصہ خوانی مثلاً بچوں کو کہانی سنانے کے پروگرام بھی شامل کیے گئے۔

Advertisement

ادبی سرگرمیوں کا ایک اختراعی نظر سے جائزہ لینے کے لیے بھی کچھ اجلاس منعقد کیے گئے۔ مثال کے طور پر، ایک قابل ذکر بحث نے ان منفرد طریقوں پر روشنی ڈالی جن میں ویڈیو اسٹریمنگ سروسز (مثلاً یوٹیوب وغیرہ) میں اضافے نے کتابوں کے لکھے جانے کے رجحان کو متاثر کر دیا ہے۔ عاصمہ موندر والا اور سیفی حسن نے فیض احمد فیض اور ان کی اہلیہ ایلس فیض کے ایک دوسرے کو لکھے گئے خطوط کو ڈرامائی انداز میں پڑھا۔ یہ خطوط روزمرہ کے معاملات کے عکاس اور ان کی قید کی سزا اور اس دوران ان کی گھر سے دوری کے غمگین تجربات سے مزئین تھے۔

اس کے باوجود، فیسٹول کی توجہ مکمل طور پر ادبی کوششوں پر نہیں تھی اور دیگر موضوعات پر مبنی اجلاسوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ ساحلی شہری نظام کے ابھرنے کی قوت، اسٹیم سیل تحقیق، پاکستان کی معیشت کی حالت زار اور معیاری تعلیم کے بارے میں اجلاسوں کا ایک سلسلہ یادگار اور بصیرت انگیز تھا۔

کتب میلے میں پاکستانی سنیما کے منفرد پہلوؤں پر بھی زور دیا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے دلچسپ اجلاس بلوچی سینما پر ایک پینل ڈسکشن تھی جہاں فلم ’ڈوڈا‘ کے کلپس دکھائے گئے۔ یہ فلم جو لیاری کے پس منظر میں بنائی گئی ہے، لگتا ہے کہ 1970ء کی دہائی سے بلوچی سنیما کے طویل وقفے کو ختم کرنے میں مدگار ہوگی۔

عالیہ اقبال نقوی اور ایوارڈ یافتہ فلم ساز شرمین عبید چنائے کے درمیان ’دی اسٹوریز وی شو‘ کے عنوان سے ہونے والی متحرک گفتگو میں سامعین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران، شرمین عبید چنائے نے ’مس مارول‘ کی دو اقساط پر کام کرنے کے اپنے تجربے پر روشنی ڈالی۔ ایک دستاویزی فلم ساز کے طور پر پذیرائی حاصل کرنے کے بعد، وہ نئے وسط کو تلاش کرنا چاہتی تھیں جس کا وسیع اثر ہو سکے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ مارول کے تخلیق کار اس پراجیکٹ کو شروع کرنے جا رہے ہیں، تو انہوں نے انہیں ایک خط لکھا اور اس ضرورت پر زور دیا کہ ایک مسلمان عورت کو سپر ہیرو کے طور پر پیش کیا جائے۔ آخر کار انہوں نے اپنے خیالات ان کے سامنے پیش کیے اور انہیں یہ کام کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’مس مارول نے مجھے پاکستان سے باصلاحیت پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کرنے اور ملک کی صلاحیتوں کو پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔‘‘

شرمین عبید چنائے نے مزید کہا کہ مس مارول پاکستان کے لیے ان کی محبت کا اظہار ہے۔ مزید برآں، انہوں نے سیریز کی تقسیم کی اہمیت اور تاریخ کے اس ہنگامہ خیز دور کو اسکرین پر مستند طور پر پیش کرنے کی اپنی کوششوں کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ شرمین عبید چنائے نے کہا کہ اگرچہ کراچی کا اس سیریز میں ایک اہم کردار ہے، لیکن وہ شہر میں عکس بندی کرنے کے قابل نہیں تھیں۔ اس کے بجائے، انہوں نے شہر کا ’’ایک صاف ستھرا نعم البدل‘‘ بنکاک میں تخلیق کیا، جہاں کراچی کے حصوں کی ریکارڈنگ کی گئی۔

Advertisement

فن کی نمائش

فوزیہ من اللہ کی نمائش، جس کا عنوان ’دی لوسٹ لیو لیبی آف مدر ارتھ‘ تھا، فیسٹیول کے دوران صادقین گیلری میں عوام کے لیے کھولی گئی تھی۔ آرٹ شو موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر مرکوز کام پر مشتمل ہے جسے فوزیہ من اللہ نے جرمنی اور پاکستان میں رہتے ہوئے پچھلے چھ سالوں میں تیار کیا ہے۔

مصورہ کے مطابق، وہ اپنے کاربن فوٹ پرنٹ کے بارے میں بہت زیادہ آگاہی رکھتی ہیں۔ فوزیہ من اللہ گیلری کے احاطے میں رکھے گئے اپنے فن کارانہ بیان میں کہتی ہیں،’’ جب میں 50 سال کی ہو گئی تو میری سب سے بڑی خواہش دادی بننا تھی، لیکن اب نہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے، میرے بیٹے صاحب اولاد نہیں ہونا چاہتے۔ میں انہیں الزام نہیں دیتی۔ وہ اپنی سوچ بدلیں یا نہ بدلیں، لیکن اس دوران (میں) مستقبل کے خیالی بچوں کی تصویر کشی کر رہی ہوں۔‘‘

نمائش کے لیے اپنے نوٹ میں، پومی امینہ گوہر نے فوزیہ من اللہ کی فنکارانہ کوششوں کو سراہا جو کہ فطرت سے ان کی زبردست محبت کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں، ’’فوزیہ کی تخلیقی مشق پاکستانی فن کا ایک ایسا سنگ میل ہے جو مادر فطرت کے لیے محبت کا اظہار کرتی ہے، جو کہ اس زمانے میں بہت اہم ہے۔ وہ ایک سچی فنکارہ ہیں، قدیم ترین آبائی فن سے متاثر ان کی تنقید زدہ لکیروں نے ان کے فن پاروں کے ذریعے ایک راستہ بنایا (اور تحفظ کے پیغام پر) توجہ مرکوز کی۔‘‘

کتب فروش

Advertisement

مختلف پبلشرز اور کتب فروشوں نے پنڈال میں اپنے اسٹالز بھی لگائے۔ اگرچہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت مخالف سمت میں واقع کھانے پینے کی اشیا کی طرف متوجہ ہو گئی، لیکن مطالعے کے شوقین کچھ افراد کو اسٹالوں پر کتابوں کے ڈھیر کے گرد گھومتے ہوئے دیکھا گیا۔

اس طرح کی تقریبات نے پبلشرز اور کتب فروشوں کو اپنے قارئین سے تعلق قائم کرنے کے لیے قیمتی مواقع فراہم کیے ہیں۔

پبلشر سفینہ دانش الہٰی نے بولڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ادب فیسٹیول نے قارئین، مصنفین اور پبلشرز کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم فراہم کیا ہے جو ادب سے باہمی احترام اور محبت رکھتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ دوبارہ قارئین بننے کا کیا مطلب ہے، اور اس طرح کے تہوار ہمارے ساتھ گونجنے والی کہانیوں کو تلاش کرنے کے لیے ہماری جستجو اور تجسس کو پھر سے متحرک کرتے ہیں۔‘‘

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پاکستان نے اینٹی ڈرون جیمر گن تیار کر لی ، ایکسپو نمائش میں متعارف کروا دی گئی
اگلے ہفتے آئینی ترمیم کی کوئی شکل نکل آئے گی ، خواجہ آصف
پاکستان میں پہلی بار گوگل اور ٹیک ویلی کی شراکت سے کروم بوک اسمبلی لائن کا آغاز
زہران ممدانی کی جیت؛ اسرائیل نے تمام یہودیوں کو نیویارک سے واپس بلالیا
دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر مرمتی کام شروع کر دیا گیا ، ترجمان واٹر بورڈ
امریکا، کارگو طیارہ عمارتوں پر گر کر تباہ، عملے کے تین افراد سمیت 9 ہلاک
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر