
اردو زبان کے عہد ساز غزل گو شاعر ناصر کاظمی کے مداح آج ان کا 97 واں یوم پیدائش منارہے ہیں۔
ناصر رضا کاظمی کا قلمی نام ’ناصر کاظمی ‘ ہے ۔وہ 8 دسمبر 1925 کو انبالہ میں پیدا ہوئے جبکہ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔
میر جدید کہلانے والے عہد ساز شاعر ناصر کاظمی کی شاعری لطیف انسانی جذبات کی بہترین ترجمان ہے۔
’بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی‘
’اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی‘
’مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں‘
اس طرح کے کئی لازوال اشعار ناصر کاظمی کی تخلیق ہیں۔ انہوں نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہار غم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔
’چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے‘
’وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ ‘
ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔
’کون اچھا ہے اس زمانے میں
کیوں کسی کو برا کہے کوئی‘
ان کا پہلا مجموعہ کلام ’برگِ نے‘1954میں شائع ہوا اور منظرعام پر آتے ہی مقبولیت حاصل کرلی۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘اور ’سُر کی چھایا‘شامل ہیں۔
دو مجموعے ’دیوان‘اور ’پہلی بارش‘صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔
ناصر کاظمی کا منفرد اور دلوں کو چھونے والا اسلوبِ بیان ہی تھا جس کی بدولت آج اُن کا کلام عوام میں پہلے سے کہیں زیادہ مقبول اور محبوب نظر آتا ہے۔
’وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی‘
اردو ادب کا یہ سخن ور 2 مارچ 1972 کو کینسر کے موذی مرض کے سبب اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ناصر کاظمی کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا یہ زبان زد عام شعر درج ہے۔
’دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا‘
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News