
کراچی کسٹمزایجنٹس ایسوسی ایشن (KCAA) کے صدرندیم کامل کا خیال ہے کہ ملک میں سیاسی طورپرمستحکم ماحول قائم ہونے کے بعد کاروباری سرگرمیاں معمول پرآجائیں گی۔ سیاسی استحکام، پالیسیوں کا تسلسل ایک مؤثر نظام کو یقینی بناتا ہے اورکاروباری اداروں میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ درآمدات میں کمی کے ساتھ کسٹمز ایجنٹس کے کاروبار کو نقصان پہنچا ہے اورمتعدد ایجنسیاں دوسرے کاروبار میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ یقینی طور پراثروہاں ہے، کیوں کہ مجموعی طور پر کلائنٹس کی تعداد میں کمی آئی ہے، جن ایجنسیوں کے بہت زیادہ کلائنٹس تھے، اب کم ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب کہ چند ایک کلائنٹس والے ایجنٹ مارکیٹ سےغائب ہو گئے ہیں۔
ندیم کامل سے گفتگو کے اقتباسات درج ذیل ہیں:
بول: عالمی حالات نے درآمدات کو کتنا متاثر کیا ہے؟
ندیم کامل:عالمی تجارت رواں برس کے دوسرے نصف حصے میں اپنی رفتارکھو رہی ہے اورآئندہ برس اس کے محدود رہنے کا امکان ہے، کیونکہ عالمی معیشت متعدد جھٹکوں کے زیراثر ہے۔ جیسا کہ مختلف وجوہات کی بنا پر بڑی معیشتوں میں ترقی کی رفتار کم ہورہی ہے، لہٰذا درآمدی طلب میں نرمی کی توقع ہے۔ اسی طرح پاکستان میں درآمدات بھی سست روی کا شکار ہے۔ یہ ایک سلسلہ ہے اورمجموعی طور پر کاروبارگراوٹ کا شکارہیں۔
کم طلب کی وجہ سے صنعتی پیداوار سکڑرہی ہے، جس کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافہ اور توسیع سے گھریلو آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس لیے درآمدی اور مقامی مصنوعات کی مانگ میں کمی آ رہی ہے۔
رواں مالی سال کی 30 ستمبر کو ختم ہونے والے پہلی سہ ماہی میں ملک کی مجموعی درآمدات میں 12اعشاریہ72 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بڑھتے ہوئے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ملک جدوجہد کر رہا ہے۔ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کا خسارہ 17اعشاریہ4 ارب ڈالررہا۔
درآمدی پابندیوں کی وجہ سے کم ہونے والی درآمدات میں مستقبل قریب میں مزید کمی آئے گی۔ درآمدی کھیپ کی لینڈنگ لاگت بڑھ گئی ہے۔ مستقبل کا نقطہ نظرواضح نہیں ہے اور درآمد کنندگان بندرگاہوں پراپنی کھیپ کے پھنس جانے کے پیش نظر آرڈرنہ دینےکو ترجیح دے رہے ہیں۔
بول:کیا بندرگاہوں پر بہت زیادہ دباؤہے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟
ندیم کامل: جی بالکل، درآمدی کنسائنمنٹس کی تاخیریاعدم منظوری کی وجہ سے بندرگاہوں پر کچھ دباؤ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کمرشل بینک ڈالرکی عدم دستیابی کا حوالہ دیتے ہوئے الیکٹرانک امپورٹ فارم (آئی فارم) کی منظوری نہیں دے رہے ہیں اوراس منظوری کے بغیر کسٹمزدرآمدی کنسائنمنٹس کوکلیئر نہیں کرسکتے۔
ابتدائی طورپرمسئلہ صرف کسٹم ٹیرف کے باب 84 اور 85 کے تحت آنے والے سامان کے ساتھ تھا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کسٹم ٹیرف کے باب 84 اور 85 کے تحت اشیا کی درآمدی ادائیگیوں سے قبل اس کی منظوری کولازمی قراردیا۔
اس کے بعد سے ہر قسم کے پلانٹ اورمشینری، مکمل طورپرسی کے ڈی کٹس، کیپٹل گڈزاورخام مال کی درآمد بند ہو گئی ہے۔ سیکڑوں کنسائنمنٹس مختلف بندرگاہوں پر پھنسی ہوئی ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں کنسائنمنٹس راستے میں ہیں۔
مذکورہ بالا ابواب کے تحت آنے والے سامان کو جرمانے کے بغیر کلیئر نہیں کیا جا رہا جس سے اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ کنٹینرزکرایہ، ڈیمریجزاورٹرمینل چارجز کی ادائیگی کے لیے ڈالر کا اخراج جاری ہے۔ بعض اوقات یہ اضافی چارجزاورجرمانے معاف کردیئے جاتے ہیں، لیکن زیادہ تردرآمد کنندگان کو ادا کرنا پڑتے ہیں۔
بول:اس صورتحال نے کسٹمز کلیئرنس کے کاروبار کو کتنا متاثر کیا ہے؟
ندیم کامل: صرف کراچی میں 3000 کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس ہیں۔ یہ وہ پیشہ ورافراد ہیں جو ہر قسم کے سامان اور تجارتی سامان کی درآمد اور برآمد پر ڈیوٹی اور دستاویزات کو کلیرکرنے کے ذمہ دارہیں۔ کسٹم ایجنٹ ضوابط کی تعمیل کو یقینی بناتے ہیں۔ ان کی موجودگی درآمد کنندگان اوربرآمد کنندگان کو اپنی بنیادی کاروباری سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
بول: کسٹمز ایجنٹس کو سرکاری محاذ پر کن مسائل کا سامنا ہے؟
ندیم کامل: پاکستان کسٹمزمیں عملے کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے ہمارا کام مشکل اور طویل ہوتا ہے۔ کسٹم حکام جیسا کہ اپریزراور ایگزامینرزپرزیادہ بوجھ ہے، کیونکہ طویل عرصے سے تجربہ کاراہلکاروں کی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی نئی تقرری نہیں ہوئی ہے۔
مثال کے طورپرایئرفریٹ یونٹ (اے ایف یو)، کراچی میں عملے کی شدید کمی ہے، جو کہ فوری ترسیل کا کام کرتا ہے۔ نئی تقرریاں کی جائیں گی لیکن ظاہرہے کہ انہیں آپریشنز، قواعد و ضوابط اوردیگر متعلقہ عوامل کو سمجھنے کے لیے وقت درکارہوگا۔
پھرروزمرہ کے مسائل ہوتے ہیں، جنہیں کسٹمز کے عملے کے تعاون سے حل کیا جاتا ہے۔
بول: اسمگلنگ تجارت اوراس سے منسلک کاروبار کوکیسے متاثر کرتی ہے؟
ندیم کامل: اسمگلنگ خطرے کا باعث ہے۔ اس کا براہ راست اثرحکومت کی آمدنی پر پڑتا ہے، جب کہ غیرمعیاری اور حتیٰ کہ مضرصحت اشیا مقامی منڈیوں میں پہنچ جاتی ہیں۔
اگرچہ سامان کی اسمگلنگ کا پھیلاؤ اوردرست پیمانہ ابھی تک معلوم نہیں ہے، لیکن اس کے نتائج بڑے پیمانے پر مرتب ہورہے ہیں۔ ایک واضح اثر یہ ہے کہ ایک بار جب یہ مصنوعات مارکیٹ میں کم قیمتوں پر اسمگل ہوجاتی ہیں، تو وہی پراڈکٹ جو اصل قیمت پرفروخت ہوتی ہے بالآخر کم پرکشش ہوتی ہے، جس سے قانون کی پاسداری کرنے والی کمپنیوں اورحکومتوں دونوں کو محصولات میں بڑا نقصان ہوتا ہے۔
بول:کراچی کسٹمزایجنٹس ایسوسی ایشن کی کیا اہمیت ہے؟
ندیم کامل: کراچی کسٹمزایجنٹس ایسوسی ایشن کا قیام 1965ء میں عمل میں آیا اور اسے پہلے ’’کراچی کسٹمز ایجنٹس گروپ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور بعد ازاں یہ’’کراچی کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔
اپنے قیام سے لے کر اب تک اس ایسوسی ایشن نے ہمیشہ کسٹمز ایجنٹس کی بہتری کے لیے کام کیا ہے اور اپنے ارکان کی ہرطرح سے مدد کی ہےاورساتھ ہی ساتھ قابل قدرارکان کودرپیش مسائل اور ان کے حل میں ہر ممکن تعاون فراہم کیا ہے۔ایسے ماحول میں کسٹمز ایجنٹوں کا کردارحکومت کو تجارتی سہولت اور ریگولیٹری کنٹرول کے درمیان مناسب توازن حاصل کرنے میں مدد کرنے میں بہت اہم ہے۔ وہ یہ سروس اعلیٰ پیشہ ورانہ معیارات اور اخلاقی رویے کے ساتھ اپنے صارفین اور کسٹمز کو فراہم کرتے ہیں۔
اس انجمن کو مناسب پذیرائی دی گئی، جس کی وہ بجا طورپرحق دار ہے اور اس کی سفارشات اورتجاویزاعلیٰ سطح پرطلب کی گئیں اوران میں سے بہت سی پرعمل درآمد بھی کیا گیا۔
درحقیقت، یہ درست سمت میں ایک درست قدم تھا، کیونکہ بلا شبہ ہم حکومت کے لیے محصولات کی وصولی میں اہم کردارادا کرتے ہیں، اس کے علاوہ یہ برآمدی اجناس کی محفوظ ہینڈلنگ اورتیزرفتاری میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جس سے حکومت قیمتی زرمبادلہ کماتی ہے۔
کسٹمزایجنٹ قومی خزانے میں ڈیوٹیوں اورٹیکسوں کی مد میں ریونیو بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News