Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

خیبر پختونخوا کی سیکیورٹی نظرانداز

Now Reading:

خیبر پختونخوا کی سیکیورٹی نظرانداز

سیاسی چالیں صوبے کوافراتفری کی جانب دھکیل رہی ہیں

ملک میں جاری مالی اور سیاسی بحران کے درمیان نئے تعینات ہونے والے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کے مشرقی اور مغربی سرحدوں کے دورے اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی بدستور مسلح افواج کی اولین ترجیح ہے۔

مشرقی سرحد پر ہندوستانی خطرہ پالیسی سازوں کے لیے ہمیشہ پہلی ترجیح رہا ہے، لیکن گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ملک کی مغربی سرحد کے ساتھ خطرات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے ملک کے شمال مغربی علاقوں میں رہنے والے لوگوں پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے ایک متنازعہ جنگ بندی اور امن مذاکرات کی حالیہ منسوخی نے ان خدشات کو دوچند کردیا ہے۔

6 دسمبر کو ضلع خیبر کی وادی تیرہ کے دورے کے دوران، آرمی چیف نے فوج کے حالیہ پالیسی آپشن کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، ’’دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ قوم کی حمایت سے اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ہم پائیدار امن اور استحکام حاصل نہیں کر لیتے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی عوام اور سیکیورٹی فورسز کی بے شمار قربانیوں سے ریاست کی رٹ قائم ہوئی ہے اور ان قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔

آرمی چیف کا دورہ بلاشبہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوصلے بلند کرنے کا باعث ہے، لیکن یہ خیبرپختونخوا کے عوام کے لیے بھی امید کی کرن ہے جنہیں ایک طرف دہشت گردی سے منسلک متعدد بحرانوں کا سامنا ہے، دوسری طرف جسے کچھ لوگ ’سیاسی چال‘ کہتے ہیں۔

Advertisement

موجودہ حالات کے تناظر میں، حکمراں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)، اور اس کی مخالف، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) انتخابات، جو مستقبل قریب میں ہوتے نظر نہیں آرہے، سے قبل ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات عائد میں مصروف ہیں ۔

دریں اثنا خیبر پختونخوا کو متعدد خطرات کا سامنا ہے، جن میں سرحد پار سے آنے والے خطرات بھی شامل ہیں کیونکہ افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کی باقیات پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں یا پھر وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے، جو اب صوبے بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے کی تیاری کررہی ہے۔

خیبر پختونخوا کی سرزمین پر حالیہ حملے، اور پاک افغان سرحد کے ساتھ سرحدی باڑ کو کاٹنے اور خاردار تاریں چوری کرلینے کی اطلاعات خطے میں بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خطرے کا تازہ ترین ثبوت ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کے حملے صرف سرحدی علاقوں تک ہی محدود نہیں ہیں۔ صوبائی دارالحکومت پشاور اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں ایسے حملے ہو چکے ہیں۔

 ٹی ٹی پی کے ساتھ، بہت زیادہ زیربحث آنے والے، تسلی بخش مذاکرات حال ہی میں کالعدم ہوگئے۔ اس بات کی تصدیق انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے سبکدوش ہونے والے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے گزشتہ ہفتے اپنی آخری پریس کانفرنس میں کی۔ انہوں نے کہا: “کوئی بات چیت نہیں ہورہی۔ اب یہ معاملہ ختم ہوچکا، کیونکہ وہ (ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند) حملہ کر رہے ہیں، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری طاقت سے جواب دے رہے ہیں۔”

ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنی سائبر پروپیگنڈا مشین تیار کر لی ہے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملوں کے دعوے فوری طور پر میڈیا، خاص طور پر مختلف مغربی ذرائع ابلاغ کے اداروں کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ اس سے خوف پیدا ہو رہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔

اور اس )ٹی ٹی پی( کے پاس اسلحہ اور گولہ بارود کی لامتناہی رسد موجود ہے۔ جب امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہورہا تھا تو وہ اپنے پیچھے اسلحہ، اور گولہ بارود کی بڑی مقدار چھوڑ کر گئیں، جو بعدازاں ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسند دھڑوں کے قبضے میں چلا گیا۔ عسکریت پسند تو یہ ہتھیار استعمال کرہی رہے ہیں مگر ان ہتھیاروں کو اسمگلر خیبر پختونخوا کے ذریعے ملک کے باقی حصوں اور بیرون ملک بھی اسمگل کر رہے ہیں۔

Advertisement

اس کا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب طورخم بارڈر کراسنگ پر کسٹمز کے چیف کلکٹر محمد سلیم خان نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے پاکستان میں داخل ہونے والے ٹرک سے 40 ملین روپے مالیت کا امریکی ساختہ اسلحہ اور گولہ بارود پکڑا ہے۔

باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اس طرح پاکستان میں اسمگل ہونے والے ہتھیاروں کا ایک بڑا حصہ خفیہ طور پر مقامی عسکریت پسند گروپوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں گزشتہ ماہ کے حملوں کے دوران، ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نےاندھیرے میں دیکھنے والے چشموں اور تھرمل اسنائپر گنز کا استعمال کیا ۔ یہ آلات بظاہر بچ جانے والے امریکی اسلحے کے ذخیرے میں سے حاصل کیے گئے تھے۔

عسکریت پسندوں کے خطرے کے ساتھ ساتھ، خیبر پختونخوا کو بھی معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔ کئی مدات کے تحت ملنے والے وفاقی فنڈز روک دیے گئے ہیں جیسے کہ خالص ہائیڈل منافع، نیشنل فنانس کمیشن (NFC) ایوارڈ کے حصص، اور نئے ضم شدہ اضلاع کے لیے ترقیاتی فنڈز ۔ بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال عسکریت پسندوں کے لیے سازگار حالات پیدا کر سکتی ہے، خاص طور پر افغان سرحد کے ساتھ نئے ضم ہونے والے اضلاع میں، اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے حوصلے پست کر سکتی ہے۔

چونکہ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد کی وفاقی حکومت ان پیش رفتوں کچھ زیادہ پریشان دکھائی نہیں دیتی۔ ایک مبصر کے مطابق، وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف سیاسی معاملات پر کافی آواز اٹھا رہے ہیں، لیکن سرحدی صورتحال کے بارے میں ابھی تک ایک لفظ بھی انہوں نے ادا نہیں کیا۔

اگرچہ وفاقی حکومت بذات خود بے شمار مسائل سے دوچار ہے مگر اسے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ سنجیدہ پالیسی آپشنز پر غور کرنا ہوگا۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ریاستی سلامتی کو نظرانداز کرنے سے پاکستانی ریاست کو پہلے ہی کافی نقصان ہوچکا ہے، اور اس رجحان کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔

وفاق کو آج نہ صرف ملک کو درپیش مالیاتی بحران کا حل تلاش کرنا ہے بلکہ اسے اندرونی اور بیرونی خطرات سے بھی ترجیحی بنیادوں پر نمٹنا ہے۔ جیسا کہ نئے آرمی چیف نے ذکر کیا کہ انہیں متعدد قومی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن خیبر پختونخوا کی سرحدی حفاظت ان کی اولین ترجیحات میں سے ایک دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ وسیع تر خطے کے لیے بھی ایک پرامن خیبر پختونخوا ضروری ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پہاڑوں میں چھپی ایک مقدس نشانی
بابا گرونانک کا 556 واں جنم دن، بھارتی سکھ یاتریوں کی ننکانہ صاحب آمد
مفتی تقی عثمانی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر دنیا کے با اثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل
27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پہلے سینیٹ میں پیش کی جائے، اسحاق ڈار
متنازع ترین نائب امریکی صدر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
ایشیا کپ میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی، آئی سی سی نے سزاؤں کا اعلان کر دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر