Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ہر انسان اپنے کام میں ماہر نہیں ہوتا  لیکن عمران اسلم اس اصول سے مستثنیٰ تھے

Now Reading:

ہر انسان اپنے کام میں ماہر نہیں ہوتا  لیکن عمران اسلم اس اصول سے مستثنیٰ تھے

Advertisement

دنیا انہیں ایک معتبر صحافی کے طور پر جانتی ہے، جس نے ’ ڈیلی نیوز پیپر‘ کا آغاز کیا۔ان کے دوست انہیں ایسا شخص سمجھتے تھے جس نے ہمیشہ ہی سب کو ہنسایا۔ان کے قریبی ساتھیوں نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا کھل کر اعتراف کیا، عمران اسلم وہ ہیں جنہوں نے دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں سے ایک کو اپنا نام دیا ۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے پسندیدہ بسکٹ کو وہ لائن دی جو اس کی پہچان بن گئی ۔

اپنے حلقہ احباب اور خاندان میں ٹیپو کے نام سے مشہور عمران اسلم 1952ء میں بھارتی شہر مدراس میں پیدا ہوئے۔

نوجوانی میں ہی ان کا خاندان پاکستان ہجرت کر گیا اور پھر وہ لاہور میں آباد ہو گئے۔کسی حد تک غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہونے کی وجہ سے وہ لاہور میں اپنا مقام اور پہنچا ن بنانےکی کوشش میں مصروف ہوگئے ۔اس دوران انہوں نے تخلیقی مطالعے کا آغاز کیا اور خود کو منوانے کی کوشش میں مصروف ہوگئے ۔اس دوران انہوں نے کچھ ایسے دوست بھی بنائے جو مرتے دم تک ان کے ساتھ رہے۔

تحریر عمران اسلم کا سب سے مشہور پہلو تھا ،انہیں فطری طور پر لکھنا آتا تھا ۔ خدا کے دی ہوئی اس صلاحیت کی بدولت عمران اسلم نے اس شعبے میں کئی اعزازات اپنے نام کئے ۔ لوگ انہیں ایک قابل مصن کے طور پر جانتے تھے ، تاہم بہت سے لوگ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ انہوں نے ٹی وی، تھیٹر اور فلم کے لیے بھی لکھا۔

لاہور میں تعلیمی سلسلے کے دوران انھیں احساس ہوا کہ ان کی پہلی محبت اداکاری ہے ،اس لیے انھوں نے بطور اداکار اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تو لکھنے کے سلسلے کو بھی ساتھ ساتھ چلاتے رہے ۔

Advertisement

عمران اسلم سے میری ملاقات 1967ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ہوئی۔وہ کالج کے تھیٹر روم میں شیکسپیئر کا ہیملیٹ تنہائی میں بیٹھ کر پڑھ رہے تھے ۔ سینئر فنکار عثمان پیرزادہ نے یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ میں انہیں دیکھ کر چونک گیا اور سوچا کہ یہ کیا کر رہے ہیں ؟میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کون ہیں ؟ جواب میں انہون نے بھی یہ سوال دہرادیا۔ پھر ہم نے ایک دوسرے کا تعارف کرایا۔

میں نے عمران اسلم سے پوچھا کہ یہ آپ کس کے لیے کر رہے ہیں اور یہ کیوں پڑھ رہے ہیں؟انہوں نے مجھے جواب دیا کہ انہیں ہونے یا نہیں ہونے کے جیسا انداز اور گفتگو پسند ہے۔وہیں سے ہماری دوستی کا آغاز ہوا اور پھر ہم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔عثمان پیرزادہ نے مزید بتایا کہ میں نے عمران اسلم کے ساتھ مل کر سرمد صہبائی کو دریافت کیا جو بعد میں ہمارے بہترین دوستوں میں شامل ہوگئے ۔ پھر ہم سب سے مل کر ڈرامہ ’ ڈارک روم ‘ تخلیق کیا۔

ٹی وی اور فلم کے تجربہ کار اداکار سلمان شاہد اپنے بہترین دوست کو ایک بیک بینچر کے طور پر نہیں بلکہ ایک کامیاب انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ ہم ایک لمبے عرصے سے دوست رہے ،نوجوانی کے دور میں ہم دونوں ایسے افراد کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے ، جو فنکارانہ مشاغل کے حامل تھے ۔ہم نے تقریباً ایک ہی وقت میں الفا پلیئرز نامی گروپ کے ساتھ کام کا آغاز کیا ، اس گروپ میں میرے اور عمران اسلم کے علاوہ عثمان پیرزادہ اور شفقت محمود جیسے لوگ بھی شامل تھے۔

صحافت میں آمدسے پہلے، عمران اسلم ایک تخلیقی فرد کے طور خود کو اچھا لکھنے کےلیے پوری طرح تیار کرچکے تھے ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایسے ایسے کام کیے جن کی وجہ سے ان کا جھکاؤ صحافت کی طرف ہوتا چلا گیا، بلاشبہ صحافت کا شعبہ ان کےلیے بالکل مناسب تھا۔لاہور سے کراچی منتقل ہونے کے بعد، عمران اسلم ایک اداکار کے بجائے ایک مصنف کی حیثیت سے زیادہ مصروف ہوگئے ، اور انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسکرین پلے لکھنے اور مختلف تنظیموں کی سربراہی جیسے کاموں میں گذار دیا۔عمران اسلم نے ہمیشہ ہمارے گروپ میں کامیابی حاصل کی ، وہ کبھی بھی ’بیک بینچر‘ نہیں رہے ، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ناقابل تصور بلندیوں کو بھی چھولیا۔

Advertisement

کراچی ہی وہ شہر تھا ،جس نے عمران اسلم کو وہ آزادی دی جو انہیں بطور مصنف اور صحافی درکار تھی ۔انہوں نے روشنیوں کے شہر میں اپنی زندگی میں وہ سب کچھ کیا، جو وہ کرنا چاہتے تھے ۔اسٹیج پر اداکاری کرنے، اسکرین پلے لکھنے، اور اخبارات میں ایڈیٹنگ کے علاوہ انہوں نے نوجوانوں کو ان کی اپنی شناخت کروانے کے ساتھ ایک اچھا انسان بننے میں مدد کےلیے بھرپور وقت نکالا۔تجربہ کار اداکار ساجد حسن کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتاہے جنہیں ٹی وی کی اسکرین تک لانے میں عمران اسلم کا ہاتھ ہے۔

عام خیال کے برعکس، ساجد حسن کا پہلا ڈرامہ دھوپ کنارے نہیں بلکہ خلیج تھا،اور اس کے بعد ان دونوں کے راستے تقریبا جدا ہوگئے ۔ ساجد حسن اداکاری کے میدان میں جب کہ عمران اسلم معروف اخبار کے ایڈیٹر کے طور پر مصروف ہوگئے ۔ ساجد حسن نے5 دہائیوں پر محیط، اپنے دوستوں سے بہترین تعلق اور وابستگی کو شاندار الفاظ میں یاد کیا اور عمران اسلم کو خراج تحسین پیش کیا۔

ساجد حسن نے بتایا کہ میں نے عمران اسلم سے ایسے وقت میں ملاقات کی جب میری عمر کافی کم تھی اور میرے لیے زندگی میں کچھ بھی کرنےکےلیے بے پناہ مواقع اور امکانات موجود تھے ۔عمران اسلم سے ملاقات کی سب سے عجیب بات یہ تھی کہ انہوں نے میرے ساتھ برابری جیسا برتاؤ کیا، وہ دی سٹار کے ایڈیٹر تھے جب کہ میں ابھی بالکل نیا اور صحافی بننے کا خواہش مند تھا۔یہ سچ ہے کہ جب تک کوئی آپ سے یہ نہ کہے کہ آپ یہ کر سکتے ہیں، آپ واقعی کبھی بھی سفر کا آغاز نہیں کرتے ، مجھے یہ جملہ کہنے والے عمران اسلم تھے ۔انہوں نے نہ صرف میری حوصلہ افزائی کی بلکہ اداکاری کے میدان میں میں نے جو قدم بھی اٹھایا ، عمران اسلم نے میری حمایت ۔مجھے ان سے اپنی پہلی ملاقات کا واقعہ آج تک یاد ہے۔عمران اسلم نے ہمیں ایک گھنٹہ تک اپنی انتہائی لطیف حس کی بدولت خوب ہنسایا۔اُس وقت ہمیں اس بات کا بالکل احساس نہیں تھا کہ یہ وہ شخص ہے جو آگے جاکر شاندار ون لائنرز کی وجہ سے اپنا مقامل حاصل کرلےگا۔

اداکار ساجد حسن نے مزید بتایا کہ میرے پہلے اسٹیج ڈرامے سے لے کر عمران اسلم کے تحریر کردہ میری پہلی ڈرامہ سیریل’ خلیج‘ تک ، کراچی گرپس تھیٹر میں ان کی لکھی ہوئی ہر تخلیق میں ، میری شمولیت لازمی طور پر ہوا کرتی تھی۔

اس کے بعد ڈرامہ سیریل دھوپ کنارا ہوا اور ایک بار پھر ہمارے راستے جدا ہوگئے ۔ لیکن اکثرو بیشتر ہماری ملاقاتیں اور گپ شم ہوتی رہتی تھی ،لیکن دوستوں کی طرح ساتھ گھومنے پھرنے کے دن گذرچکے تھے ۔

ساجد حسن نے یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایاکہ ایک سال پہلے بیماری کے دوران عمران اسلم نے امید نہیں چھوڑی تھی اور معمول کی زندگی جیتے رہے ۔ان کے تمام دوست ان کی دلکش مسکراہٹ کو کبھی نہیں بھول سکتے ، جو ان کی شخصیت کا ہمیشہ حصہ تھی ۔ لیکن پھر وہ لکھنا نہیں چاہتے تھے ، اور یہ ایک ایسی بات تھی جس کی کسی بڑے صحافی سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی ۔ یہ وہ شخص تھا جو ایڈیٹرز کو ایڈیٹنگ اور لکھنے والوں کو لکھنے کا طریقہ سکھاتا تھا۔

Advertisement

ساجد حسن نے کہا کہ عمران اسلم کو رجحانات کا علم تھا لیکن وہ بے چارگی کے لالچ سے بہت دور تھا۔ انہوں نے تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم کو عظیم بنانے کےلیے کافی کچھ لکھا ۔ہم ہمیشہ سے ایک ایسی فلم کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جو اب کبھی نہیں بن سکے گی۔میری خواہش ہےکہ کسی دن اپنے دوست عمران اسلم کے ساتھ بیٹھوں اور کہانیاں سناؤں۔الوداع میرے دوست، خدا آپ کو اور آپ کے سونے جیسے دل کو سلامت رکھے۔عمران اسلم، میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔

عمران اسلم کی شخصیت کے جادو سے صرف ان کے دوست متاثر نہیں تھے بلکہ کافی حد تک جونیئر فنکار بھی ان سے متاثر تھے ، وہ لوگ جنھیں خود پر یقین تھا۔فلم اور ٹی وی کی اداکارہ ماہرہ خان کے مطابق عمران اسلم وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ان پر یقین کیا اور انہیں کہا کہ وہ ایسا مقام حاصل کریں گی ، جہاں تک بہت سے لوگ نہیں جاسکے ۔

مجھے وہ دن اب بھی یاد ہے جب عمران اسلم میرے گھر آئے اور مجھ سے نئے میوزک چینل پر کام کرنے کو کہا، جسے وہ لانچ کر رہے تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اس چینل سے میرے کیریئر کو مدد ملے گی۔اسی لمحے میں نے ان سے رابطہ قائم کیا، عمران اسلم مجھے کسی نہ کسی طرح مجھ سے بہتر جانتے تھے اور انہیں میری صلاحتیوں پر یقین تھا۔ یہ یقین اُس وقت کیا گیا تھا جب اسی ادارے کی انتظامیہ نے مجھے مارننگ شو کی پیشکش کی اور میں نے اسے شائستگی سے مسترد کر دیا کیونکہ میں نے فلمی دنیا پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی تھی ۔مجھے یاد ہےکہ اُس کمرے میں وہ واحد شخص تھا ،جس نے اپنی ٹریڈ مارک مسکراہٹ کے ساتھ مجھ پر یقین کیا، اور بعد میں مجھے بتایا کہ میں اسے اپنے وژن کی بدولت مزید بڑا بناؤں گا ۔

فلم’ بن روئے‘ کی اداکارہ ماہرہ خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جو بھی عمران اسلم کو جانتا تھا،اس کو علم تھا کہ اس کا ان سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرورہے اور یہی عمران اسلم کی شخصیت کی خوبصورتی تھی۔ ہم جب بھی ملتے تھے، وہ ہمیشہ مسکراتے رہتے اور اُس دن کے بارے میں بات کرتے تھے، جب میں نے سب پر واضح کردیا کہ میں فلم اسٹار بننا چاہتی ہوں۔ماہرہ خان نے مزید کہا کہ عمرا ن اسلم نے صرف اپنی زندگی نہیں گزاری بلکہ انہوں نے ہم سب کے لیے ایک مثال قائم کی ہے تاکہ ہم زندگی کی قدر اُسی طرح کر سکیں، جس طرح اس کی قدر کی جانی چاہیے۔وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے ہمیشہ موجود رہتے تھے ،ہر شخص کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ، غرض سب کےلیے ہمدردی کا جذبہ رکھتے تھے ۔اپنے انتقال کے بعد ممکن ہے کہ وہ دنیا سے چلے گئے ہوں لیکن وہ اپنے پیچھے وہ سب کچھ چھوڑ کر گئے ہیں جس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔

ماہرہ خان اپنے خوابوں کو پورا نہ کر پاتی اگر وہ ہدایت کار سرمد کھوسٹ کے ساتھ ان کے سپرہٹ ڈرامے ’ ہمسفر‘ میں کام نہ کرتیں۔تاہم، سرمد کھوسٹ کا خیال ہے کہ اگر عمران اسلم ان کی تشہیر کے لیے وہاں موجود نہ ہوتے تو وہ اس حد تک آگے نہیں بڑھ پاتے جس طرح انھوں نے زیادہ تر نوجوانوں کے ساتھ کیا۔ وہ اس حقیقت پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف عمران اسلم کے ساتھ کام کیا بلکہ اس عمل میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔

عمران اسلم ایک حقیقی طور پر باصلاحیت، اور نرم دل انسان تھے جن کی ہم سب کو اپنی زندگی میں بے حد ضرورت ہے، وہ شخص حکمت اور علم کے خزانے سے کسی طرح کم نہیں تھا۔ان کے ساتھ میری وابستگی اس وقت کی ہے جب ان کا چینل ’جانگلوس ‘ کو دوبارہ شروع کرنا چاہتا تھا اور انہوں نے مجھے اس پروجیکٹ کے لیے تیار کیا تھا۔جب میں کانفرنس روم میں داخل ہوا تو سب حیران رہ گئے کیونکہ بظاہر وہاں موجود لوگ سرمد صہبائی جیسے کسی بڑے مصنف کی آمد کے منتظر تھے ۔

Advertisement

وہاں مجھے دیکھتے ہی عمران اسلم نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا کہ اوئے تم نے غلطی نے سرمد صہبا ئی کی جگہ سرمد کھوسٹ کو بلالیاہے، چلو اس کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔اب اس پروجیکٹ کی ہدایت کاری کی ذمہ داری سرمد کھوسٹ پر ہی ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ یہ ایک مذاق تھا یا پھر انتظامی ٹیم کی غلطی لیکن اگلے دو رو ز تک ہم نے اس پراجیکٹ پر کام کیا اور میری ناول نگار شوکت صدیقی سے بھی ملاقات کروائی گی۔وہ صحیح معنوں میں حقیقی اور واضح انسان ہیں ، وہ اپنے نرم لہجے کی بدولت دوسروں کو اس طرح تسلی دیتے ہیں کہ سامنے والا یہ ماننے پر مجبور ہوجائے کہ جو وہ کہہ رہا ہے وہ صحیح ہے بھی یا نہیں ؟

سرمد کھوسٹ نے مزید کہا کہ جب وہ’ منٹو ‘بنا رہے تھے تو عمران اسلم جائزہ کمیٹی کے رکن کے طور پر ہمیشہ موجود ہوتے تھے ۔جب بھی میں انہیں شوٹ کے دوران ہر موقع پر انہیں وہیں پایا، وہ بلاشبہ اپنے تنقیدی تجزیئے کے حوالے سے بہت واضح سوچ رکھتے تھے۔انہوں نے ہمیشہ اپنی رائے اتنی شفقت اور گرمجوشی سے دی جو آج کل بہت دیکھنے میں آتی ہے۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی نے میری پیٹھ کو ہلکے سے تھپکی دی ہو۔

سرمد کھوسٹ نے ’جل پری‘ اور ’مورمحل ‘میں عمران اسلم کے ساتھ اپنے تعاون کے بارے میں بھی بات کی،ان دونوں پروجیکٹس وہ وہ معمول سے ہٹ کر خاصا مختلف تصور کرتے ہیں ۔

’جل پری‘ میری زندگی کا سب سے مشکل لیکن سب سے زیادہ اطمینان بخش پروجیکٹ بھی تھا۔اسے سرمد صہبائی نے لکھا تھا اور مجھے یقین ہے کہ یہ عمران اسلم ہی تھے جنہوں نے افسانوی ڈرامہ نگار کو اپنے اسکرپٹ پر مجھ پر اعتماد کرنے پر آمادہ کیا۔اس کے او ایس ٹی کےطور پر ہمیں راحت فتح علی خان کی ضرورت محسوس ہوئی اور جب میں نے ان سے اس حوالے سے بات کی تو وہ بغیر کچھ سوچے مان گئے ۔اس کے ساتھ ہی ،’مورمحل ‘ کے پائلٹ کو دیکھنے کے بعد، عمران اسلم نے اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور میری اس انداز میں تعریف کی جسے آس پاس کے لوگو ں نے شاید محسوس نہیں کیا۔سرمد کھوسٹ نے کہا کہ میرے کیریئر میں عمران اسلم کا بہت حد تک عمل دخل رہا ۔ وہ ہمیشہ ہمارے آس پاس نہ ہوتے ہوئے بھی موجود رہتے تھے ۔میں امید کرتا ہوں کہ وہ ایسی جگہ پر ہیں جہاں ان کے علم کی روشنی کی قدر ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہے۔

کچھ لوگوں کے لیے عمران اسلم ایک ایسے اینکر تھے جن پر وہ بہترین مشورے کے لیے انحصار کر سکتے تھے۔ٹی وی اور فلم کی تجربہ کار اداکارہ ثانیہ سعید کا کہنا ہےکہ عمران اسلم کبھی کبھی جانتے تھے کہ دوسرا شخص کیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہاں تک کہ وہ شخص اس حدتک یقین نہیں رکھتا تھا۔ ثانیہ سعید ٹی وی پر اداکاری کے بعد ، تھیٹر سے وابستگی کے حوالے سے سار ا کریڈٹ عمران اسلم کو دیتی ہیں ۔

Advertisement

ثانیہ سعید نے کہا کہ ٹی وی پر اپنا پہلا ڈرامہ کرنے کے بعد اگر عمران اسلم نہ ہوتا تو میں تھیٹر سے دور ہو جاتی۔ چونکہ میں نے گولیمار میں بچوں کے لیے بلوچی میں ان کے لکھے گئے ایک ڈرامے بریخت میں کام کیا تھا اس لیے وہ مجھے یاسمین اسماعیل کے حوالے سے جانتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کا بچوں کا تھیٹر ٹیلی ویژن پرآن ائیر تھا تو عمران اسلم نے مجھے مرینہ خان کے ادا کیے گئے کرداروں کے لیے منتخب کرلیا۔اگر بچوں کے اسٹیج ڈراموں کی بات کی جائے تو عمران اسلم کی طرح کسی نے نہیں لکھا اور چونکہ ان ڈراموں میں اسٹیج پر بڑوں نے بچوں کی طرح کام کیا، اس لیے وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔ان کے ڈرامے ماحول، سیاست، نسلی ہم آہنگی اور تشدد و جیسے موضوعات کے بارے میں تھے ۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے بچوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بہترین انداز میں اجاگر کیا۔عمران اسلم بطور ایک اداکار میرے والد کے ڈرامے ’ گیلیلیو ’ کا بھی حصہ تھے،اسی لیے میں اداکاری کے میدان میں بھی ان کی مہار ت کی قائل ہوچکی ہوں۔

ثانیہ سعید نے مزید کہا کہ عمران اسلم کی حس مزاح نے انہیں اپنے ہم عصروں سے بالکل الگ کر دیا تھا کیونکہ ان کا تعلق جدید شہری اور انگریزی زندگی سے تھا۔انہوں نے کبھی بھی اپنی ذہانت کا مظاہرہ نہیں کیا اور ہمیشہ دوسرے شخص کو اپنی موجودگی سے راحت و سکون کا احساس فراہم کیا۔

ثانیہ سعید نے بتایا کہ میں نے اپنے ایک ٹاک شو کے لیے ان کا انٹرویو کیا اور جب سے انھوں نے یہ کہہ کر گفتگو شروع کی کہ اس کی ماں کسی حد تک دیوانی ہی ہیں تو میری لیے یہ ایک بہت اچھا تجربہ ثابت ہوا ۔ پہلے تو میں کچھ حیران ہوئی لیکن پھر انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کردی ۔ان کے مزاحیہ انداز سے واضح ہوگیا کہ وہ اپنے وقت کی ایک فعال خاتون تھیں ، ایسی خاتون جن کی پرورش اگر کرنے کی کوشش کی جائے تو اسے غیر قانونی قرار دے دیا جائے ۔

اس انٹرویو میں عمران اسلم نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کی والدہ نے ان کے چھوٹے بھائی کو کنویں پر لٹکا کر سزا دی تھی کیونکہ وہ شام کے اوقا ت میں سونے کے لیے تیار نہیں تھا۔پورےانٹرویو کے دوران انہوں نے میرے ساتھ ایسا رویہ رکھا جیسے کہ میں ایک بچی ہوں لیکن کسی بھی لمحے مجھے اس بات کا احساس نہیں دلایا کہ میں کسی بھی لحاظ سے کمتر ہوں ۔

تھیٹر کے لیے لکھنے کے بعد عمران اسلم نے ٹی وی کا رخ کیا اور 1986ء میں نشر ہونے والے اپنے پہلے ہی ڈرامے’ خلیج ‘سے کامیابی حاصل کی اور دنیا کو باصلاحیت اداکار آدرش ایاز سے متعارف کرایا۔اس ڈرامے میں ڈوڈو کا کردار ادا کرنے والے اداکار عمران اسلم کو سب سے پہلے اپنے والدین کے دوست کے طور پر یاد کرتے ہیں۔اس کے بعد کسی ایسے شخص کے طور پر جس نے ان کے اندر چھپے ٹیلنٹ کو دریافت کیا، جو کوئی اور نہ کرسکا تھا۔

اداکار آدرش ایاز نے بتایا کہ میرے والدین بابر ایاز اور نجمہ بابر دونوں صحافی تھے اور اسی طرح میں عمران اسلم کو جانتا تھا، جو ان کے ساتھ دی سٹار میں کام کرتے تھے۔جب وہ ڈرامہ خلیج لکھ رہے تھے تو انہیں ایک نوجوان لڑکے کی ضرورت تھی جو ان کی اصل کاسٹنگ کی جگہ لے سکے ،کیونکہ وہ اسی دوران امتحانات میں مصروف تھے ۔ اور پھر انہوں نے مجھے اپنی والدہ کے دفتر میں لوگوں کی زندگیوں میں خلل ڈالتے ہوئے دیکھااور ہنستے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے اداکاری کرنے دیں گی ؟

Advertisement

اس کے بعد ساحرہ کاظمی نے میرا آڈیشن لیا جس کے بعد میں نے بطور اداکار اپنے کیرئیر کا آغاز کیا، اس لحاظ میں میں ساحرہ کاظمی کے سااتھ ساتھ عمران اسلم کا بھی مقروض ہوں جنہوں نے میرے کریئر میں آغاز میں میری مدد کی کیونکہ یہ وہی تھے جنہوں نے مجھے دیکھا اور تجویز دی کہ مجھےاداکاری کی طرف مائل ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بڑے ہو کر انہوں نے عمران اسلم کو ایک راک ا سٹار صحافی کے طور پر دیکھا جس کے ارد گرد لوگ جوق در جوق جمع رہتے تھے کیونکہ وہ اسٹیج ڈرامے لکھتے تھے، اور اداکاری کے ساتھ ساتھ اخبارات کی ایڈیٹنگ کرتے تھے۔وہ یہ جانتے تھے ان لوگوں کی رہنمائی کیسے کرنی ہے جن میں تخلیقی موجود تھی۔وہ ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کو پروموٹ کرتے ہیں اسی لیے مجھے بھی ان کے ساتھ کام کر کے خوشی ہوئی۔ہمارا انٹرویو ایک دلچسپ مکالمہ بن گیا جب انہوں نے میز پر گلاس رکھ کر مجھ سے کہا کہ میں اس کے ارد گرد ایک کہانی تخلیق کروں ، میں نے ویسا ہی کیا اور پھر مجھے منتخب کرلیا گیا۔

آدرش ایاز نے کہا کہ ’’وہ شخص جس نے ہمیشہ سماجی اور سیاسی طور پر شعوری ڈرامہ لکھا ان کی زندگی بھر کی خواہش تھی اور وہ اسکرین پر قائداعظم محمد علی جناح کا کردار ادا کر رہے تھے۔ وہ اس وقت بہت مایوس ہوئے جب انہیں اس فلم میں فادر آف نیشن کا کردار ادا کرنے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا جس میں کرسٹوفر لی مرکزی کردار میں تھے۔ اس کردار کو نبھانا ان کا خواب تھا جو اس وقت پورا ہوا جب ان کے چھوٹے بھائی نے ایک مختصر فلم تیار کی اور انہیں اس کردار میں کاسٹ کیا۔ انہوں نے نے نہ صرف اس کردار کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ اس کردار کے لیے موزوں تھے۔ اس کے علاوہ، اپنے جاننے والے بہت سے لوگوں سے بہت سینئر ہونے کے باوجود، عمران اسلم کو ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے اپنا اثر و رسوخ کا غلط استعمال کیا۔ اس طرح ہم سب کو انہیں ایک ایسے تخلیقی ذہن کے طور پر یاد رکھنا چاہیے جواپنی زندگی میں دلچسپ چیزیں کرناا چاہتے تھے اور اپنی زندگی میں ایسا کرنے میں کام یاب رہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’بہت سی صلاحیتوں کے مالک عمران اسلم اب ہم میں نہیں رہے۔ تاہم، وہ اپنے تخلیقی کام کے ساتھ ساتھ اپنے پیچھے چھوڑی گئی افزودہ میراث کے ذریعے زندہ رہے گا۔‘‘

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پہاڑوں میں چھپی ایک مقدس نشانی
بابا گرونانک کا 556 واں جنم دن، بھارتی سکھ یاتریوں کی ننکانہ صاحب آمد
مفتی تقی عثمانی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر دنیا کے با اثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل
27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پہلے سینیٹ میں پیش کی جائے، اسحاق ڈار
متنازع ترین نائب امریکی صدر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
ایشیا کپ میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی، آئی سی سی نے سزاؤں کا اعلان کر دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر