Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ڈریپ کے تاخیری حربے

Now Reading:

ڈریپ کے تاخیری حربے

قانون سازی میں تاخیر اہم طبی آلات کی درآمد میں رکاوٹ بننے لگی

وفاقی حکومت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے تجویز کردہ میڈیکل ڈیوائسز رولز 2017ء میں ضروری ترامیم پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے محکمہ کسٹم کی جانب سے درجنوں قومی اور ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے ہزاروں طبی آلات کی کلیئرنس روک دی گئی ہے جس کے سبب ملک بھر کے مریضوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں۔

کثیر القومی ادویہ ساز اداروں کی جانب سے حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ میں مختلف مقدمات دائر کیے گئے تھے، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی تمام شرائط کو پورا کرنے کے باوجود پاکستان کسٹمز جان بچانے والے طبی آلات بشمول کووِڈ-19 ٹیسٹ کٹس کو کلیئر نہیں کر رہا۔

جسٹس عدنان اقبال چوہدری پر مشتمل سندھ ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کے روبرو پیداوار اور درآمد میں مختلف فنکشنز کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے درخواست گزاروں کے وکیل نے بتایا کہ وزارت قومی صحت وخدمات کے ماتحت ایکٹ 2012ء کے تحت قائم کردہ DRAP پاکستان میں علاج کے سامان کی پیداوار/تیاری، فروخت اور درآمد کو منظم کرنے کا کام کرتی ہے۔

میڈیکل ڈیوائسز بورڈ ایک قانونی ادارہ ہے جسے ڈریپ ایکٹ اور میڈیکل ڈیوائسز رولز 2017ء کے تحت تشکیل دیا گیا ہے، اُسے مذکورہ قوانین کے ذریعے رجسٹر کا جائزہ لینے اور رجسٹریشن کی تجدید کرنے کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔کسٹمز اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو میڈیکل ڈیوائسز رولز 2017ء کے سیکشن 25 کے تحت شپمنٹس جاری کرنے کے مجاز ہیں۔

Advertisement

درخواست گزار کئی برسوں سے اہم طبی آلات کی درآمد، فراہمی اور تقسیم کے کاروبار سے منسلک ہیں، جن میں جگر کے افعال، کارڈیک مارکر، کوویڈ 19 ٹیسٹنگ کٹس، پی سی آر ٹیسٹ اور آئی سی یو مانیٹرنگ جیسے موثر اور تشخیصی لیبارٹری ٹیسٹنگ کے آلات شامل ہیں۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے وضاحت کی کہ پاکستان میں ڈریپ قانون 2012ء کے تحت طبی آلات کو قواعد کے مطابق ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ اس قانون کو 2018ء میں منظور کیا گیا تھا۔ قوانین کے تحت میڈیکل ڈیوائس کے درآمد کنندہ کو طبی آلات کی درآمد کے لائسنس کے ذریعے ڈریپ کے میڈیکل ڈیوائسز کی تقسیم سے پہلے منظوری حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ درآمد کنندہ کو درآمدی طبی آلات کو رجسٹر کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیوائس کی درجہ بندی کا نظام چار کلاسوں پر مشتمل ہے جہاں کلاس اے سب سے کم اور کلاس D سب سے زیادہ خطرے کی نمائندگی کرتا ہے۔

وکیل نے یہ بھی بتایا کہ درخواست گزاروں نے قانونی طور پر اندراج شدہ اپنے لوازمات کے ساتھ طبی آلات کی رجسٹریشن کے لیے مختلف درخواستیں دیں۔ جو ان کے بنیادی تیار کنندگان سے درآمد کیے گئے تھے اور ان کی منظوری کے لیے پروڈکٹ ڈوزیئر کے ساتھ تمام متعلقہ دستاویزات بورڈ آف میڈیکل ڈیوائسز کو فراہم کیے گئے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ قوانین کے نفاذ کے بعد سے تیار کنندگان اور درآمد کنندگان کے لیے تشویش کا سبب بنے ہوئے ہیں اور اسی سے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کی پرواہ کیے بغیر رجسٹریشن اور لائسنسنگ کی مبہم شرائط عائد ہوتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو بہتر صحت کی دیکھ بھال اور زندگی کے بہتر معیار کی ضرورت ہے۔ نتیجتاً ملک میں ضروری طبی آلات کی تیاری اور فروخت کو آسان بنانے کے حوالے سے ضروری ترامیم کے لیے میڈیکل ڈیوائسز رولز 2017ء پر مسلسل غور و خوص کیا جارہا ہے۔ اسی وجہ سے وفاقی حکومت نے پہلے بھی قواعد پر عمل سے استثنیٰ میں توسیع کی تھی۔

جس کے مطابق کلاس اے، بی، سی، اور ڈی کے طبی آلات کو مختلف ادوار کے لیے رجسٹریشن سے استثنیٰ کی اجازت دی گئی تھی، جن میں سے تازہ ترین کلاس اے کے لیے ہے، جس کی میعاد 31 دسمبر 2022ء کو ختم ہو رہی ہے۔ کلاس بی سی اور ڈی کے لیے استثنیٰ کی مدت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔

وکیل نے وضاحت کی کہ درآمد شدہ طبی آلات بڑے پیمانے پر پاکستان بھر کے ہسپتالوں اور اداروں کو فراہم کیے جاتے ہیں اور درخواست گزاروں کی جانب سے ہسپتالوں کو آزادانہ طور پر اپنی مصنوعات کی فراہمی میں ناکامی سے مارکیٹ کی طلب اور رسد میں بہت بڑا فرق پیدا ہو گا۔

Advertisement

وکیل کے مطابق درخواست گزاروں کی شکایت یہ ہے کہ کسٹمز حکام طبی آلات کی درآمد کے لیے پہلے سے جاری اسٹیبلشمنٹ سرٹیفکیٹ نہ قبول کررہے ہیں اور نہ ہی مختلف بندرگاہوں سے سامان کلیئر کررہے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ کسٹم قانون میں آلات کی درآمد کے لیے عارضی اندراج اور رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہے، جس کا کسٹم حکام مطالبہ کر رہے ہیں۔

وکیل کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ صورتحال اس لیے پیدا ہوئی ہے کیوں کہ وفاقی حکومت بیان کردہ ترامیم کی منظوری کے لیے اپنے ریگولیٹری فرائض ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے جو پہلے ہی DRAP کے ذریعے پیش کی جا چکی ہیں۔ اس لیے درخواست گزاروں کو قواعد میں ترامیم کی منظوری میں تاخیر کے لیے جوابدہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

سرکاری وکلاء اور ڈریپ حکام، عدالت سے مختلف قسم کے ہتھکنڈوں کے ذریعے کیس ٹو کیس کی بنیاد پر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، متعدد مسائل جنم لیتے رہتے ہیں، جن کی سماعت کے دوران مختلف فرمز کے وکیل نے نشاندہی کی تھی کہ قواعد میں ڈریپ کی طرف سے پیش کی گئی ترامیم کو منظور کر کے حل کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
کراچی: ای چالان سسٹم کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر
فیلڈ مارشل کا دورہ پشاور، افغانستان کو واضح پیغام دے دیا
بھارتی بینک کی وائی فائی آئی ڈی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نام سے تبدیل، ہنگامہ برپا ہوگیا
پی آئی اے کی نجکاری ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گئی
امریکی ناظم الامور کی خواجہ آصف سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
سیکیورٹی فورسز کی اہم کامیابی، ٹی ٹی پی کے نائب امیر قاری امجد کا خاتمہ کر دیا گیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر