Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

نظریہ لزومت کی مشق

Now Reading:

نظریہ لزومت کی مشق

جب “کم ہے زیادہ” کی اصطلاح سب سے پہلے شاعر رابرٹ براؤننگ نے 19ویں صدی کے وسط میں اپنی ایک نظم میں متعارف کرائی تھی اور ایک صدی بعد مشہور ڈیزائنر اور آرکیٹیکٹ لوڈویش میس وین ڈو روہا نے جدیدیت پسند ڈیزائن اور فن تعمیر کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا تھا،تو شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ اسے کارپوریٹ دنیا میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

بالکل، سرمایہ دارانہ، خودغرض، بے روح، منافع کا پیچھا کرنے والا، ہمدردی کے جزیروں کے ساتھ کارپوریٹ دنیا سے کام کا مطالبہ کرنے والا انتہائی بدنما جزیرہ “زیادہ سے زیادہ ہے” کی بہتر وضاحت کرتا ہے اور اب بھی بہت سے لوگوں کی نظر میں ایسا ہی ہے۔یہ پاکستان کی حکومت کو بین الاقوامی قرض دہندگان اوراتحادیوں دونوں کی جانب سے سننے والے بدنام اور مایوس کن مطالبے”ڈو مور” سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔

Advertisement

اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب نظریہ لزومت ( نیویارک ٹائمز کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب) کو دیکھا،جس میں اس کے مصنف گریگ میک کیون زیادہ حاصل کرنے کے لیے کم کام کرنے پرزور دیتے ہیں،یہ اتنا ہی غیرمتوقع تھا، جتنا کہ یہ دلکش ہے۔ کم’ کا یہاں قطعی شکل میں تصور پیش نہیں کیا گیا ہے۔ ہم سب کو سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے،مصنف صرف آپ کو بہت سارےایسے کام کرنے سے بازرہنے کو کہتا ہے جو ضروری نہیں ہیں۔ یہ” زیادہ محنت نہ کرو بلکہ اسمارٹ کام کرو” سے زیادہ مختلف نہیں، لیکن کہاں اور کیا کام کرنا ہے،سے اس کی تکمیل ہوتی ہے۔

مشہور صنعتی ڈیزائن کے ماہرڈائیٹرریمز کی کتاب “کم لیکن بہتر”، سادگی اور بے ترتیبی کی کمی پر مبنی اپنے پروڈکٹ کے 20 ڈیزائن پیش کیے ہیں،گریگ میک کیون نے جان بوجھ کر یا غیرارادی طورپر اس پر اپنا نظریہ تعمیر کیا ہے۔

گریگ میک کیون نے اپنی کتاب میں جو کچھ بھی تحریر کیا ہے وہ اس بنیادی بیان پرمبنی ہے کہ صرف اس لیے کہ آپ متحرک ہیں،تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پیداواری بھی ہیں۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں نظم و ضبط سے کم کرنا پڑتا ہے ۔

اس کا ایک طریقہ کار یہ ہے کہ کام پربہت سی چیزوں کو ‘نہیں’ کہنا چاہئے۔میں جانتا ہوں کہ یہ کافی مشکل ہے، خاص طورپرجب آپ پر کوئی زہریلا باس یا کوئی ایسا شخص مسلط ہوجو یقین رکھتا ہوکہ سب کچھ ضروری اور لازمی ہے،لیکن آپ کو پھر بھی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا ۔

نظریہ ضرورت کی پیروی کرنے والا ایسا کرے گا جبکہ کہ نظریہ ضرورت کا مخالف اس بات پراصرار کرتا ہے کہ ہرچیز اہم ہے اوراس میں سب کچھ فٹ کرنے کے طریقے تلاش کرتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس نظریہ لزومت کا حامی شخص اس بات پر اصرار کرے گا کہ صرف چند چیزیں اہم ہیں اور پوچھے گا کہ برابر کا سودا کون سا ہے؟

جب میں مارکیٹنگ کے شعبے کا سربراہ تھا تو ایسا لگتا تھا کہ پوری دنیا ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے۔ مسابقت خوردہ فروشوں کے لیے نئے برانڈزیا مراعات جاری کرنے پر مجبور کرتی رہی، ہمارے تقسیم کار زیادہ اسٹاک کا مطالبہ کرتے رہے، جسے فیکٹری اتنی تیزی سے پیکج نہیں کرسکی اور ٹرک والے مزید رقم مانگتے رہے۔ اس کا مطلب اندرونی اوربیرونی مطالبات پورے کرنے کے لیے دن رات کام کرنا تھا۔ تاہم، ایک چیز جومیں ہمیشہ لکھتا تھا کہ اگر میں نے اسے پہلے سے نہ سنبھالا تو آسمان گرجائے گا، اورمجھے ایسا کیا کرنا پڑا کہ اگرایسا نہ کیا کرتا تو ہرگز آسمان نہیں گرتا۔

Advertisement

یہی کلید ہے۔ اپنے آپ سے وہی سوال پوچھیں اوراپنے ذہن سے جواب حاصل کرنے کے لیے بار بار دہرائیں ۔ ضروری نہیں کہ سب کچھ کیا جائے یا کم از بیک وقت کیا جائے۔ اپنے کام کرنے والے ساتھیوں کے پاس جائیں جو آپ پر کسی کام کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں اورمسئلے کی بنیاد کو سمجھیں۔

بعض اوقات دراصل وہ تھوڑا انتظار کرنے پرراضی ہوجائیں گے۔ مجھے یقین ہے کیونکہ اس طریقے نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے۔ اکثروہ شور مچاتے ہیں کہ کام اصل ڈیڈ لائن سے کچھ دن پہلے مل جائے۔ بس اس شخص کو اپنے کام کی فہرست بتائیں اوراس بات کا ذکرکریں کہ آپ کی ترجیح کیا ہے۔ یہ سب معقول لوگ ہوتے ہیں اورآپ کی بات کو سمجھیں گے اورآپ کے ساتھ تعاون کریں گے۔ جب تک آپ دستیاب وقت میں ایمانداری سے کام کرتے رہیں۔

اگرچہ اس سےبڑھ کر جب برابری کے مبادلے کی بات آتی ہے تو آپ کو اپنے آپ سے ایماندار ہونا پڑے گا۔ بعض اوقات، ہم ایسی کام کرتے ہیں، جس سے آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں یا انہیں کرنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔ لہذا ہم ایسے کام پہلے کرتے ہیں یا انہیں مزید وقت دیتے ہیں، جب کہ ایک مشکل کام کو بعد کے لیے رکھ لیا جاتا ہے۔ اس طرح یقیناً ہم عقلیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن اگر ہم اپنے تعصب یا اگر کوئی خوف ہے تواسے ایک جانب رکھیں، ہم حقیقت کا ادراک کر سکتے ہیں کہ دوسرا کام زیادہ اہم ہے، چاہے وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔

آپ یہ کرنا چاہئے کہ آپ ان تمام کاموں کا جائزہ لیں جو آپ کی ذمہ داری ہیں اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ اگر آپ آج صرف ایک کام کر سکتے ہیں، تو وہ کون سا ہوگا؟ پھرآپ جو فیصلہ کریں گے، وہ کام اس دن کے لیے آپ کی پہلی ترجیح بن جائے گا۔

پیشہ ورانہ اورذاتی زندگی کے درمیان بھی برابر کےمبادلے کے تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔ میں نے ذاتی زندگی اوراہداف کو نظرانداز کرنے کی غلطی کی تھی اورجب میرے پاس توانائی اورصحیح وقت تھا تو واقعی میں نے وہ کتاب کبھی نہیں لکھتا۔ وہ اضافی دو سے تین گھنٹے جو میں نے ان کاموں پر کام کرنے میں صرف کیے جو میں کسی ماتحت کو سونپ سکتا تھا یا اس پر بھروسہ کر سکتا تھا وہ اپنے ذاتی مقاصد کو حاصل کرنے میں صرف کرنا بہترہوتا۔ لیکن میں تخلیقی خیالات اوران پرعمل درآمد کی جانب اس قدرمتوجہ تھا کہ اکثرمیں ہفتے میں کئی گھنٹے بے ترتیب سوچوں میں گزارتا تھا، جن میں سے کافی پر عملنہیں کیا ۔

آپ کہیں گے کہ یہ سب بہت آسان ہے لیکن عملی نہیں۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ایسا لگتا ہے جب آپ جسمانی یا ذہنی طورپرجلدی میں ہوں،لیکن ہمیشہ وہ آدھا گھنٹہ آپ کے پاس ہوگاجسے آپ اپنے ذہن میں موجود بے ترتیبی کو ختم کرکے نکال سکتے ہیں یا آپ کوجوکام کرنے ہیں ان کی فہرست ترتیب دیں اورپھرانہیں نمبر تفویض کریں۔

Advertisement

نہ صرف انہیں ترجیحی ترتیب میں درج کرنا بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ انکم اسٹیٹمنٹ یا کمپنی کی بیلنس شیٹ کے لیے بہتر نمبر کیا ہو گا۔ جیسا کہ گریگ میک کیون کہتے ہیں کہ توجہ مرکوز رکھنے کے لیے، ہمیں توجہ مرکوز کرنے کے لیے فرار ہونے کی ضرورت ہے۔

پیریٹو اصول، جو کہتا ہے کہ 80 فیصد نتائج 20 فیصد وجوہات سے آتے ہیں (مثال کے طور پر آپ کی آمدنی کا 80 فیصد آپ کے کلائنٹس کے 20 فیصد سے آتا ہے) یہاں بھی لاگو ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ گریگ میک کیون نے اشارہ کیا کہ نظریہ لزومت کا پیروکار یہ نہیں کہتا کہ “مجھے کیا ترک کرنا ہے؟” بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ “میں کیا کرنا چاہتا ہوں؟”

مجھے ایک وقت یاد ہے جب مجھے اپنی کمپنی کے لیے ایک اہم انٹرپرائز ریسورس پلاننگ( ERP) خریدنا پڑا اورگروپ کی آئی ٹی کمپنی کے سی ای او کے ساتھ وقت کی اشد ضرورت تھی، جس سے میں وہ ERP خریدنا چاہتا تھا۔ اس کا مطلب تھا ایک گھنٹے کے دو سیشن اور بہت زیادہ سوچ بچار کی، کیوں کہ اعلیٰ سطح کے ان پٹ کی ضرورت تھی۔ لیکن ان سے وقت لینا ہمیشہ ایک چیلنج ہوتا تھا اور ایک بار جب میں نے گروپ کے نائب صدر سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ایک ملین ڈالر کے معاہدے پرعمل پیرا ہیں اور اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے میں اپنا سارا وقت صرف کر رہے ہیں اور انہوں نے کنٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے دیگر مصروفیات سے علیحدہ کرلیا ہے،جس کے لیے کمپنی آئندہ تین سال کے لیے کام کرے گی۔ یقینا،آپ کو بعض اوقات بہت خودغرض ہونا پڑتا ہے یہاں تک کہ اگراس سے کوئی رشتہ بھی متاثر ہورہا ہو۔

گریگ مک کیون اس نکتے کو بھی سامنے لائے ہیں کہ نظریہ لزومیت کا مخالف شخص قابو سے باہراور تھکا ہوا محسوس کرے گا، جواس کی فیصلہ سازی کی صلاحیت اوریہاں تک کہ کام کے معیار کو بھی متاثر کرے گا۔ نظریہ لزومیت کا پیروکار اس اصول سے واقف ہے اوراہم کام کے لیے وقت نکالتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اسے بہترین امکانات کے مطابق سرانجام دیا جائے۔

باس ہو سکتا ہے اس بات کو نہ سمجھے لیکن اکثریت سمجھے گی اگر آپ انہیں یہ بتائیں کہ ایک ساتھ بہت سارے کام کرنے سے زیادہ اہم کام کے معیارپراثر پڑے گا، جسے کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے باس بھی کبھی ماتحت تھا۔

ایک اورشعبہ جہاں نظریہ لزومیت کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ جب آپ کو اپنے نقصانات کو کم کرنے اور کسی ایسے پروجیکٹ کو بند کرنے کی ضرورت ہے جو فائدہ نہیں پہنچا رہا ہے یا اس میں کم مواقع پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر میرے پاس ایک کلائنٹ تھا، جس نے ایک اقدام شروع کیا،جس میں واضح طورپر کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا، اگراسے سامعین کی جانب سے مخالف ردعمل حاصل ہوتا۔ میں نے اس سے کہا کہ بہتر ہے کہ اپنے نقصانات کو کم کریں اورایک اور دستیاب موقع پرتوجہ مرکوز کریں،جو اس کی فہرست میں موجود تھا۔ لیکن وہ اپنی شروع کردہ اقدام کوزیادہ وقت اورپیسہ لگاتا رہا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے وہ موقع گنوادیا جو اس کی فہرست میں شامل تھا اورآخر کار اپنے پہلے منصوبے کو بھی بند کرنا پڑا۔ صرف اس لیے کہ اس نے اپنی ترجیحات کو غلط سمجھا۔

Advertisement

نظریہ لزومیت ہرجگہ پایا جاتا ہے۔گریگ میک کیون نے ایک فلمساز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک اچھا فلمساز اس بات کو مشکل بناتا ہے کہ وہ غیراہم چیزوں کوتوجہ دے کیونکہ وہ ضروری چیزوں کےعلاوہ ہر چیز کو ختم کر دیتا ہے ۔

آپ کی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں بھی ایسا ہی ہے۔ اپنی زندگی کو ایک ایسی فلم سمجھیں جو دیکھنے لائق ہو۔ اور اسے اس طرح جئیں کہ ہر کسی کے لیے اسے دیکھنا لازمی بن جائے۔

(مضمون نگار ایک کارپوریٹ کنسلٹنٹ، کوچ اور سابق سی ای او ہیں جن کے پاس قیادت، برانڈز بنانے اور تنظیمی حکمت عملی میں 35 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔ اب وہ کاروباری حکمت عملی، مارکیٹنگ، ہیومن ریسورس اور میڈیا مینجمنٹ پر مشورہ دیتے ہیں)

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
خیبرپختونخوا؛ سیکیورٹی فورسز کی دو کامیاب کارروائیاں، بھارتی حمایت یافتہ 3 دہشت گرد ہلاک
سینیٹ اجلاس کل طلب؛ 18 نکاتی ایجنڈا جاری
27 ویں آئینی ترمیم؛ سینیٹ و قومی اسمبلی میں نمبر گیم دلچسپ مرحلے میں داخل
صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی کا اجلاس 5 نومبر کو طلب کر لیا
ملک بھر میں 8 نومبر تک موسم کیسا رہے گا، این ڈی ایم اے کی رپورٹ جاری
پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کا نیا ریکارڈ قائم، اسٹیٹ بینک
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر