بدترین سیلاب کے بعد مولانا بھاشانی کے بائیکاٹ پر جنرل یحیی الیکشن ملتوی کرکے ملک کو ٹوٹنے سے بچا سکتے تھے
دِل بہت دُکھی تھا ۔۔ آنسو نہیں تھم رہے تھے ۔۔ بے چارگی کا عالم تھا ۔۔ بے بسی چھائی تھی ۔۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ سُنہرا بنگال بچھڑ جائے گا۔ مولانا عبدالحمید بھاشانی چیختے رہے کہ مشرقی بازو بدترین سیلاب سے تباہ ہو چکا ہے، انتخابات کو ملتوی کر دیا جائے مگر اُن کی بات نہ سُنی گئی۔ مشرقی پاکستان کے اس سیلاب کو بھولا سیلاب کا نام دیا گیا ہے۔ 8 نومبر 1970ء کو طوفانی ہوائیں 240 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنا شروع ہوئیں۔ ہر سُو تباہی پھیلی تھی، پورا بنگال سیلابی پانی کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ پانچ لاکھ افراد زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔ 8 نومبر سے 13 نومبر تک ہر طرف تباہی کے آثار نظر آ رہے تھے۔ پورے مشرقی پاکستان پر پہلے تین منٹ ہی اتنے بھاری تھے کہ کسی نے اِس کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ جو دیکھ رہے تھے اُن کیلیے وہ قیامت صغریٰ تھی اور جو چلے گئے وہ قیامت کو دیکھتے دیکھتے گزر گئے۔ پہلے تین منٹ میں ہوا کی رفتار 185 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی، اگلے ایک منٹ میں یہ رفتار بڑھ کر 240 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچی اور جب اس کا زور ٹوٹا تب بھی اس کی رفتار تباہ کن ہی رہی۔ سارے دریا اُبل پڑے۔ چہار جانب موت کا راج تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ یکم نومبر 1970ء کو چین کے جنوبی سمندری ساحل پر بحرالکاہل میں نورا نامی طوفان نمودار ہوا۔ چار روز تک یہاں مدّ و جزر رہا۔ 5 نومبر کو نورا نے مغرب میں خلیج بنگال کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ یہاں اِس کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ 8 نومبر کو نورا بھولا بن کر خلیج بنگال کے ساحلوں سے ٹکرایا اور پورے مشرقی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس طوفان کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے قطعی درست اعداد و شمار شاید کبھی بھی معلوم نہ ہوسکیں۔ ابتدا میں ہلاک شدگان کی تعداد تین لاکھ بتائی گئی جو چند ہی روز میں بڑھ کر پانچ لاکھ ہوگئی۔
نومبر میں یہ تباہی پھیلی ہوئی تھی اور 7 دسمبر 1970ء کو عام انتخابات ہونے والے تھے۔ مشرقی پاکستان میں تمام زمینی ذرائع آمد و رفت طوفان اور سیلاب کی نذر ہوچکے تھے۔ پورے بنگال میں کشتیاں چل رہی تھیں۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کشتیوں میں اپنی جانیں بچاتے پھر رہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت عوامی لیگ کا انتخابی نشان کشتی تھا۔ سرکاری ریڈیو پر گانا چل رہا تھا “مولا علی اے شیرِ خدا میری کشتی پار لگا دینا”۔ شیخ مجیب چھ نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ ان حالات میں بنگال دوسری بڑی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (بھاشانی گروپ) نے عام انتخابات کے التوا کا مطالبہ کر دیا اور کہا کہ ان حالات میں انتخابات کرانے کا مطلب ملک کو توڑنے کے مُترادف ہوگا۔ صدر جنرل یحییٰ خان نے بھاشانی کے مطالبے کو بالکل نظرانداز کردیا۔ بھاشانی کئی روز تک انتخابات کے التوا کا مطالبہ کرتے رہے مگر صدر جنرل یحییٰ، جنرل عبدالحمید خان، جنرل پیرزادہ اور جنرل یحییٰ کی ٹیم کے دیگر جرنیل انتخابات کے التوا کا نام سننے کو تیار نہیں تھے۔ انتخابات سے صرف دو ہفتے قبل 23 نومبر 1970ء کو بنگال کی دوسری بڑی طاقتور جماعت نیپ (بھاشانی) نے ڈھاکا کے پلٹن میدان میں ایک بہت بڑے اجتماع کا اہتمام کیا۔ اِس مقام پر لاکھوں کے اجتماع سے 90 سالہ بُزرگ مولانا عبدالحمید بھاشانی نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر جرنیل انتخابات ملتوی نہیں کرتے تو پھر ہماری طرف سے السلام علیکم یعنی خدا حافظ سمجھو۔
یہ مولانا بھاشانی کی طرف سے مایوسی کی انتہا تھی۔ ہم اسی سال مارچ 1970ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کی جانے والی تقریر اخبارات میں پڑھ چکے تھے۔ جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ فوجی حکمرانوں نے عوامی مطالبات ماننے کیلیے جلاؤ گھیراؤ اور گوریلا جنگ کے سوا کون سا راستہ باقی چھوڑا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اِن حکمرانوں سے آزادی کیلیے جدوجہد کے سوا کوئی اور دوسرا راستہ نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میں حکمرانوں کے خلاف ملک کے دونوں بازوؤں میں تحریک چلاؤں گا۔ اُنہوں نے کہا کہ سوشلزم دراصل اسلام سے ہی لیا گیا ہے اور سوشلسٹ انقلاب کیلیے عوامی جدوجہد بہت ضروری ہے۔ اُنہوں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس سے خطاب کے بعد لاہور میں طلبا سے بھی خطاب کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ ہم اقتدار میں آنے کے بعد ہر چیز قومی ملکیت میں لے لیں گے اور نجی ملکیت کو بالکل ختم کردیں گے۔ ہم ساری زمین، تمام مکانات، سرمایہ داروں کی ساری ملیں ضبط کرکے عوام میں تقسیم کر دیں گے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ سرمایہ دار اور جاگیردار عوام کے دشمن ہیں اور ہم عوام کے دشمنوں کونہیں چھوڑیں گے”۔
مولانا بھاشانی کی ایسی ہی تقریریں بنگال میں بھی بڑے بڑے اجتماعات میں سنی جا رہی تھیں۔ مغربی پاکستان کا حکمراں طبقہ جو جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور فوجی جرنیلوں پر مشتمل تھا، مولانا کی ان تقریروں سے خوفزدہ تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ ملک کے مغربی بازو میں دو جماعتیں پہلے ہی اِسی منشور پر انتخابات لڑ رہی ہیں اگر انتخابات جیت کر یہ تینوں جماعتیں اتّحاد کرلیتی ہیں تو یہ ملکی سیاست اور طاقت کے مراکز کی کایا پلٹ کر دیں گی۔ یہی وجہ تھی کہ حکمراں اشرافیہ نیپ (بھاشانی گروپ) کی جگہ عوامی لیگ اور شیخ مجیب کو زیادہ قابلِ قبول سمجھ رہی تھی۔ غالباً اس اشرافیہ کا یہ خیال رہا ہو کہ شیخ مجیب کو شراکتِ اقتدار پر راضی کرلیا جائے گا۔
یہ وہ حالات تھے جب 7 دسمبر1970ء کو ملک میں عام انتخابات ہو رہے تھے۔ یہاں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ ملک میں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان ہے۔ ہم نے 19 مئی 1970ء کو جماعت اسلامی کی طرف سے یومِ شوکتِ اسلام کی ریلیاں اور جلسے بھی دیکھے تھے۔ دراصل اس وقت سیاسی جنگ کو اسلام اور سوشلزم کی جنگ میں بدل دیا گیا تھا۔ لیکن یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بنگال کو سیلاب کی ہولناک تباہی کے بعد شیخ مجیب کی گود میں دھکیلنے سے کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ جن لوگوں کی حقیقی سیاسی تربیت نہیں ہوتی، وہ سیاست کو بازیچۂ اطفال سمجھ کر کھیلیں گے تو نتائج بھی ویسے ہی حاصل ہوں گے۔ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف چھ سالہ خدمات کو کئی لحاظ سے یاد رکھا جائے گا۔ ہر سوچ کے سیاستدان اُن کے طرزِعمل کے بارے میں اپنے اپنے دائرے میں نتائج اخذ کریں گے۔ میرے بھی اُن کے کئی اقدامات کے بارے میں کئی سوال ہوں گے۔ لگ بھگ پانچ ساڑھے سال پہلے ہمیں کراچی میں ایک ایسی بڑی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا جس میں ملکی معیشت کے بارے میں بحث ہونی تھی۔ اس تقریب میں کلیدی خطاب جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا تھا۔ ہمیں واقعی یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی کہ ایک سیدھے سادے فوجی کی ملکی معیشت پر کسی بحث کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔
کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ ملک میں 1958ء جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگایا اور 1969ء تک برسراقتدار رہے۔ اُن کے اپنے 1962ء کے آئین کے تحت اُنہیں استعفے کی صورت میں اقتدار اسپیکر کے حوالے کرنا ہے مگر چونکہ اسپیکر بنگالی تھا اس لیے ایوب خان نے اقتدار تازہ دم جنرل یحییٰ کے حوالے کر دیا۔ پھر یحییٰ خان نے بنگال کی تاریخ کے ہولناک ترین سیلاب کے 24 روز بعد ایک اہم ترین جماعت کے بائیکاٹ کے باوجود انتخابات کرادیے۔
جنرل (ر) باجوہ پر جس قدر سیاسی تنقید ہو رہی ہے، بطور عام شہری میں اِس کا حصہ نہیں رہا، مگر کیا یہ کہا سکتا ہے کہ اِس وقت کو ملک کو جس قدر بھی مشکلات درپیش ہیں وہ اُن کی دوسری طلبِ توسیع سے پیدا ہوئے۔ ملک کا اصل بحران ہی اُس وقت پیدا ہوا جب جنرل (ر) باجوہ نے توسیع حاصل کی اور اس بحران کے حصہ داروں میں ملک کی تنیوں بڑی جماعتوں کے بڑے نواز شریف، عمران خان اور آصف زرداری بھی شامل ہیں جنہوں نے بھاگ بھاگ کر توسیع کیلیے قانون سازی میں حصہ لیا تھا۔ اور جنرل (ر) باجوہ صاحب یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ بنگال میں ہماری شکست سیاسی شکست نہیں تھی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
