Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

مقرُوض ممالک کیلیے مذاکرات کی میز اور چین

Now Reading:

مقرُوض ممالک کیلیے مذاکرات کی میز اور چین

پاکستان اور سری لنکا کے حالیہ معاشی بحران کی نوعیّت اور سنگینی لگ بھگ ایک جیسی ہے اور یہ بحران ایک جیسے نظام الاوقات اور ایک جیسے حالات میں وقوع پذیر ہوئے۔ اس بحران کے نتیجے میں رواں سال ماہِ اپریل میں سری لنکا دیوالیہ قرار دیا گیا اور اس کے چند ماہ کے اندر اندر سری لنکا کے حکمرانوں بالخصوص سابق صدر گوٹابیا راج پاکسے کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا جبکہ پاکستان کو دیوالیہ قرار دیے جانے کی نوبت آنے سے پہلے یہاں حکومت کی تبدیلی عمل میں آئی۔ ملک کے نئے حکمرانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو دیوالیہ پن سے بچانے کیلیے اپنی مقبولیت کو داؤ پر لگا کر اقتدار میں آئے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ ہم پاکستان کے حالات پر اپنا نقطۂ نظر کسی اور وقت کیلیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ تاہم پاکستان اور سری لنکا کے حالات کو سمجھنے کا ایک پیمانہ ابھی سامنے آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں دس روپے کی کمی کردی جبکہ سری لنکا نے ڈبل روٹی کی قیمت دس روپے کم کر دی۔ اس کمی سے دونوں ملکوں کی حکومتوں کی ترجیحات سامنے آجاتی ہیں۔

اس سلسلے میں دوسری بڑی اور اہم خبر آئی ایم ایف کی طرف سے سامنے آئی ہے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا (Kristalina Georgieva) نے بتایا ہے کہ چین نے اس امر پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ وہ عالمی قرضوں کے ضمن میں ہر طرح کے شراکت داروں (اسٹیک ہولڈرز) سے گول میز مکالمے کی تشکیل کیلیے تیار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی میزبانی میں ہونے والے اس پروگرام کے سلسلے میں وہ قدرے زیادہ پُرامید ہیں۔ آئی ایم ایف نے کم اور اوسط آمدن والے ممالک کے بھاری قرضوں کے ضمن میں گزشتہ ہفتے چینی حکام سے ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں اُمید افزاء توقعات باندھ رکھی ہیں۔ آئی ایم ایف کی خاتون سربراہ نے کہا کہ انہوں نے زیمبیا اور سری لنکا جیسے ممالک کو قرضوں میں ریلیف دینے کی رفتار تیز کرنے کیلیے چینی حکام سے “بامقصد تبادلۂ خیال” کیا ہے۔

Advertisement

آئی ایم ایف نے بھاری قرضوں تلے دبے ممالک کیلیے چین سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ قبل ازیں مغرب نے سری لنکا کے معاشی اور مالیاتی مسائل کے پس منظر میں چین کو مطعون کرنے کیلیے بھارتی “نورتن” چھوڑ رکھے تھے۔ جب پاکستان میں مبینہ طور پر دیوالیہ پن کا بم پھٹنے سے پہلے 9 اپریل 2022ء کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی عمل میں آئی تو اس کے تین روز بعد 12 اپریل 2022ء کو سری لنکا نے اپنے دیوالیہ پن کا اعلان کردیا۔ سری لنکا نے اپنے ابتدائی اعلان میں کہا تھا کہ وہ کثیر جہتی بینک قرضوں کے علاوہ اپنے تمام غیرملکی قرضوں اور ادائیگیوں کو معطل کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سری لنکا نے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کی استدعا کی تھی اور کہا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارہ اس کے 30 ارب ڈالر کے قرضوں کو ازسرِ نو مُرتّب (ری اسٹرکچرنگ) کرے۔ یہی وہ موقع تھا جب مغربی بقراط سری لنکا کے معاشی اور مالیاتی بحران کا ذمے دار چین کو قرار دے رہے تھے۔ مغربی بقراطوں کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے بھارتی مالیاتی شیخی باز بھی یہ کہنے لگے کہ چین نے سری لنکا کو اپنے قرضوں کے جال میں پھنسا لیا۔

بھارتی معاشی تجزیہ کار نئی دہلی کے مالیاتی بقراط برہما چیلانی نے اس صورتحال کو قرضوں میں پھنسانے کی سفارتکاری کا نام دیا۔ چیلانی نے چین پر الزام لگایا کہ وہ ایسے منصوبے تشکیل دیتا ہے جن کے قرضوں کی ادائیگی قرض حاصل کرنے والے ممالک کیلیے مشکل ہو جاتی ہے۔ پھر ان ممالک کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے تزویری اثاثے چین کے حوالے کر دیں۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں چیلانی نے سری لنکا کی طرف سے اپنی بندرگاہ ہمبنٹوٹا کا 80 فیصد کنٹرول چائنا مرچنٹ ہولڈنگ کے حوالے کرنے کا اعلان پیش کیا تھا۔

نام نہاد بھارتی معاشی دانشور نے اپنی معاشی دانش سری لنکا کے دیوالیہ قرار دیے جانے والے برسوں پرانے امریکی بیانیے سے مُستعار لی تھی۔ امریکا نے برسوں پہلے اس چین مخالف بیانیے کو پھیلانے کا کام شروع کردیا تھا۔ امریکی دفتر خارجہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں کیلیے ایک تجزیاتی مشق تیار کی تھی جس کا نام “Hambantota: Chinese Debt-trap Diplomacy” رکھا گیا۔ امریکا نے شکاری معاشیات کا نام دے کر اسے پھیلانا شروع کردیا۔ جبکہ یہ سارا کام امریکی دفاعی حکمتِ عملی کے تحت کیا جا رہا تھا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک دیرینہ معاملے کو چینی شکار سے منسوب کرکے اور اسے سری لنکا کے دیوالیہ پن سے منسلک کرنے کے بعد چینی علاج کی ضرورت کیوں پیش آگئی اور آئی ایم ایف نے اپنے مقروض فریادی ممالک کے علاج کیلیے چینی حکیموں سے کیوں رجوع کیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ “من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ می سراید” کے مصداق آئی ایم ایف کی چین سے خوش گمانیوں کے بعد امریکی وزیر خزانہ جینیٹ یلین (Janet Yellen) اور دوسرے مغربی اسکالر یہ دُہائیاں کیوں دے رہے ہیں کہ اُن کے مفادات چینی معاشی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا خودمختار قرض دہندہ جی 20 کے دائرہ کار (فریم ورک) میں کیوں قرضے فراہم کر رہا ہے۔ جبکہ چین کا یہ مؤقف ہے کہ نجی قرض دہندہ اور کثیرجہتی ترقیاتی بینکوں کو اِس پورے معاملے کو شفاف بنانے کیلیے قرضوں کی ترتیبِ نو کرنا ضروری ہے۔

محترمہ جارجیوا فرماتی ہیں کہ چین سے مذاکرات میں اچھی پیشرفت ہوئی ہے اور ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر عالمی خودمختار قرض دہندگان کی مذاکراتی تشکیل کی جائے جس میں اہم قرض دہندگان، نجی شعبہ، بعض قرض دار ممالک کے علاوہ عالمی بینک، آئی ایم ایف اور جی 20 کی صدارت کو شریک کنوینیئر کی حیثیت حاصل ہوگی۔

سری لنکا کے قرضوں کی حقیقت سے ہمارے بعض مسائل کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ رواں ہزاریے کے آغاز پر سری لنکا کیلیے چین کے قرضوں کا حجم بہت کم تھا یعنی وہ قرضے سری لنکا کے مجموعی غیرملکی قرضوں کے ایک فیصد سے بھی کم تھے۔ سری لنکا کی خانہ جنگی کے دوران چینی قرضوں میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ قرضے اس وقت کے صدر مہندا راج پاکسے کے وژن کے مطابق حاصل کیے گئے۔ مہندا راج پاکسے سری لنکا میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بنیاد پر ترقی چاہتے تھے۔ اُن کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ اُن کے آبائی صوبے ہمبنٹوٹا میں بندرگاہ کی تعیر کا تھا اور چین اس منصوبے کیلیے قرض دینے اور کئی قسطیں ادا کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ مہندا راج پاکسے اس بندرگاہ کو تجارت کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔

Advertisement

2008-2007ء کی عالمی کساد بازاری کے موقع پر ترقی یافتہ دنیا کی قرضوں کی مارکیٹ میں داخل ہونا سہل ہوا تو سری لنکا نے بڑے پیمانے پر قرضے حاصل کیے مگر اس دوران سری لنکا کی برآمدات منجمد ہو کر رہ گئیں اور ہمبنٹوٹا بندرگاہ خسارے میں جانے لگی۔ ساتھ ہی قرضوں کی ادائیگی میں کمزوریاں پیدا ہوئیں۔ پھر ایک بڑا واقعہ یہ ہوا کہ 2015ء کے انتخابات میں مہندا راج پاکسے انتخابات میں ہار گئے اور ان کی جگہ رانیل وکرما سنگھے نے اقتدار سنبھالا اور تیسری دنیا کی روایت کے مطابق اپنے پیشرو راج پاکسے کے منصوبوں، خاص طور پر ہمبنٹوٹا بندرگاہ کو غیرفعال کر دیا۔ پاکستان میں بھی لگ بھگ یہی ہوا جب عالمی مقتدرہ کی فرمائش پر سی پیک پر کام روک دیا گیا۔ ایسے ہی حالات میں جب قرضوں اور ادائیگیوں کا بحران سنگین ہوگیا تو سری لنکا ہماری طرح کشکول اُٹھائے آئی ایم ایف کے در پہ دستک دینے پہنچ گیا جہاں شکار کیلیے جال ہمہ وقت تیار ہوتا ہے۔

رانیل وکرما سنگھے کی 2015ء میں قائم ہونے والی حکومت نے قرضوں کے حصول کی شرائط پر اصلاحات کی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے مزید قرضوں کے حصول کیلیے عالمی قرض دہندہ مالیاتی اداروں کے دروازے کھٹکھٹانے شروع کر دیے۔ عالمی بینک نے یہ تخمینہ لگایا کہ سری لنکا پر واجب الادا قرضوں کا حجم 63 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور چینی قرضے مجموعی قرضوں کا 12 فیصد ہیں۔ اس صورتحال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چینی قرضوں کے جال کا پراپیگنڈا دراصل حقیقی مسئلے سے توجہ ہٹانے کیلیے تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ سری لنکا نے بھاری شرحِ سود پر بین الاقوامی مارکیٹ سے قرضے حاصل کیے، بالکل اسی طرح کے قرضے ہمارے ہاں بھاری شرحِ سود پر سابق عمران خان حکومت نے حاصل کیے جو اب ہماری ملکی معیشت کیلیے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں عمران خان نے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے اجتناب کرتے ہوئے عالمی مارکیٹ سے قرض حاصل کیے اور جب آئی ایم ایف سے دوسری بار رجوع کیا تو پانی سر سے اوپر چلا گیا تھا۔ ستم بالائے ستم کہ آئی ایم ایف سے تسلیم شدہ شرائط سے انحراف کرکے پورے ملک اور قومی معیشت کو بحران میں مبتلا کردیا گیا۔

آئی ایم ایف کا پھیلایا گیا جال دیکھنے کی بجائے چینی قرضوں کے جال کے پراپیگنڈے نے سری لنکا اور دیگر ترقی پذیر ممالک کی قرضوں کی ادائیگی کی سکت کو مزید مخدوش کر دیا۔ ابھی حال ہی میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت مصر کے لیے 46 ماہ کے نئے قرضوں کی منظوری دی ہے جن کی مالیت تین ارب ڈالر ہے۔ ترقی پذیر دنیا میں شکاریوں کا جال وہاں کی حکومتوں کے پاس ہوتا ہے جو ہر طرح سے عالمی مالیاتی اداروں کی کاسہ لیسی کرکے بھاری شرائط پر بڑے قرضے حاصل کرتی ہیں اور قوموں کا مُستقبل اور اُن کے قومی اثاثے گروی رکھ دیتی ہیں۔ آئی ایم ایف کے اس پیکج سے مصر عالمی اور علاقائی شراکت داروں سے مزید 14 ارب ڈالر مزید فنانسنگ حاصل کر سکے گا اور مرزا غالب بتائیں گے کہ قرض کی مے پینے سے فاقہ مستی کیسے رنگ لاتی ہے۔

سری لنکا رواں سال جون سے عالمی قرضوں کی ادائیگی سے قاصر ہونے کا اعلان کر چکا ہے اور اب عالمی مالیاتی ادارے اپنے قرضوں کی معافی یا انہیں مؤخر کرنے کے بارے میں نہیں سوچ رہے کیونکہ ترقی پذیر معیشتوں کیلیے اصل جال تو یہی ادارے ہیں جو کمزور ملکوں میں خواب آور مجہول حکومتیں مسلّط کرکے قرضوں کا جال پھیلاتے ہیں اور ان ملکوں کا اپنی مرضی کے بغیر سانس لینا مشکل بنا دیتے ہیں۔

اب آئی ایم ایف کی سربراہ محترمہ کرِسٹالینا فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس اس مسئلے کا حل موجود نہیں کہ معاملے کے فریقین ایک ہی وقت میں مختلف کمروں میں بیٹھیں اورایک دوسرے سے بات نہ کریں، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا اس لیے ایک ایسا پلیٹ فارم چین ہی فراہم کر سکتا ہے۔ چین سری لنکا اور زیمبیا کی حد تک تو ایسے عالمی قرضوں کے بارے میں مذاکرات کی میزبانی کیلیے تیار ہوگیا ہے، مگر کیا آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور قرضے فراہم کرنے والے دیگر کنسورشیئم بھی تیسری دنیا کے ممالک کی نااہل اور بدعنوان حکومتوں اور ہوس پرست قرض دہندگان کی ملی بھگت سے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ممالک کے عوام کے بارے میں کچھ سوچیں گے یا نہیں ؟؟؟

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پاکستان نے اینٹی ڈرون جیمر گن تیار کر لی ، ایکسپو نمائش میں متعارف کروا دی گئی
اگلے ہفتے آئینی ترمیم کی کوئی شکل نکل آئے گی ، خواجہ آصف
پاکستان میں پہلی بار گوگل اور ٹیک ویلی کی شراکت سے کروم بوک اسمبلی لائن کا آغاز
زہران ممدانی کی جیت؛ اسرائیل نے تمام یہودیوں کو نیویارک سے واپس بلالیا
دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر مرمتی کام شروع کر دیا گیا ، ترجمان واٹر بورڈ
امریکا، کارگو طیارہ عمارتوں پر گر کر تباہ، عملے کے تین افراد سمیت 9 ہلاک
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر