ذرائع ابلاغ کے درجنوں نمائندوں نے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، جب کہ کئی صحافی پراسرار حالات میں ہلاک ہوئے
پاکستان میں صحافیوں کے لیے سال 2022ء کا خلاصہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ چارلس ڈکنز کی شاہکار کتاب ’’اے ٹیل آف ٹو سٹیز‘‘ کی مشہور سطروں کو دوبارہ بیان کیا جائے۔ اس میں لکھا ہے ’’یہ بدترین دور تھا، یہ بربریت کا دور تھا، یہ بے اعتباری کا دور تھا، یہ اندھیروں کا موسم تھا، یہ مایوسی کا موسم تھا۔‘‘
المختصر یہ پاکستان میں صحافی برادری کے لیے ایک سوگ کا سال تھا – درحقیقت اس لیے کہ ہمارے ملک میں رہنے والے بہت سے صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے اپنے دن اور رات دونوں قربان کرنے کے باوجود پراسرار حالات میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس نے ملک کے باقی حصوں، خاص طور پر ان لوگوں کی پرسکون نیند میں خلل نہیں ڈالا۔
پاکستان میں صحافیوں کے لیے یہ ایک خون آلود سال تھا۔ اے آر وائی کے ارشد شریف کا خاندانی قبرستانوں سے ہزاروں میل دور کینیا میں بہیمانہ قتل، عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران ان کے کنتینر بردار ٹرک کے پہیوں تلے کچل کر ہلاک ہونے والی چینل فائیو کی رپورٹر صدف نعیم کی المناک موت، لاہور پریس کلب کے باہر دن دیہاڑے کیپیٹل ٹی وی کے حسنین شاہ کا ہولناک قتل، پنجاب کے ضلع خانیوال میں مبینہ طور پر علاقے میں زمینوں پر قبضے کی اسکیموں کی تنقیدی رپورٹنگ پر سیون نیوز چینل کے نمائندے ضیاء الرحمان فاروقی کا بہیمانہ قتل، چارسدہ میں ایکسپریس نیوز چینل کے افتخار احمد کا پراسرار قتل اور جھنگ میں روزنامہ ایکسپریس کے نمائندے محمد یونس کے بہیمانہ قتل کوکبھی نہیں بھول سکتے۔
اوپر بیان کیے گئے کچھ واقعات ایک سال کے نہ ختم ہونے والے سفر کی نامکمل کہانیاں ہیں، جو جبر، کراہت اور آنسوؤں کے ساتھ گزری ہیں۔ اس سال کا اختتام بھی صحافیوں کے لیے غم اور درد سے لبریز سب سے زیادہ مہلک سال کے طور پر ہوا۔ جس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ یہاں پاکستان میں صحافی بننا آسان نہیں ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (RSF) کی سالانہ رپورٹ (2021ء) کے مطابق پاکستانی میڈیا، جو کبھی متحرک اور فعال تھا، اب حکام کے لیے ایک ترجیحی ہدف بن گیا ہے۔
سال 2022ء میں میڈیا کو ہراساں کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان میں پاکستانی حکام نے مبینہ طور پر ’’ریاست مخالف‘‘ تبصرے پوسٹ کرنے پر ارشد شریف، صابر شاکر، سمیع ابراہیم اور عمران ریاض خان سمیت متعدد صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے۔
ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ نے حالیہ حملوں اور صحافیوں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے صحافیوں پر حملوں کی فوری، غیر جانبدارانہ اور موثر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ، ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے کہا ’’پاکستان میں صحافیوں پر جس تعداد اور بے باکی سے حملے ہو رہے ہیں وہ خوفناک ہے”۔ “حکام کو ان حملوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تمام صحافی خوف یا انتقامی کارروائیوں کے بغیر اپنا کام کر سکیں۔‘‘
3 مئی کو آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر جاری ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے لیے ریاستی عناصر بدستور سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ سال خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والوں کے لیے سب سے تکلیف دہ سال بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا ’’چونکہ ڈیجیٹل میڈیا کا منظر نامہ پاکستان میں ایک نیا افق ہے، حکومت آن لائن آزادی کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے زیادہ بے چین ہے جب کہ ڈیجیٹل صحافی منظم طریقے سے ہراساں، زیادتیوں اور قانونی خطرات کا منظم ہدف ہیں۔‘‘
انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کی ڈیتھ واچ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں کم از کم 75 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے اور ان میں سے زیادہ تر مقدمات حل طلب اور ناقابلِ سزا ہیں۔ 2022ء میں بے دردی سے قتل کیے گئے چھ صحافیوں کے کیسز ابھی تک معمہ بنے ہوئے ہیں۔
چونکہ پاکستان پریس کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک کے طور پر رجسٹرڈ ہے، اس لیے مقامی میڈیا تنظیموں، صحافیوں اور عالمی برادری نے حالات کو بدلنے اور کام کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے انتھک محنت کی۔ برسوں کی جدوجہد کے بعد بالآخر قومی اسمبلی سے جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ منظور کرلیا گیا۔ انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر باربرا ٹریونفی نے کہا ’’اب اصل چیلنج شروع ہوتا ہے: اس اقدام کی کامیابی کا انحصار مکمل طور پر اس کے نفاذ میں ہے۔‘‘
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) کی جانب سے 2020ء کے اختتام پر جاری کردہ وائٹ پیپر کے مطابق 2 ہزار 658 صحافیوں نے فرائض کے دوران اپنی جانیں گنوائیں۔ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں عراق سرفہرست ہے کیونکہ وہاں 340 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اس کے بعد میکسیکو میں (178)، فلپائن میں (178)، پاکستان میں (138) اور ہندوستان میں (116) صحافیوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔
عظیم انسان وہ ہوتے ہیں جو اپنے جانے کے بعد دوسروں کو خسارے میں چھوڑ دیتے ہیں اور پاکستان کی صحافی برادری خسارے میں ہے کیونکہ اس سال اس نے کئی تجربہ کار صحافیوں کو کھو دیا ہے۔
میڈیا نے عمران اسلم کی شکل میں ایک بلند پایہ شخصیت کو کھو دیا جو گزشتہ پانچ برسوں سے کینسر سے لڑ رہے تھے۔ عمران اسلم کثیر صلاحیتوں کے حامل صحافی اور مصنف تھے،چند ماہ قبل ان کے بھائی طلعت اسلم کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ ایک تخلیقی، ذہین، سادہ، عاجز، خیال رکھنے والے اور ایک مکمل صحافی تھے۔
اس سال داغِ مفارقت دینے والے دیگر افراد یہ ہیں: ضیاءالحق کی آمریت کے خلاف آواز بلند کرنے والے سینئر صحافی ارشاد راؤ، الفتح کے ایڈیٹر، تجربہ کار، اسپورٹس رپورٹر اور میگزین کے ایڈیٹر زوار حسن، معروف ٹی وی اینکر اور صحافی عامر لیاقت حسین اور جاوید انصاری جنہوں نے ساؤتھ ایشیا، سلوگن اور انٹرپرائز سمیت اشاعتوں کے ایک گروپ کے ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
یہ سب حقیقی مثالیں ایک پرانی کہاوت پر پورا اترتی ہیں۔ ’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو مرنے کے بعد یا فراموش نہ کیا جائے تو پڑھنے کے قابل چیزیں لکھو یا لکھنے کے قابل چیزیں کرو۔‘‘
ذہنی دباؤ ، برن آؤٹ اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر جیسی اصطلاحات صحافت میں پہلے کبھی نہیں سنی جاتی تھیں۔ اگرچہ یہ خواہش مندانہ سوچ ہے، آئیے امید کرتے ہیں کہ سال 2023 کام کرنے والے صحافیوں کے لیے ’’آزادیِ صحافت ‘‘ کا سال ہوگا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News