Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ایران پابندیوں کے باوجود ترقّی کرکے آگے نکل گیا

Now Reading:

ایران پابندیوں کے باوجود ترقّی کرکے آگے نکل گیا

کیا ہمارے جیسے ملک کے ایک عام شہری کیلیے یہ بات حیران کن نہیں ہوگی کہ ہالینڈ، سعودی عرب، سوئٹزرلینڈ، ترکی، سوئیڈن، بیلجیئم اور تائیوان کی جی ڈی پی ہمارے پڑوسی برادر ملک ایران سے کم ہے۔ گویا ایران کی معیشت متذکرہ ممالک کی معیشتوں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے۔ ایران کے چار بڑے تجارتی شراکت دار ممالک ایشیائی ہیں اور ان میں تین تو ہمارے بہترین دوست ممالک ہیں۔ ایران کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار چین ہے، دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات، تیسرے نمبر پر بھارت اور چوتھے نمبر پر ترکی ہے۔ ان تمام ممالک کی ایران سے دوطرفہ تجارت اربوں ڈالر تک ہے جبکہ پاک ایران دو طرفہ تجارت بہت ہی کم ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے کہیں دُور دراز واقع ہیں اور یہ ہمسائے تو بالکل بھی محسوس نہیں ہوتے۔ ایرانی معیشت کا سب سے بڑا شعبہ تو پٹرول اور گیس ہے مگر زراعت بھی اِس کا ایک انتہائی اہم شعبہ ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں میں ایران کا 17 واں نمبر ہے جبکہ بدقسمتی سے پاکستان کا نمبر 48 واں ہے۔ معاشی اعتبار سے تو بنگلہ دیش، فلپائن، ملائیشیا، ویتنام، تھائی لینڈ، مصر اور جنوبی افریقا بھی ہم سے آگے ہیں۔

ہم اِس اظہاریے میں صرف ایران تک ہی محدود رہیں گے۔ ایران کی معیشت کا سب سے بڑا حصہ ریاستی کنٹرول میں ہے جبکہ ہمارے ہاں پاکستان میں جنرل ضیاء کے دور میں ہمیں نجکاری کے دھندے پر لگا دیا گیا تھا جو قومی معیشت کیلیے تباہ کن ثابت ہوا۔ ہمارے ہاں اَن گنت شعبوں میں منافع بخش پیداواری یونٹس اور اداروں کی نجکاری کی گئی جس سے نہ صرف وسیع پیمانے پر قومی اثاثوں کا نقصان ہوا بلکہ نقصان میں چلنے والے اداروں کو سرکاری ملکیت میں ہی رہنے دیا گیا۔ اس کے برعکس تیزی سے ترقّی کرنے والے شعبوں کو نجی ساہوکاروں کے حوالے کرکے بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیلائی گئی۔ حکمران قومی اثاثے اور قومی ادارے بیچ کر اپنی بُری حکمرانی سے جنم لینے والے خسارے پورے کرنے لگے۔

ایران میں قومی اثاثوں اور قومی اداروں کی بے توقیری نہیں ہوئی بلکہ ان کی قدر کی گئی اور نجکاری کی بیماری کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ ایران کے پاس جو قدرتی وسائل ہیں ان کے اعتبار سے اِسے ایک امیر ملک کہا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں خام تیل کا چوتھا بڑا اور قدرتی گیس کا دوسرا بڑا ذخیرہ ایران کے پاس ہے۔ قومی وسائل کے تصرّف میں احتیاط اور کفایت شعاری کا یہ عالم ہے کہ آج سے بیس سال پہلے جب میں سینیئر صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ ایران گیا تھا تو یہ معلوم کرکے حیرت زدہ رہ گیا تھا کہ ایران میں گاڑیوں کیلیے تیل کی راشن بندی ہوتی ہے اور ایک دن میں ایک کار کو تین لیٹر سے زیادہ پٹرول نہیں دیا جاتا۔ بڑے بڑے سرکاری افسر، تاجر، دکاندار، نجی اور سرکاری اداروں کے ملازمین سفر کیلیے ملوں اور فیکٹریوں کے مزدوروں کی طرح عام پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ اسی دورے میں ایک اور حیرت انگیز انکشاف بھی ہوا تھا جسے سن کر ہمارے سب صحافی دوست چونک کر اُچھل پڑے تھے۔ ہمیں ہمارے ملک کے پریس اتاشی نے رات کے کھانے کی دعوت دی تھی۔ اس دعوت میں ارشاد احمد حقانی، ضیاءالدین، طارق وارثی، ایاز بادشاہ، محمود العزیز، سہیل قلندر اور دیگر دوست موجود تھے۔ اس دور میں ایران میں پاکستان کے ملٹری اتاشی بریگیڈیئر زاہد مبشر تھے جو بعد میں کئی اور ذمے داریاں انجام دینے کے بعد میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ تہران اور دوسرے شہروں میں کیپٹن، میجر اور کرنل رینک کے فوجی افسران اپنی معمول کی ڈیوٹی انجام دینے کے بعد فارغ اوقات میں ٹیکسی چلا کر گزر بسر کرتے ہیں۔

دنیا میں چوتھے نمبر سب سے زیادہ تیل اور دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والے ملک کے افسروں اور عوام نے راشن بندی قبول کرکے قرض کی مے پینے سے گریز کرتے ہوئے عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن نہیں لی۔

ایران کا انقلاب 1979ء میں برپا ہوا اور اس کے فوراً بعد ہی وہ عالمی طاقتوں کی طرف سے لگائی گئی معاشی، اقتصادی، مالیاتی، حتّٰی کہ سفری پابندیوں کا شکار رہا۔ انقلابِ ایران کے بعد جب ایرانی شہریوں اور آیت اللہ خمینی کے پیروکار طلبا نے امریکا کے سفارتی عملے کو یرغمال بنایا تھا تو ایران مغربی دنیا میں تنہا ہو کر رہ گیا تھا۔ انقلاب کے چند ماہ بعد ہی اُسی سال نومبر میں ایران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے سے پاک ایران تعلّقات میں جو تعطل پیدا ہوا وہ آج تک معمول پر نہ آسکا لیکن ایران نے یورپی ممالک سے تعلّقات کا ایک توازن پیدا کیا جو بڑی حد تک ہمیشہ برقرار رہا۔ غالباً ڈکٹیشن نہ لینے، ترقی یافتہ دنیا سے تعلّقات میں توازن قائم کرنے اور آزاد خاجہ پالیسی پر کاربند رہنے سے ایران بدترین حالات میں بھی ترقّی کی رفتار برقرار رکھنے سے غافل نہیں رہا۔ اب تو عالمی اداروں کی رپورٹیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ایران مشرقِ وُسطٰی کا امیر ترین ملک بن گیا ہے اور اِس نے اپنی امارت کی دوڑ میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایران کو برّاعظم ایشیاء کی جیوپولیٹیکل حیثیت میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور وہ اپنی اس حیثیت کو پوری آزادی اور خودمختاری کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ وہ بیرونی دباؤ پر اپنے تاریخی مفادات سے دستبردار نہیں ہوتا۔ وہ دباؤ میں آکر نہ تو سی پیک جیسے منصوبوں کو منجمد کرتا ہے اور نہ ہی پاک ایران گیس جیسے اہم منصوبوں سے پسپائی اختیار کرتا ہے۔ یادش بخیر جب 2013ء میں میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تھے تو انہوں نے نئے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں چند صحافیوں کو بھی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ اس اجلاس میں ہمارے دوستوں نے وزیراعظم سے بڑے سوال و جواب کیے تھے۔ میں نے وزیراعظم سے دو سوال کیے تھے، ایک یہ کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کی کیا صورتحال ہوگی اور دوسرا سوال یہ تھا کہ پاک ایران تجارت کا حجم 50 کروڑ ڈالر سے بھی کم کیوں ہے جبکہ ایران بھارت دوطرفہ تجارت کا حجم دس ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، ایک ضمنی سوال یہ تھا کہ پاکستان ایران سے گندم کی فراہمی کیلیے رقم وصول کر چکا ہے مگر ایران کو گندم فراہم نہیں کر رہا، ایسا کیوں ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے دو وزراء شاہد خاقان عباسی اور خرم دستگیر کو ان سوالوں کا جواب دینے کو کہا تو ان دونوں نے میرے ڈھائی کے ڈھائی سوالوں کو گیس پائپ لائن، دوطرفہ تجارت اور گندم کی فراہمی کو عالمی پابندیوں کا حوالہ دے کر ہوا میں اُڑا دیا۔ میں نے بہت کہا کہ کیا بھارت، ترکی، فرانس، جرمنی، اسپین، چین اور دیگر ممالک پر عالمی پابندیاں لاگو نہیں ہوتیں۔ ہم آج بھی ایران اور دیگر برادر ملکوں سے تجارت کو فروغ دیں تو بہت سے معاشی مسائل اور اقتصادی بحرانوں پر قابو پا سکتے ہیں۔

Advertisement

ہم دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی دوسرے ملک کے سفارتی عملے کو یرغمال بنانا درست نہیں سمجھتے مگر تاریخی ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ جب امریکی سفارتکاروں کی رہائی کے عوض سابق شاہِ ایران کے بعض اثاثے امریکا سے ایران کو لوٹائے گئے تھے تو امریکا سے کئی جہازوں میں اتنا سونا بھر کر لایا گیا تھا کہ عالمی منڈی میں سونے کی قیمتیں نصف سے بھی زیادہ گر گئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان میں سونے کی قیمت پانچ ہزار روپے فی تولہ سے کم ہو کر سترہ سو روپے فی تولے تک آگئی تھیں۔

ایرانی معیشت میں جہاں تیل اور گیس اس کے بنیادی عناصر ہیں وہیں تانبا، لوہا، کرومیم، سیسہ، جست، معدنی شیشہ، سلفر اور کئی دیگر دھاتوں کا بھی اہم حصہ ہے۔ ایران بدترین مسائل، پابندیوں اور گُوناگوں سیاسی و سماجی مشکلات کے باوجود ترقّی کی رفتار میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکیے اور دیگر امیر خلیجی ریاستوں سے آگے نکل گیا ہے۔ ہمیں ایک اور بات بھی پیشِ نظر رکھنی ہوگی۔ ایران کی فی کس شرحِ آمدنی لگ بھگ 16 ہزار ڈالر ہے مگر ایران میں رہائش اور طعام و قیام کے فی کس اخراجات خاصے کم ہیں۔ اس میں ایران کے چار بڑے شہروں شیراز، تہران، اصفہان اور مشہد میں سے شیراز نسبتاً مہنگا اور مشہد سستا شہر تصوّر کیا جاتا ہے۔ جبکہ تہران اور اصفہان کو بھی مہنگے شہروں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کے عام شہریوں کا سماجی میل جول اور طرزِعمل بہت اعلیٰ ہے۔

ایران اور پاکستان دو قریبی پڑوسی ممالک ہیں اور ہمارے درمیان صدیوں پرانے رشتے ہیں۔ کئی بار دونوں ممالک کی حکومتوں نے دونوں ملکوں کے تجارتی، کاروباری، ثقافتی، تدریسی اور تعلیمی تعلّقات کو فروغ دینے کے اعلانات کیے مگر بوجوہ ان تعلّقات میں دوستانہ اور برادرانہ گرمجوشی پیدا ہونے میں کئی عناصر حائل رہے۔ آپ دنیا میں ہر چیز تبدیل کر سکتے ہیں مگر اپنی جغرافیائی پوزیشن اور پڑوسی تبدیل نہیں کر سکتے۔ دونوں ملکوں کی قیادتوں کو اپنے اپنے ملک کے عوام کے تاریخی مفادات کے پیشِ نظر آگے بڑھنا چاہیے اور تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز کرنا چاہیے۔ اگر قوموں کی پالیسیاں حکمرانوں کی خواہشات کے تابع نہ ہوتیں تو خطے میں پاک ایران تجارت کا حجم بہت زیادہ بڑھ چکا ہوتا بلکہ ہم بہت ہی سستی گیس بھی لے رہے ہوتے۔ کوئی ہے جو نقّارخانے میں طوطی کی آواز سنے اور تعلّقات کے نئے دور کا آغاز کرے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’سپر مون‘‘ کا خوبصورت نظارہ دیکھا جاسکے گا
سونے کی قیمت مزید گھٹ گئی؛ فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟
حکومت نے 24 سرکاری ادارے فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا، وزیر خزانہ
آسٹریلوی شخص نے دنیا کا طویل نام رکھنے پر عالمی اعزاز اپنے نام کر لیا
ملک بھر کے بجلی صارفین ایک بار پھر اضافی بوجھ کیلئے ہوجائیں تیار
دسویں تھل جیپ ریلی 2025 کے رنگا رنگ مقابلوں کا کل سے آغاز
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر