Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

غالب قوت

Now Reading:

غالب قوت

بڑے پیمانے پر عوامی ناپسندیدگی کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ کی سرکردہ سیاسی جماعت کے طور پر پوزیشن برقرار ہے

بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب کے بعدخراب کارکردگی اور مستقل شدید تنقید کے باوجود پیپلز پارٹی ثابت قدم ہے اور یہ امکان بھی مفقود ہے کہ اسے مستقبل میں کسی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ پیپلز پارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کی کرشماتی اور بلند پایہ شخصیات کی وجہ سے، اندرون سندھ میں اس کی حمایت اور مقبولیت اسی طرح برقرار ہے۔

’’روٹی، کپڑا، اور مکان‘‘ کے طاقتور نعرے اور اپنے ان کاموں کے باعث جن کی وجہ سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچا اور ان کا معیار زندگی بلند ہوا، ذوالفقار علی بھٹو آج بھی مقبول عام ہیں۔ دوسری طرف، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام اور انہی جیسے سماجی اور صحت کے دیگر منصوبوں کی بدولت بے نظیر بھٹو بھی ہنوز عوام میں ایک مقبول رہنما ہیں۔ عوام باپ اور بیٹی کی اس جوڑی سے جنون کی حد تک لگاؤ  رکھتے ہیں۔ اور ان شخصیات کا متبادل نہ ہونے اور اپنے شہروں میں زمینداروں اور سرداروں کے دباؤ اور اثر و رسوخ کی وجہ سے وہ پیپلز پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔

اگرچہ بیشتر لوگ پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے اپنی ناپسندیدگی کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے، اور صوبے کے تعلیم یافتہ اور محرومی کا شکار لوگوں کے درمیان وسیع پیمانے پر ناپسندیدگی کے باوجود پیپلزپارٹی سندھ کی سرکردہ پارٹی کے طور پر اپنی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے اور دیہی سندھ کے عوام کا اعتماد حاصل کررہی ہے۔ درحقیقت پاکستان پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو ہی کے دور میں ہوگیا تھا۔

گذشتہ تباہ کن سیلاب کے بعد پیپلزپارٹی کے زیرقیادت حکومت سندھ نے متاثرین کی بحالی اور ریلیف کے لیے متعدد اقدامات شروع کیے، جن میں سیلاب سے تباہ ہونے والے 20 لاکھ گھروں کی تعمیر نو کے خوش آئند منصوبے کے ساتھ ساتھ کسانوں کو مالی امداد کی فراہمی بھی شامل ہے۔

Advertisement

اب تک دیہی سندھ میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ابھری جو پیپلز پارٹی کی مقبولیت کو چیلنج کرسکے۔ قوم پرست دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے متحدہ محاذ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کو پیپلزپارٹی کی طرح جاگیرداروں اور ان کے رفقا کا اکٹھ سمجھا جاتا ہے۔

دیہی سندھ میں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) خود کو منظم نہیں کرسکیں۔ تاہم، سیاست امکانات کا نام ہے، اور ممکنہ طور پر انتخابات کے اعلان کے بعد ایک انتخابی اتحاد جنم لے گا جس سے مقابلے کرنے کے لیے صوبے کی حکمران جماعت کو سخت جدوجہد کرنی پڑسکتی ہے۔ تحریک انصاف کے پاس بہترین موقع ہے اگر اس کے رہنما اپنی توجہ دیہی سندھ پر مرکوز کردیں اور تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے ساتھ مل کر کام کریں، جو پیپلزپارٹی اور جی ڈی اے کی جاگیردارانہ قیادت سے تنگ آچکا ہے اور سندھیوں کے حقیقی مسائل میں دلچسپی دکھا رہا ہے ۔

یہ ذاتی پسند کا معاملہ نہیں ہے۔ کوئی اور آپشن نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے عوام مجبور ہیں۔

مزید یہ کہ سیاسی جماعتوں کی قومی سطح کی کارکردگی میں کوئی خاص فرق نہیں رہا۔ عوام کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت نے وفاقی یا صوبائی سطح پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ خیبرپختونخوا میں لوگوں نے پی ٹی آئی کو سابقہ صوبائی حکومت سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا اور اسے ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ تیسری بار بھی اسے منتخب کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پی ٹی آئی کی کارکردگی کی صورت میں موازنہ کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو ہے۔ سندھ میں کوئی اور ایسی سیاسی جماعت نہیں جس سے عوام پیپلزپارٹی کا موازنہ کرسکیں۔ سندھ میں1988 سے لے کر اب تک آنے والی تمام حکومتیں چاہے وہ پیپلز پارٹی کی ہوں یا کسی دوسری جماعت کی، کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہیں۔

ہمیشہ کی طرح پیپلز پارٹی اقتدار پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھے گی اور سندھ کی سیاست پر حاوی رہے گی۔

سندھ کی سیاسی حرکیات سے گہری واقفیت رکھنے والے سینئر سیاسی تجزیہ کار اور سابق سفیر محمد عالم بروہی کہتے ہیں، ’’پیپلزپارٹی نے بڑی مہارت سے سندھ کی قوم پرستی اور قوم پرست سیاست کو یکجا کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی صوبے کی جغرافیائی سالمیت، نہری پانی کی چوری، سندھی زبان کے فروغ، ڈیم کی تعمیر وغیرہ جیسے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے کمزور اعصاب کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ یہ سندھیوں کے اندر خوف پیدا کرکے انہیں ان کے آبائی وطن کے حقیقی یا تصوراتی دشمنوں کے خلاف کھڑا کردیتی ہے جس کی وجہ سے دوسری قومی سیاسی جماعتیں مایوس ہوجاتی ہیں۔‘‘

Advertisement

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی سندھ کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے جسے ان کرشماتی بھٹووں کا ساتھ حاصل ہے جن کی شہادت کی وجہ سے ان کا نام سندھیوں میں جذباتی ردعمل پیدا کردیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں چلنے والی موجودہ پیپلز پارٹی کے لیے لوگوں کی محبت میں نمایاں طور پر کمی آچکی ہے مگر ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ محمد عالم بروہی نے دعویٰ کیا کہ پیپلزپارٹی نے اپنے مقامی رہنماؤ ں کے ذریعے ووٹروں کو ان کی لازوال وفاداری کے بدلے سرکاری سرپرستی دے کر سیاست کے ‘ سرپرست اور وفادار’ کے نظام کو مضبوط کیا ہے۔ اس نظام کو ٹوٹنا اور ختم ہونا چاہیے اور اس کی جگہ سماجی انصاف، معاشی مساوات اور قانون کی حکمرانی کو نافذ کیا جانا چاہیے۔

 انہوں نے اظہارخیال کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ’’2023ء کے عام انتخابات اپنے ہمراہ ایک اہم تبدیلی لائیں گے کیونکہ پیپلز پارٹی کی زیرقیادت سندھ حکومت کی ناکامی اور نااہلی کی وجہ سے دیہی آبادی پریشان اور مایوس ہے۔ غریب اور ضرورت مند سیلاب زدگان کے لیے آنے والی غیرملکی امداد ان تک پہنچنے سے پہلے ہی غائب ہو گئی۔ عوام میں بڑھتے ہوئے غصے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے سے گریز کرتے رہے کیونکہ یہ پہلا موقع ہے کہ تمام طبقات کی نمائندگی کرنے والا سوشل میڈیا پیپلز پارٹی کے خلاف بھڑک اٹھا ہے۔ لوگ حقائق اور پیپلز پارٹی کی نااہلی سے واقف ہیں۔‘‘

پاکستان مسلم لیگ فنکشنل (پی ایم ایل-ایف) سندھ کے جنرل سیکریٹری اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے سیکریٹری اطلاعات سردار عبدالرحیم خان نے کہا، ’’درحقیقت، اسٹیبلشمنٹ نے 2018 ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو نشستیں دی تھیں تاکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو ان کے ضدی رویے کی وجہ سے کنٹرول کیا جا سکے۔‘‘

قوم پرست اور سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے کہا کہ سندھ کے حکمرانوں نے غریب کسانوں، ان کے مویشیوں اور ان کی جائیدادوں کو )سیلابی پانی ( میں ڈوبنے دیا اور متاثرین کے لیے مختص کردہ تمام ترقیاتی فنڈز اور آنے والی غیر ملکی امداد ہڑپ کرگئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کے حکمران آئندہ پانچ سال کے لیے بھی اقتدار برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر قادر مگسی نے مزید کہا،’’پہلی بات تو یہ کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ ایک سہولت کار کا کردار ادا کرتی ہے۔ دوسر ے یہ کہ سندھ ایک زرعی صوبہ ہے جہاں زمینداروں کا غلبہ ہے، جو پیپلز پارٹی کے کٹر حامی ہیں۔ سندھ کی سیاست پر پیپلزپارٹی کا غلبہ 2023 ء میں برقرار رہ سکتا ہے، لیکن اگر قوم پرست جمہوری جماعتوں کو برابری کا میدان دیا جائے تو وہ پیپلزپارٹی کو چیلنج کر تےہوئے ایک قابل عمل متبادل فراہم کر سکتی ہیں۔‘‘

Advertisement

پی ٹی آئی کے بانی رکن اور سینئر رہنما فردوس شمیم نقوی کے مطابق لوگ پیپلز پارٹی سے خوفزدہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ خوف دور ہو گیا تو اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کا حشر بھی ایم کیو ایم جیسا ہوگا۔

فردوس شمیم نقوی کہتے ہیں، ’’زرداری صاحب پیسے اور اثر و رسوخ کے ذریعے دیہی سندھ میں جیتنے والے منتخب نمائندوں کی وفاداریاں تبدیل کروانے میں ماہر ہیں، لیکن شہری سندھ میں وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ پیپلز پارٹی اگلے دس سالوں میں وفاقی حکومت قائم نہیں کر سکے گی، اور اس کی اس ناکامی کا ہمیں فائدہ ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ نے 2018 ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے لیے حلقہ بندیوں میں تبدیلی کی، مگر 2023 ء کے انتخابات پیپلزپارٹی کی پوزیشن کو بدل دیں گے کیونکہ سندھ کی نوجوان آبادی پی ٹی آئی کی حمایت کرتی ہے۔‘‘

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر نہال ہاشمی کہتے ہیں، ’’پاکستان تحریک انصاف کی زیرقیادت سابقہ وفاقی حکومت کی جانب سے سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کے باعث مسلم لیگ (ن) سندھ میں کام نہیں کرسکی، کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے یا سیاست سے دور رہنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔‘‘

نہال ہاشمی کے مطابق اندرون سندھ کے لوگوں کی پیپلز پارٹی سے محبت ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا چھوڑا ہوا ورثہ ہے، اور سب سے بڑھ کر اس لیے لوگ پیپلزپارٹی کا دم بھرتے ہیں کیونکہ یہ پارٹی برسوں سے سندھ پر حکومت کررہی ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ملک بھر میں ٹماٹر کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ، 600 روپے کلو تک فروخت ہونے لگے
اداکارہ فجر شیخ رشتۂ ازدواج میں منسلک؛ شادی کی تصاویر وائرل
فتنہ الہندوستان کا انتہائی مطلوب دہشت گرد ہلاک
البانیہ: یورپین ڈیس ایبل اسنوکر چیمپئن شپ میں پاکستان نے گولڈ میڈل جیت لیا
انڈس شیلڈ ایلفا، فضائی جنگی مشق کیلئے پاکستان ایئرفورس کا دستہ آذربائیجان پہنچ گیا
ممتاز گلوکارہ زبیدہ خانم کو مداحوں سے بچھڑے 12 برس بیت گئے
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر