Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

کہانی کا دوسرا رُخ

Now Reading:

کہانی کا دوسرا رُخ

پاکستان کے مختلف حصوں میں رہنے والے لوگ کراچی کو مواقع کی سرزمین‘‘کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جہاں وہ روزگار کی تلاش کے لیے ہجرت کرتے ہیں اور یہ شہر بھی انہیں کبھی مایوس نہیں کرتا۔ کراچی میں پاکستان بھر سے تعلق رکھنے والے لوگ روزگار کماتے ہیں۔ کراچی بھی رات کے اوقات میں ہونے والے بدنام زمانہ واقعات کی وجہ سے بہت زیادہ توجہ مبذول کرواتا ہے۔

شہر کی معروف سڑکوں پر کھڑی خواتین کے ساتھ عمر رسیدہ ’’نائیکہ‘‘ بھی ہمراہ ہوتی ہیں اور انہیں اپنے گاہکوں سے جھگڑتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، بعض اوقات نائیکہ کو مداخلت بھی کرنا پڑتی ہے۔ مقام کے لحاظ سے مرد گاہک موٹر سائیکلوں یا کاروں، یہاں تک کہ وین یا ٹرک پر سوار ہوتے ہیں۔ دن کے اوقات میں کھلے عام کھڑی خواتین مختلف قسم کے گاہکوں کی مانگ کو پورا کرتی ہیں تاہم وہ غلط لوگوں کی توجہ حاصل کرنا نہیں چاہتیں۔ یہ خواتین عام طور پر ہمیشہ کسی ایسے شخص سے گریز کرتی ہیں جسے وہ ’’پریشان کن‘‘ سمجھتی ہیں، وہ وہاں سروس فراہم کرنے کے لیے موجود ہوتی ہیں، سڑکوں پر مغز ماری کے لیے نہیں اور اس سارے عمل کو ’’نائکہ‘‘یقینی بناتی ہیں۔

اس نظارے کو باقاعدگی سے دیکھنے کے بعد میں نے ان سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک مشکل کام تھا، جسے بہت سے لوگوں نے مسترد کردیا تاہم ایک منصوبہ عمل میں آیا اور میں مکمل طور پر اپنے آپ کو ڈھانپ کر ایک سڑک پر چلی گئی، ایک شخص جس کی عمر 20 سال کے لگ بھگ تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ اس خاتون سے رابطہ کرے جو سڑک پر کھڑی تھی اور اس کی 40 سالہ نائیکہ بھی اس کے پیچھے ہی کھڑی تھی۔ اس شخص کے کہنے پر وہ اپنی نائیکہ کے ساتھ وہاں آگئی جہاں میں کھڑی تھی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں خواتین کی صحت کے حوالے سے ایک لیڈی ہیلتھ ورکر تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نائیکہ نے مجھے اگلے دن شام 4 بجے ملنے کا پتہ دیدیا۔

یہ سفر ایک چیلنج ثابت ہوا کیوں کہ رازداری انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔بہرحال میں مددگار کے ساتھ چلی گئی۔ ہمیں ایک تنگ گلی میں روکا گیا اور مجھے بغیر فون کے تنہا آنے کو کہا گیا اور مددگار کو کہا گیا کہ وہ تنگ گلی کے کنارے پرمیرا انتظار کرے۔ مجھے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں لے جایا گیا، جس کی دیواروں کا رنگ اتر رہا تھا، پورے کوارٹر میں کچرا بکھرا پڑا تھا اور بچے ایک دوسرے پر چیختے چلاتے گھوم رہے تھے۔ اسی گھر میں میری ان سے ملاقات ہوئی۔ وہاں محض کچھ لوگ تھے۔

18 سالہ شازرے کو دس سال قبل اس کے ماموں یہاں لائے تھے۔ شازرے کا کہنا تھا ’’مجھے میرا خاندان یاد ہے، میرے چھ بہن بھائی ہیں، میری والدہ امید سے تھیں اور میرے والد نوکری کی تلاش میں تھے۔ ماموں نے میرے والد کو بتایا کہ کراچی میں نوکری ہے۔ جس پر میرے والدین نے مجھے کراچی بھیج دیا۔ میں ایک ٹرک سوار ہو کر کراچی پہنچی۔ پھر مجھے ایک پرانی عمارت میں لایا گیا، جہاں بہت سے مرد اور بچے بھی تھے۔ اس کے بعد میں نے اپنے ماموں کو کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے بعد مجھے اور دیگر لڑکیوں کو دوسری جگہ لے جایا گیا جہاں مردوں نے ہم پر پیسے رکھ کر اپنے پاس بٹھالیا۔ یعنی مجھے فروخت کردیا گیا تھا۔میں نے اس طرح آغاز کیا۔ میں اپنے ماضی کو یاد نہیں کرسکتی کیوں کہ مجھے کام کرنا ہے۔ شروع میں مجھے بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تاہم آہستہ آہستہ درد ختم ہو گیا اور پھر مجھے اس کے لیے تیار ہونا پڑا۔ جب میں اپنے والدین کے ساتھ تھی تو مجھے کبھی نئے کپڑے نہیں ملے۔ اب میں نت نئے لباس زیب تن کرکے خوبصورت لگتی ہوں، مرد مجھ سے پیار کرتے ہیں جس کے عوض مجھے اچھی رقم ملتی ہے۔‘‘

Advertisement

شازرے وہی لڑکی تھی جو سڑک پر کھڑی تھی۔ اس کی کہانی کچھ دلوں کو چھو سکتی ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہماری ناک کے نیچے ہوتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی ہم آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ جیسے حکومت کرتی ہے ویسے ہی پولیس کرتی ہے۔ 18 سال کی عمر میں اس نے خود کو باور کرایا کہ اچھا لباس ہی اس کی پہچان ہے، اس کے ماموں نے اس کی عزت نیلام کروادی لیکن اب اس کے لیے یہ ایک اچھی زندگی ہے اور گاہکوں کے لحاظ سے وہ پندرہ سو سے دو ہزار روپے تک لیتی ہے۔

شازرے کی  مینیجر( جسے عرف عام میں نائیکہ کہا جاتا ہے) نگہت کا کہنا تھا ’’تقریباً 15 سال قبل اس کے خاوند نے اسے اس کام کے لیے مجبور کیا تھا اس کے بعد میں نے پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، جب اس نے مجھے مجبور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ ایک ممکنہ مارکیٹ ہے۔ میں نے اس کام کو چھوڑ کر آزادانہ طور پر کمانا شروع کر دیا، اس دوران مجھے ایک شخص کی مدد بھی حاصل ہوگئی اور جس نے مجھے گاہک بھی فراہم کیے اور پھر میں نے ’’ورائٹی‘‘ تلاش کرنے کے لیے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ یہاں بہت سی لڑکیاں روزگار کی تلاش میں آتی ہیں، میں ان سے کہتی ہوں، یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے، شادی کرنے کی ضرورت نہیں، اپنی روزی کمانی چاہیے۔ خوبصورت اور جوان لڑکیوں کو یا تو کسی کو بیچ دیا جاتا ہے یا پھر اپنے خاندان کے لیے انہیں پیسے کمانے ہوتے ہیں۔ میں انہیں تیار کرتی ہوں، لڑکیوں کو دیدہ زیب لباس میں دیکھ کر گاہک خوش ہوتے ہیں۔‘‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اس کام میں کوئی شرمندگی محسوس کرتی ہیں، تو انہوں نے سختی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ’’سنو، مرد ہمیں استعمال کرتے ہیں خواہ ہم شادی شدہ ہوں یا کنواری، کسی کے باپ اور بھائی کسی بھی عورت کو صرف اپنی کفالت کے لیے فروخت کرتے ہیں۔‘‘

کیا مارکیٹ میں مقابلہ ہے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’جی ہاں، اب مقابلہ بہت سخت ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مرد ورائٹی چاہتے ہیں، ارد گرد بہت سی پشتون لڑکیاں ہیں، جو میری لڑکی سے عمر میں چھوٹی ہیں، میرے خیال میں تقریباً 15 یا 16 ہیں، وہ ہم سے دو گلیوں کے فاصلے پر رہتی ہیں۔ ان کی نائیکہ تین ہزار سے روپے تین ہزار پانچ سو روپے فی گاہک لیتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کم عمر اور خوبصورت لڑکیوں کی مانگ ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے۔ یہ لڑکیاں سیلاب کے بعد آئی ہیں۔ میرے خیال میں یا تو یہ فروخت ہوئیں ہیں یا بھاگ کر آئی ہیں کیوں کہ دیہی علاقوں میں جو لوگ اپنا قرض ادا نہیں کر پاتے وہ قرض کی ادائیگی کی غرض سے اپنی لڑکیوں کو کراچی بھیج دیتے ہیں۔ میرے پاس بھی کچھ ایسی ہی مقروض خاندان کی لڑکیاں آئی تھیں۔ اگر لڑکی خوبصورت ہوتی ہے تو قرض ادا کرنے کے بعد ہم انہیں مزید رکنے کا کہتے ہیں یا دوسری صورت میں انہیں گاؤں واپس جاکر شادی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔’’نگہت نے جسم فروشی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کاروبار میں ذہانت بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ وہ گاہکوں سے تقریباً پندرہ سو سے دو ہزا روپے وصول کرتی ہے اور لڑکی کو فی گاہک پانچ سو روپے دیتی ہے کیوں کہ یہ ایک کاروبار ہے اور مجھے منافع کا مارجن رکھنا ہوتا ہے تاہم، میں لڑکیوں کو ہمیشہ ایک امیر شخص تلاش کرنے کی ترغیب بھی دیتی رہتی ہوں تاکہ وہ آباد ہو سکیں، یا کم از کم فلیٹ حاصل کر سکیں۔‘‘

22 سالہ عالیہ اپنی مرضی سے اس کاروبار میں آئی۔ عالیہ کہتی ہیں ’’یہ ایک اچھا کاروبار ہے۔ میں گھر سے اس لیے بھاگی کیوں کہ میں غربت برداشت نہیں کر سکتی، میں جانتی ہوں کہ میں خوبصورت ہوں اور مجھے معلوم تھا کہ میں جو چاہتی ہوں مجھے مل جائے گا۔ میرے پڑوسیوں کی طرف سے بھی مجھے تحائف ملتے تھے، میرا مطلب ہے کہ مجھے صرف ان سے بات کرنی ہوتی تھی تاہم میری والدہ نے اس بات پر مجھے مارا پیٹا جس پر میں گھر سے بھاگ گئی اور یہ کام شروع کر دیا۔ مجھے اخلاقیات کی کوئی پرواہ نہیں کیوں کہ کم از کم میں خالی پیٹ تو نہیں سوتی۔‘‘

پڑوسی اس کاروبار سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں، یا وہ اس پہلو کو آسانی سے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ خواتین نے ایک کمیونٹی بنالی ہے۔ یہاں موجود خواتین کی اکثریت اسمگل کی گئی تھی۔ کچھ کو یاد ہے اور کچھ کو نہیں۔ عالیہ نے اپنے آپ کو نہ زیادہ نہ کم ایک ’’ جنس‘‘کے طور پر ڈھالا ہے۔

Advertisement

اسمگلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس موضوع پر کوئی تحقیق نہیں کی گئی کہ عورتوں کی اسمگلنگ اور جسم فروشی کا کاروبار کیسے کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے پاس بھی اس موضوع پر جامع ڈیٹا نہیں ہے۔

سماجی رہنماء ڈاکٹر فرزانہ باری کے مطابق ’’گزشتہ دس سے پندرہ سالوں کے دوران اس موضوع پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ بلند معیارِ زندگی اور بڑھتی ہوئی غربت پر توجہ کو دوبارہ ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ خواتین، دنیا کے اس حصے میں، ہمیشہ سے ہی جنس سمجھی جاتی رہی ہیں اور لوگ انسانی حقوق کے اس مسئلے کو دیکھنے کے بجائے اپنے مقاصد کو پورا کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ بگاڑ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ میں اس موضوع پر مکمل بے حسی دیکھ رہی ہوں، جو افسوس ناک ہے۔ قانون کی کمزور حکمرانی کی وجہ سے بھی مسئلہ مزید خراب ہوتا ہے۔‘‘

شوہر، بھائیوں اور والدین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے لڑکیوں کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ اس پیشے میں آنے سے پہلے امیدوں اور خوابوں کے ساتھ وہ بھی عام لڑکیاں تھیں، جنہیں رئیس زادوں کے ہاتھوں کچل دیا جاتا ہے۔ وہ گاہک جو انہیں اپنی مرضی سے ہوس کا نشانہ بناتے ہیں اور آزادانہ طور پر پیسہ خرچ کرتے ہیں ان کو کبھی جوابدہ نہیں ٹھہرایا جاتا۔ ایک طرف، وہ غربت کی شکایت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی آمدنی کو اس طرح عیاشیوں میں اڑادیتے ہیں جب کہ ان کے اہل خانہ ’’اگلی تنخواہ‘‘ اور خریداری کے شوق سے ’’آئندہ ماہ‘‘ کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں، جو کبھی نہیں آتا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
بلوچستان میں معدنیات کے ذخائر کے منصوبے پر بڑی پیشرفت، 3.5 ارب ڈالر کا معاہدہ طے
پاکستان ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
اسرائیل نے سابق سینیٹر مشتاق احمد کو رہا کردیا، 150 ساتھیوں کے ہمراہ اردن پہنچ گئے
وزیراعظم شہباز شریف دورہ ملائیشیا مکمل کر کے وطن واپس روانہ
ویمنز ورلڈ کپ، پاکستانی ٹیم کل آسٹریلیا سے ٹکرائے گی، تیاریاں مکمل
کراچی: بھتہ خوری کے واقعات میں تشویشناک اضافہ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر