Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

عام انتخابات میں تاخیر نے سیاسی اور معاشی مسائل کو مزید ابتر کر دیا ہے، سید زین شاہ

Now Reading:

عام انتخابات میں تاخیر نے سیاسی اور معاشی مسائل کو مزید ابتر کر دیا ہے، سید زین شاہ

ملک کے موجودہ حالات پر سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدرکابول نیوزسے خصوصی مکالمہ

سید زین شاہ کے نام سے معروف سید زین العابدین ایک قوم پرست سیاست دان ہیں، جو سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کے سربراہ ہیں۔ وہ سندھ کے معروف بزرگ قوم پرست رہنما جی ایم سید کے پوتے ہیں، جنہیں بڑے پیمانے پر سندھ کے قومی حقوق کے لیے جدوجہد کا سہرا دیا جاتا ہے۔ اپنے خاندانی ورثے کو برقرار رکھتے ہوئے سید زین شاہ نے ہمیشہ سندھ کے غریبوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے۔

وہ پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجینئر ہیں، اور انہوں نے مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے گریجویشن کیا، جو ان کے آبائی ضلع جامشورو میں واقع ہے۔ وہ جامشورو کے کیڈٹ کالج پٹارو سے مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی چلے گئے۔

گریجویشن کے فوراً بعدانہوں نے واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) اور بعد ازاں سندھ کے محکمہ آب پاشی میں پانچ سال خدمات سرانجام دیں۔ لیکن اس عرصے کے دوران انہیں سیاسی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1996ء میں عبداللہ شاہ حکومت کے دوران سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں انہیں برطرف کر دیا گیا۔

اگرچہ وہ اپنے دادا سے کافی متاثر ہیں، تاہم وہ پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور انتخابات میں حصہ لیتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1986ء میں جیئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن (جے ایس ایس ایف) کے کارکن کے طور پر کیا، جو جئے سندھ محاذ پارٹی کا طلباء ونگ ہے۔ بعد ازاں 2007ء میں انہوں نے سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) میں شمولیت اختیار کی اور پارٹی کے کئی دفاتر بشمول جنرل سیکرٹری اور سینئر نائب صدر رہے۔ اب وہ پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔

Advertisement

بول نیوز نے ان سے موجودہ سیاسی منظر نامے پر بات کی۔

س

اگر سابق وزیراعظم عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیتے ہیں تو کیا اس سے سیاسی بحران مزید سنگین ہو جائے گا؟

سید زین شاہ: دونوں اسمبلیوں کو تحلیل کرنے سے سیاسی عدم استحکام بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بحران مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کا سہارا لے سکتے ہیں، جس سے سڑکوں پر تشدد ہو گا۔ اس سے ہنگامی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔

Advertisement

س

برسراقتدار پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد عام انتخابات میں تاخیر کا ارادہ رکھتی ہے۔ جب کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) قبل از وقت انتخابات کے لیے زور دے رہی ہے۔ کون سا آپشن ملک اور عوام کے مفادات کے لیے بہتر ہو گا؟

سید زین شاہ: جیسے ہی پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی، عام انتخابات مخلوط حکومت بنائے بغیر ہونے چاہیے تھے۔ انتخابات میں تاخیر سے ملک کو درپیش بحرانوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ قبل از وقت انتخابات کا انعقاد عوام کو فائدہ دے گا اور موجودہ سیاسی منظر نامے کو پیچیدہ بنانے والے مسائل کو حل کرے گا۔

س

پی ٹی آئی کی زیر قیادت وفاقی حکومت بھی مختلف بحرانوں کا شکار ہوئی کیونکہ عمران خان مضبوط وزیراعظم نہیں تھے، کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟

Advertisement

سید زین شاہ: عمران خان نے ایک پریس کانفرنس میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے صرف نصف اختیارات کے ساتھ حکومت چلائی جب کہ باقی حکومت سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چلائی۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ اس عہدے پر کوئی جنرل باجوہ نہیں ہے، لیکن ملک کی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے ان اختیارات کے ساتھ کوئی اور موجود ہے۔

س

کیا اس ملک میں لٹیروں اور قاتلوں کو کبھی سزا ملے گی؟ کیا احتساب ہوگا؟

سید زین شاہ : جب تک حکمران سیاست دانوں کو این آر او (فوجی دور کے قومی مفاہمتی آرڈیننس کے تحت معافی ) دینا بند نہیں کرتے، ملک میں انصاف نہیں ہو گا۔ پہلا این آر او سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو دیا تھا، جس میں ان کی رہنما بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری کو بدعنوانی کے الزامات سے بری کیا گیا تھا۔ اس نے کراچی میں تباہی اور ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے مبینہ طور پر ملوث افراد کو بھی بری کر دیا۔

Advertisement

س

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شریف خاندان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے باوجود انہیں دوبارہ اقتدار میں لانے کا منصوبہ ملک کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے؟

سید زین شاہ: قومی اسمبلی نے گزشتہ سال ایک بل پاس کیا جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے دائرہ اختیار کو 500 ملین روپے سے زیادہ کی رقم کے بدعنوانی کے مقدمات تک محدود کیا گیا تو میں حیران رہ گیا تھا۔ یہ واقعی شرم کی بات ہے۔ کیا اس بل کے بعد قومی اسمبلی میں ان کی ساکھ ختم نہیں ہوگئی؟ آج ملک کہاں کھڑا ہے؟ منتخب نمائندے کرپٹ مافیا کو ریلیف دے رہے ہیں۔

س

آپ کی نظر میں سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہے؟ کیا ’اداروں‘ [فوجی اور عدلیہ] کے پاس کوئی قانونی بنیاد ہے کہ وہ پی ٹی آئی یا پی ڈی ایم کو ان کی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور کریں؟

Advertisement

سید زین شاہ: جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ خاص طور پر انتخابات سے قبل کے ماحول میں اسٹیبلشمنٹ اتحاد بنانے اور توڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ 2018ء میں پی ٹی آئی کو لے کر آئے تھے، اور 2021ء میں اسے ختم کر دیا تھا۔ اس سے پہلے اس نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے بھی ایسا ہی ماحول بنایا تھا۔  اپنے خوشامدیوں، جن میں زیادہ تر سرداروں، پیر اور سیاست دان شامل ہیں، کو اپنی پسند کی پارٹی بدلنے اور پیچھے ہٹانے کے لیے یہ انتخابات سے پہلے مہم چلاتے ہیں ۔جن  جماعتوں  کی حکومتیں ان کے حمایت سے گر ائی گئی ہیں وہ زیادتیوں کا شکار ہیں۔ ان کے کارکنوں کو پکڑ کر گرفتار کیا جاتا ہے اور جھوٹے عدالتی مقدمات میں گھسیٹا جاتا ہے۔

س

آپ کے خیال میں قوم پرست جماعتیں اب تک انتخابات میں کامیاب کیوں نہیں ہوئیں؟

سید زین شاہ : کیونکہ ہم کبھی بھی اداروں کی آنکھ کا تارا نہیں رہے۔ ہمیں ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور سے ہی اسٹیبلشمنٹ نے ریاست دشمن عناصر قرار دیا ہے۔

س

Advertisement

کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی خاندانی سیاست ملک کو چلا رہی ہے؟

سید زین شاہ: میرے خیال میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرنے والے متعدد افراد نے اربوں روپے کمائے ہیں۔ سیاست میں اثر و رسوخ، اجارہ داری اور کرپشن سے لطف اندوز ہونے کے لیے نئے خاندان ابھر رہے ہیں۔ جب تک بلا تفریق احتساب یقینی نہیں بنایا جائے گا، سیاسی خاندان ختم ہو جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی مثال لے لیں۔ ان کے خاندان کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے، اس لیے وہ خاندانی سیاست کی پیداوار نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ان کا خاندان اب نظام میں بدل چکا ہے۔ کرپٹ لوگوں کو کٹہرے میں لایا جائے تو وہ خود بخود منظر سے غائب ہو جائیں گے۔

س

کیا آپ سندھ میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران اور اس کے بعد کی صورتحال کے بارے میں اپنی رائے دینا چاہیں گے؟

سید زین شاہ: افسوس، مجھے کیا کہنا چاہیے؟ سیلاب متاثرین کو ناقابل بیان مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ پندرہ ملین افراد متاثر ہوئے ، 23 لاکھ مکانات کو نقصان پہنچا ، 2300 قصبے اور لاتعداد دیہات زیر آب آ گئے تھے، جن میں ہزاروں ایکڑ کھیتی باڑی اور بڑی تعداد میں مویشی شامل تھے۔ 5لاکھ سے زائد سیلاب متاثرین اب بھی پناہ کے بغیر ہیں، سڑکوں اور کھلی جگہوں پر ایک پریشان کن زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم کاشت کار لوگ ہیں، اس لیے بارشوں نے ہمیں بالکل تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔

Advertisement

س

آپ کے خیال میں پی پی پی کی زیرقیادت حکومت ایک دہائی سے زائد عرصے تک صوبے پر حکومت کرنے کے باوجود کارکردگی دکھانے میں کیوں ناکام رہی؟

سید زین شاہ: پیپلز پارٹی آصف علی زرداری سے لے کر ایک عام کارکن تک ایک انتہائی بدعنوان جماعت ہے۔ وہ 50 فیصد سے زیادہ عوامی فنڈز جیب میں ڈالتے ہیں، جب کہ باقی بیوروکریٹس کو جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تقرریوں، ان کے تبادلوں اور تقرریوں اور ترقیاتی ٹھیکوں کے اجراء کے حوالے سے نہ کوئی احتساب ہے اور نہ ہی کوئی میرٹ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ میرٹ اور ترقی کے حوالے سے ڈیلیور کرنے سے قاصر ہے۔

یہ ایک ایسی جماعت تھی جس کی بنیاد اسٹیبلشمنٹ نے رکھی تھی۔ اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے کٹھ پتلی تھے۔ انہیں بنگال سے لے کر سندھ، بلوچستان اور یہاں تک کہ خیبر پختونخوا (کے پی) تک تمام قوم پرست تحریکوں کو ختم کرنے کا ہدف دیا گیا تھا۔

Advertisement

س

کیا پیپلز پارٹی کی سندھ میں جڑیں گہری ہیں؟ کیا یہ عام اور بلدیاتی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتتی رہے گی؟

سید زین شاہ: اگر اسٹیبلشمنٹ نے پی پی پی کی حمایت جاری رکھی تو یہ سندھ میں غالب رہے گی۔ لیکن جب بھی حقیقی احتساب ہو گا، پارٹی کی مرکزی قیادت بشمول آصف زرداری اور ان کے خاندان کے افراد کو گرفتار کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ آج کل عوام میں بدعنوان افراد کے بارے میں شعور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لیے ایس یو پی اور اس کے اتحادی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) آنے والے انتخابات میں پی پی پی کو شکست دینے کی کوشش کریں گے تاکہ آبادی کے ان حصوں پر توجہ مرکوز کی جائے، جو محرومیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ناراض ہیں۔

س

Advertisement

دیگر سیاسی جماعتیں اندرون سندھ سے حمایت حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟

سید زین شاہ : سندھ سمیت ملک کی تمام قوم پرست جماعتیں حقیقی معنوں میں ملک کے عوام کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان کے لاپتہ ہونے کے باعث ان کے متعدد وفاداروں کو جبری گمشدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قوم پرست جماعتیں پیپلز پارٹی کا صحیح نعم البدل ہیں، لیکن وہ سیاسی طور پر شکار اور نظر انداز ہیں۔ اگر ہم بطور قوم پرست کارکن نہ کچلے گئے اور پی پی پی کی بے جا حمایت نہ کی جائے تو پورے سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں حالات بہتر ہوں گے۔

س

ایم کیو ایم پی کے دھڑے کیوں متحد ہو رہے ہیں؟ کیا وہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی (جے آئی) کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں؟ یا الگ الگ کام کر کے وہ اپنی ساکھ اور ووٹ بینک کھو چکے ہیں؟

سید زین شاہ: کراچی اور حیدرآباد میں پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ ان دھڑوں کو متحد کر رہی ہے۔ یہ سندھ کی سیاسی حرکیات کو دوبارہ ترتیب دے رہا ہے تاکہ ایم کیو ایم پاکستان  کو اقتدار میں کچھ حصہ دیا جائے، اور اسے پی پی پی کی حمایت بھی دلائی جائے، جیسا کہ اس نے بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کو اس صوبے میں پی پی پی کی پشت پناہی کے لیے بنایا تھا۔

Advertisement

لیکن متحدہ ایم کیو ایم پاکستان کا اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے جیسا کہ اس نے گزشتہ انتخابات میں حاصل کی تھی ۔ یہ فطری اتحاد نہیں ہے، اور بڑے نتائج نہیں دے گا۔ قیادت میں بے تحاشہ بدعنوانی اور پارٹی کے عہدے اور فائل نے اس کی ساکھ اور اس کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچایا ہے۔

جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو یہ ایک ثانوی جماعت ہے۔ یہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں کچھ نشستیں حاصل کر سکتی ہے، لیکن عام انتخابات میں نہیں۔

س

اگر ایم کیو ایم پی کے دھڑے متحد رہتے ہیں تو کیا وہ اردو بولنے والوں کو فائدہ پہنچا سکیں گے؟

سید زین شاہ: اردو بولنے والوں کی اکثریت ایم کیو ایم کے جنون میں مبتلا تھی، حالانکہ ان میں سے کچھ اس سے خوفزدہ یا نفرت کرتے تھے۔ دونوں ہی اب مایوس ہیں، اور ایم کیو ایم پی کے اتحاد سے اپنا ووٹ بینک بحال ہونے کا امکان نہیں ہے۔ ایم کیو ایم پی کے رہنما اب وہ بڑے عطیات جیب میں ڈال رہے ہیں جو ماضی میں وہ لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو منتقل کرتے تھے۔

Advertisement

س

ایم کیو ایم سے الگ ہونے والا کون سا گروپ زیادہ مقبول ہے، اور اسے عوام کی طرف سے کتنی حمایت ملنے کا امکان ہے؟ اور ان کی ترجیحات کیا ہیں؟

سید زین شاہ: دراصل، یہ سب دیگر سیاستدانوں کی طرح طاقت اور پیسے کے بھوکے ہیں۔ ایم کیو ایم پی تقریباً 30 سال سے انتخابات کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کر رہی ہے، اور اس نے اپنی انتخابی بنیاد بنا لی ہے۔ لیکن یہ بنیاد دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ نیز، یہ برسوں سے اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔ اگر اسے اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی نہ حاصل ہو تو وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اس وقت تمام نشستیں جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔

س

Advertisement

آپ نے جی ڈی اے کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیوں کیا؟ کیا یہ انتخابی اتحاد ہے؟

سید زین شاہ: جی بالکل،ہم آئندہ انتخابات مشترکہ انتخابی نشان کے تحت لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جی ڈی اے کے ساتھ ہمارے 10 نکاتی ایم او یو میں سندھ کی جغرافیائی حدود، اس کے آبی وسائل کے تحفظ اور گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
خواجہ آصف کی قیادت میں پاکستانی وفد دوحہ پہنچ گیا، پاک افغان مذاکرات شروع
جنگ بندی کے باجود اسرائیلی بربریت جاری،اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک ہی خاندان کے 11 فلسطینی شہید
محمد رضوان کی کپتانی خطرے میں، نیا ون ڈے کپتان کون؟
ٹی ٹوئنٹی  ورلڈکپ 2026 کی لائن اپ مکمل، عمان اور یوے ای کی طویل عرصے بعد واپسی
معروف ٹک ٹاکر ٹریفک حادثے میں جاں بحق
حکومت کی پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر کابینہ میں شمولیت کی دعوت
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر