Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

معاشی مشکلات سے دوچار کاروبار

Now Reading:

معاشی مشکلات سے دوچار کاروبار

سیاسی غیر یقینی صورتحال سنگین معاشی اشاریوں  میں اضافہ کرتی ہے اور کاروبار کے منفی رجحان کو تقویت دیتی ہے

معاشی ماہرین سیاسی عدم استحکام کو ایک سنجیدہ بے چینی سمجھتے ہیں جو اقتصادی کارکردگی کے لیے نقصان دہ ہے۔ موجودہ سنگین اقتصادی اشارے یقینی طور پر بڑی حد تک اس طویل سیاسی سرکس کے مرہون منت ہیں جو  ملک میں جاری ہے۔ اس کے علاوہ شدید سیلاب اور ان کے جاری اثرات ہیں، مزید برآں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ جس نے سست اقتصادی ترقی میں مزید کردار ادا کیا۔

کاروباری جذبات زیادہ تر منفی ہونے کی وجہ سے کاروباری برادری کا مستقبل کے نقطہ نظر کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہونا قابل فہم ہے۔

اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے مطابق پاکستان کا مجموعی کاروباری اعتماد اسکور (بی سی ایس) اب منفی 4 فیصد پر برقرارہے، جو کہ مارچ تا اپریل 2022ء میں کیے گئے ویو 21 سروے میں ریکارڈ کیے گئے 17 فیصد کے سابقہ مثبت اسکور سے 21 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

بزنس مینز گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا کہ ملک ایک نازک اقتصادی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ خوردنی اور برآمدی خام مال سمیت سیکڑوں درآمدی کنسائنمنٹس بندرگاہوں پر پھنسی ہوئی ہیں، جس کے نتیجے میں پیداوار تعطل کا شکار ہے اور مارکیٹ میں ضروری مصنوعات کی قلت ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر طارق یوسف نے انکشاف کیا کہ صنعت کاروں میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے کیونکہ وہ اب خام مال اور مشینری درآمد کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بینک لیٹر آف کریڈٹ پر دستخط کرنے سے گریزاں ہیں۔ ٹیکسٹائل کیمیکلز اور ڈائرز وغیرہ کی کھیپ ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے بندرگاہ پر پھنسی ہوئی ہے۔ ڈیمریج اینڈ ڈیٹینشن (’’ڈیمریج‘‘ سے مراد وہ وقت ہے جو کنٹینرز بندرگاہ کے باہر گزارتے ہیں، جب کہ ’’ڈیٹینشن‘‘ سے مراد بندرگاہ کی زمین پر گزارا ہوا وقت ہوتا ہے) اخراجات کنسائنمنٹس کی قیمت سے زیادہ ہوچکے ہیں، اس صورتحال کے نتیجے میں درآمد کنندگان اور صنعت کاروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر شدید غیر یقینی صورتحال ہے۔ برآمد کنندگان کو ان کی ڈیلیوری کی آخری تاریخ گزر جانے کا خدشہ ہے اور بین الاقوامی خریدار اس بارے میں غیر یقینی ہیں کہ آیا انہیں اپنے آرڈر بروقت ملیں گے۔ اگر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو برآمدات متاثر ہوں گی۔انسائٹ سیکیورٹیز کے عاصم حسن نے کے سی سی آئی کے چیئرمین کی تجزیئے سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ مغرب، خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں کساد بازاری کے خدشات سے طلب میں کمی کے ساتھ گیس کی قلت، ورکنگ سرمائے کی بڑھتی ہوئی لاگت، کپاس کی درآمد میں کمی اورغیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برآمدی رقم کا رخ مڑنا ہے۔

عاصم حسن نے مزید کہا کہ مختصرا، حکومت مالی سال 2023ء میں ٹیکسٹائل برآمدات  سے 25 ارب ڈالر حاصل کرنے کی امید کر رہی تھی، لیکن موجودہ ملکی اور عالمی چیلنجز ان اندازوں کو کم کر رہے ہیں۔حال ہی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مختلف درآمدی اشیاء کی ایل سیز کو کلیئر کرنے کے طریقہ کار میں ترامیم کی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ ترجیحی فہرست کے مطابق اب بینک، اسٹیٹ بینک نہیں، درآمدی اشیاء کے لیے ایل سی کلیئر کریں گے۔ تاہم، جے ایس گلوبل کیپٹل کے واصل زمان نے کہا کہ فہرست میں ضروری اشیاء کی درآمد کو ترجیح دی گئی ہے، اس کے نتیجے میں کار سازوں کے لیے خام مال کی دستیابی کے حوالے سے صورتحال مزید خراب ہونے کی توقع ہے (جسے سامان تعیش سمجھا جاتا ہے)، جو پہلے مکمل طور پر ناک آؤٹ (CKD) درآمدات کے لیے محدود کوٹے پر کام کر رہے تھے۔ واصل زمان نے کہا کہ یہ زیادہ قیمتوں، مہنگے آٹو فنانسنگ ریٹس اور ماضی قریب میں ریگولیٹرز کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے شعبے میں مانگ میں پہلے سے کمی میں مزید اضافہ کیا ہے۔

گیٹرون انڈسٹریز کے چیئرمین جاوید بلوانی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روپے کی قدر تیزی سے کم ہو رہی ہے، خام مال اور مشینری کی درآمد محدود ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں یوٹیلٹیز کی قلت بڑھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ  میں 30 سال سے انڈسٹری میں ہوں اور میں نے اتنا برا حال کبھی نہیں دیکھا۔

یاد رہے کہ عالمی اقتصادی حالت کے علاوہ پاکستان کو تباہ کن مون سون سیزن  اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام سے منسلک سخت معاشی حالات کی وجہ سے مقامی طور پر اہم اقتصادی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔

Advertisement

اہم مسائل جو سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، ان میں توانائی کے زیادہ اخراجات، بے نظیر بلند افراط زر، روپے کی قدر میں کمی، خام مال کی قیمتوں میں اضافہ، بڑھتی ہوئی مہنگائی، عالمی سطح پر قابل استعمال آمدنی میں کمی اور نئے اور بڑھے ہوئے ٹیکسوں کے نفاذ کی وجہ سے فروخت کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
بھارت نے پھر کوئی حماقت کی تو جواب نیا ، تیز، فیصلہ کن اور تباہ کن ہوگا، افواج پاکستان
جاپان کی سیاست میں نئی تاریخ رقم، پہلی خاتون وزیرِاعظم بننے کے قریب
صمود فلوٹیلا کے 137 امدادی کارکن استنبول پہنچ گئے
کراچی، شاہراہِ فیصل ناتھا خان پل پر ایک اور شگاف، ٹریفک کی روانی متاثر
ملازمت کی کون سی شفٹ گردوں کی صحت کو متاثر کرتی ہے؟
سونا پھر مہنگا، قیمت میں بڑا اضافہ ریکارڈ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر