Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

توہین آمیز رشتوں سے دور رہنا اتنا مشکل کیوں ہے؟

Now Reading:

توہین آمیز رشتوں سے دور رہنا اتنا مشکل کیوں ہے؟

30 سالہ عائشہ جو کسی زمانے میں تقریبات کی جان ہوا کرتی تھی۔ اس کی ذہانت اوراس کے انداز نے اسے ہر عمر کے افراد میں مقبول بنا دیا تھا۔لیکن یہ اس وقت تک تھا جب تک کہ وہ 22 سال کی نہ ہوگئی تھی۔ 22 سال کی عمرمیں اس کی منگنی شرفاء کے اطوار والے ایک خوش وضع شخص سے ہو گئی۔ اس کے گھر والوں کے لیے، وہ شادی کے لیے شہرکا بہترین آدمی اور سب سے زیادہ اہل کنوارہ تھا، لیکن، وہ خوش ہونے کی بجائے خاموش ہو گئی، اوراس کی شوخ و چنچل باتوں کو یک دم چُپ لگ گئی۔ اس کی آنکھیں بول رہی تھیں، لیکن اس نے زبان سے کچھ نہ کہا۔

عائشہ کے قریبی دوست اور گھر والے قدرے پریشان ہو گئے، وہ تیزی سے ایک ایسی شخصیت میں تبدیل ہو رہی تھی جسے وہ نہیں جانتے تھے۔ تاہم اس بات کو اس کی والدہ نے زیادہ اہمیت نہیں دی اور شادی کا خوف قرار دے کر نظرانداز کردیا۔ اسی سال عائشہ کی شادی ہوگئی۔ہروقت مسکراتے خوبصورت چہرے پرخوشی کی کوئی جھلک نہیں تھی۔اس کی شادی کا ہرجگہ چرچا تھا،جیسا کہ اس کا شوہرآئیوی لیگ کی ڈگری کے ساتھ ایک بہت ہی خوبصورت جیون ساتھی تھا، اس کی فٹز ویلیم ڈارسی سے کافی مشابہت تھی، یا یہ اس کے خاندان کا خیال تھا۔ عائشہ کے لیے اس کی آزمائش ابھی شروع ہوئی تھی۔ دھیرے دھیرے اس کی خوبصورتی ختم ہو گئی، اس کی مسکراہٹ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی، جو بچا تھا وہ ایک عورت کا خول تھا، جو کبھی زندگی سے بھرپورتھا۔

عائشہ میں جو تبدیلی آئی وہ ہارمونز کے عدم توازن کی وجہ سے صرف جسمانی نہیں تھی، اس کی دماغی صحت متاثر ہوئی، اس کی پوری شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار اداس، بوڑھی عورت میں بدل گئی۔ اس نے اپنے ایک قریبی دوست کے ساتھ اپنی شادی میں ہونے والی ’پریشانیوں‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ’’میرے شوہرکومیرا زیادہ باتونی ہونا، یا اتنا زور سے ہنسنا پسند نہیں، وہ کہتے ہیں کہ خواتین اس طرح نہیں ہنستیں، میں اس سے اتفاق کرتی ہوں، لیکن میں کیا کروں کبھی کبھی میں اپنی ہنسی پرکنٹرول نہیں کرپاتی.‘‘اس کی اپنے بارے میں ناپسندیدہ باتوں نے اس کی دوست کو چونکا دیا، اورجب اس نے مزید تفتیش کرنے کی کوشش کی تو عائشہ نے اسے یہ کہتے ہوئے ٹال دیا کہ ’’میری ذاتی زندگی میں آپ کا کوئی دخل نہیں، شادی ایک دوسرے کو سمجھنے سے چلتی ہے۔‘‘  عائشہ کے معاملے میں واضح طور پرمجرم اس کا شوہر تھا، جس نے اس کی سماجی صلاحیتوں پر تنقید کی، اور اسے اس حد تک حقیرسمجھا، جہاں وہ ان تمام باتوں پر یقین کرنے لگی جو اس کے ذہن میں بٹھادی گئی تھیں۔ اس کا شوہر کٹھ پتلیوں کا ماسٹر تھا، وہ اس کے اشاروں پر ناچتی تھی، اس کے پاس کوئی اورراستہ نہیں تھا، یا تھا؟

پاکستان جیسے پدرشاہی ملک میں خواتین پرشوہروں کے برے رویے کو’برداشت‘ کرنے کی شرط عائد کی جاتی ہے، اوربعض عجیب وغریب صورتوں میں بیویاں شادی کوایک سمجھوتہ قراردیتی ہیں۔ عائشہ کو اپنے کنٹرول کرنے والے شوہر کے ہاتھوں بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا جو اس کے مالی معاملات کو بھی سنبھالتا ہے۔ وہ اس پرلعنت ملامت کرتا ہے اوروہ ایک اچھی بیوی کی طرح یہ سب برداشت کرلیتی ہے، وہ ہر جگہ اس کا دفاع کرتی کہ ’’کم از کم وہ مجھے اس طرح نہیں مارتا جیسے دوسرے شوہر اپنی بیویوں کو مارتے ہیں، تو کیا ہوا اگر وہ تھوڑا سا گھٹیا ہے؟ اس کے مالی مسائل ہیں، میں اس کی مدد کرتی ہوں، بیویوں کو یہی کرنا چاہیے۔اس کے خیال میں وہ ایک اچھی اورمعاون بیوی ہے۔

سامعہ دو دہائیوں سے اپنے غصہ ور شوہر کے ہاتھوں مصیبتیں جھیل رہی ہیں۔ وہ ایک خوفزدہ شخصیت ہے، وہ جہاں بھی جاتی ہے، اس کی نظریں منظوری کے لیے اسے ڈھونڈتی ہیں۔ دو دہائیوں میں وہ مکمل طور پر اس کے طرز زندگی کے مطابق ہو چکی ہے، دوسری جانب وہ خودکو جواب دہی سے بالاتررکھتا ہے، معمولی باتوں پرجھگڑے کرتا ہے، اورسب کے سامنے اس کا مذاق اڑاتا ہے، وہ صرف سرہلا کر رہ جاتی ہے اور اس کی کئی بے راہ رویوں کو نظراندازکردیتی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ ’’وہ ایک خوبصورت آدمی ہے، وہ کامیاب ہے، کیا اس نے مجھ سے شادی نہیں کی؟ اور سچ پوچھیں تو میں افواہوں پر یقین نہیں کرتی، میں ’شکی‘ بیوی نہیں ہوں۔

Advertisement

 سامعہ کا بچپن مشکلات میں گزرا ہے، اس کے شوہر کی طرح اس کے والد بھی ایک دبنگ شخصیت کے مالک تھے، جو اکثراس کی ماں کو تنگ کرتے تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ لوگ ایسی شخصیت کے نمونوں پرفدا ہوجاتے ہیں، جیسی ان کے والدین کی تھی، اوڈیپس کمپلیکس کے فرائیڈین نظریہ کے ساتھ دماغ کے فرنٹل کورٹیکس پرحکمرانی کرتا ہے۔ یہ اس کی جانب جاتا ہے جسے اب ’ٹراما بانڈنگ‘ کہا جاتا ہے۔ دو لوگوں کے درمیان ایک ٹراما بائینڈ بنتا ہے، جن میں سے کسی ایک نے بچپن میں بدسلوکی کا سامنا کیا ہوتا ہے، یہ جسمانی یا نفسیاتی ہو سکتی ہے۔ بالغ ہونے کے ناطے’بچ جانے والے‘ اپنے آپ کو یہ سوچ کردھوکہ دیتے ہیں کہ بدسلوکی کرنے والے کے ساتھ ان کا گہرا لگاؤ ’محبت‘ ہے۔ بدسلوکی کرنے والا بار بارایسا کرتا ہے۔ سب سے پہلے سہاگ رات کا مرحلہ ہے، جہاں شکارتوجہ کی بھرمار کردی جاتی ہے،کبھی کبھی تحفوں اورجنت کے وعدے جوزیادتی کرنے والا کبھی دینے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ یہ تیزی سے تنقید، او وہاں سے حتمی کنٹرول کی جانب بڑھتا ہے۔ جب ’زیادتی کرنے والے‘ انتہا کردیتا ہے، تو وہ خوش فہمی کے پہلے مرحلے میں واپس چلے جاتے ہیں، اوربہت سے لوگوں کو طویل عرصے تک تعلقات میں رہنے کے لیے دھوکہ دیا جاتا ہے۔

شکارمکڑی کے جالے میں پھنس گیا ہے، باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ معروف ماہر نفسیات ڈاکٹرکرن بشیر احمد بتاتی ہیں کہ لوگ زہریلے تعلقات کوکیوں چھوڑ نہیں پاتے۔ ان کے خیال میں معاشرہ خاص طورپرخواتین کو’اسے جاری رکھنے‘ کے لیے شرط عائد کرتا ہے، اور وہاں سے نکلنا اب بھی ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ ’صبر‘ (رواداری) کا تصوربچپن سے ہی پیدا کردیا جاتا ہے۔ پاکستان میں لوگ نسبتاً کم عمری میں شادی کرتے ہیں، اور وہ چھوٹی عمر میں ہی والدین بن جاتے ہیں۔ “جب تک انہیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ ایک زہریلے رشتے میں ہیں، وقت گزر چکا ہوتا ہے، کسی کے ساتھ ازدواجی مسائل پربات کرنا بھی ممنوع ہے، اس لیے وہ اس رویے کو برداشت کرتے رہتے ہیں۔”

ڈاکٹرکرن بشیراحمد کے مطابق ایک ٹراما بانڈ عام طورپراس وقت بنتا ہے اگراس شخص کا ماضی میں اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے ساتھ بدسلوکی کا رشتہ رہا ہو۔ “اگر وہ دوسروں یا دوسرے بہن بھائیوں کی طرف سے نظر انداز کیے جاتے ہیں، تو اس شخص کا ذہن لاشعوری طو پراس نظر انداز شخص کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو ان کی منظوری کے خواہاں ہوتا ہے۔”

یہی حال سامعہ کا تھا، وہ بڑے ہوکر اسی شخصیت کی طرف متوجہ ہوئی جس کا سامنا اسے بچپن میں ہوا تھا۔

تاہم،عائشہ کے پاس خوفزدہ کرنے والا باپ نہیں تھا، وہ اپنا احساس کیوں کھو بیٹھی؟ اس کا جواب اس کی ماں کا کردار ہے، جس نے اس پرکنٹرول کیا،اس کا مقابلہ کرنے کا طریقہ کاران لوگوں کو ’خوش‘ کرنا تھا جنہیں وہ پیار کرتی تھیں۔ ڈاکٹرکرن بشیراحمد کے مطابق “اپنی ذات کا احساس دوسرے شخص کو خوش کرنے سے وابستہ ہوجاتا ہے، چونکہ شخصیت دوسرے کو خوش کرنے میں مصروف ہوتی ہے، اس لیے وہ کوئی دوسرا راستہ نہیں دیکھ پاتے۔”

 ایک کامیاب کاروباری خاتون عابدہ جوکہ نفسیاتی طورپربدسلوکی کے رشتے میں بھی تھیں، کہتی ہیں کہ ’’ماؤں کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے، انہیں بہن بھائیوں اورخاندانوں کے دیگر بچوں کے درمیان مقابلے کروانے کے بجائے اپنے بچوں میں تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بچپن کو خوش رکھنے ضرورت ہے۔‘‘ عابدہ کا کہنا ہے کہ اگر کسی بچے کو صدمے کا سامنا کرنا پڑا ہے، تو والدین کوعلامات کو دیکھنے اوراس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement

اگر بچپن صدمے، نفسیاتی بدسلوکی، والدین، بہن بھائیوں یا بڑھے ہوئے خاندان کی حد سے زیادہ تنقید سے بھرا ہوا ہو، تو ذہن میں بننے والے داغ کو بظاہرنہیں دیکھا جا سکتا، لیکن یہ ایک روڈ میپ بن جاتا ہے کہ وہ شخص کس طرح برتاؤ کرے گا اور دوسروں کا سامنا کرے گا۔ ہر چیز کہیں نہ کہیں سے شروع ہوتی ہے، بدسلوکی والے تعلقات زندگی میں بہت بعد میں آتے ہیں۔ جب والدین ایک بچے کو دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں، تو وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ نظر انداز کیے جانے والے بچے کے لیے ایک ایسا اسٹیج ترتیب دے رہا ہے جو ہمیشہ ’ساتھی‘ برداشت کرے۔ جب مذکورہ بچہ بڑا ہوتا ہے، تو اس کی توجہ کی خواہش کھانے کی خواہش سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے، وہ ہمیشہ غلط آدمی کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ ہمیشہ اپنے ساتھی کو ’مطمئن‘ کرنے کے لیے اپنے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ بڑے ہو کر بہت کامیاب  ہو سکتے ہیں، لیکن محبت بھرے رشتے کی صورت میں، وہ کم پڑ جاتے ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ماسکو فارمیٹ اجلاس: آزاداورپرامن افغانستان کے قیام کی حمایت کا اعادہ
پانی کی صورتحال اطمینان بخش، ذخائر 99 فیصد تک بھر گئے: ارسا ایڈوائزری کمیٹی
رواں سال کا پہلا سپرمون آج رات آسمان پر جلوہ گر ہوگا، اسپارکو
غزہ جنگ بندی مذاکرات؛ حماس کے اہم مطالبات سامنے آگئے
دوران قید آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر کتے چھوڑے گئے، سابق سینیٹرمشتاق احمد،ویڈیو پیغام جاری
ایس-ٹریک پورٹل کی بندش، چینی کی فراہمی رک گئی، قیمتیں بڑھنے کا خطرہ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر