Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

بائیڈن اور پیوٹن دونوں اپنے مُستقبل کو یوکرین کے نتیجے سے جوڑتے ہیں

Now Reading:

بائیڈن اور پیوٹن دونوں اپنے مُستقبل کو یوکرین کے نتیجے سے جوڑتے ہیں

اپنی تقاریر میں صدر جو بائیڈن اور صدر ولادیمیر پیوٹن گزشتہ سال کی اپنی تشریحات، اس کے مجرمان، وجوہات اور نتیجے میں مزید مُتضاد نہیں ہو سکتے تھے۔ تاہم ایک پہلو پر وہ دونوں ہی متفق تھے کہ اِس جنگ کو یوکرین کی سرزمین تک ہی رہنا چاہیے لیکن مغرب اور روس کے درمیان بقا کی اِس جنگ کو وسیع تر کیا جا رہا ہے۔ دونوں اشخاص نے یہ کہتے ہوئے کہ اُن کے مخالف کو ہارنا ہی ہے، اپنے اپنے مُستقبل کو بھی اِس جنگ کے نتیجے سے جوڑ دیا۔

Advertisement

اگرچہ دونوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ فتح سے کیا مقاصد حاصل ہوں گے یا اوّلین محاذوں پر جنگ کس طرح سے جاری ہے۔ صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ جنگ روس کے وجودی حق کے حوالے سے ہے اور صدر بائیڈن نے کہا کہ یہ آزادی کی جنگ ہے، وہ لفظ جو بالآخر وہ اپنی اکثر تقاریر میں جمہوریت کے بعد زیادہ منتخب کرتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر بائیڈن کو “جارحانہ کارروائیوں” میں مردانہ وار شامل کرنے کا کبھی کوئی ارادہ نہ تھا لیکن اس کے برعکس صدر پیوٹن نے پہلے تقریر کر ڈالی جب اُنہیں احساس ہوا کہ صدر بائیڈن وارسا میں خطاب کریں گے۔

اگرچہ امریکی صدر اُن خطابانہ بلندیوں تک پہنچنے میں ناکام رہے جن کا یہ تاریخی لمحہ حقدار تھا مگر تشکیلات، انداز اور ترتیب میں تضاد نے غالباً صدر بائیڈن کی مدد کی۔ اِس موقع پہ واحد ڈرامائی صورت جو 1987ء میں برلن میں “دیوار کو گرانے” کے ریگن کے مطالبے کے قریب تر تھی، تب پیدا ہوئی جب صدر بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ “ہر دن جب جنگ جاری رہتی ہے وہ اُن کا مُنتخب کردہ ہے۔ وہ ایک لفظ سے جنگ ختم کر سکتے تھے۔ یہ بہت آسان ہے”۔

تاہم صدر بائیڈن کو بعد میں تقریر کرنے سے کم از کم صدر پیوٹن کے اس غیرمناسب دعوے کو رد کرنے کا موقع ملا کہ جنگ مغرب نے شروع کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کبھی بھی روس پر حملہ کرنے کی سازش نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ “یہ انتخاب کی جنگ تھی، ضرورت کی نہیں” جس کا آغاز ایک شخص نے کیا تھا۔

صدر بائیڈن کو پنڈال کی علامت کا فائدہ بھی حاصل تھا۔ کوبیکی آرکیڈز وارسا کے قدیم شہر میں واقع ہیں۔ امریکی ٹیم نے کہا کہ تمام وارسا کی طرح قدیم شہر دوسری عالمی جنگ کے دوران المناک طور پر تباہ ہو گیا تھا اور اِسے راکھ سے دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ راکھ سے دوبارہ تعمیر کیے جانے کی یہ علامت اس بات کا گہرا پیش خیمہ ہے کہ مغرب یوکرین میں دوبارہ کیا زندہ کرنا چاہتا ہے۔

وائٹ ہاؤس جنگ کے وقت کی تفریح کے مخالف نہیں تھا۔ صدر بائیڈن نارویجن ڈی جے کیگو کی مدد سے آزادی کے اسٹیج پر چڑھے اور میوزک بینڈ کولڈ پلے کے گانے اسکائی فل آف اسٹارز کے بعد وہاں سے روانہ ہوگئے۔ اُن کی تقریر کا لُب لباب اِس اصرار میں پنہاں تھا کہ مغرب کو آزمایا گیا ہے اور اِس نے پیچھے مُڑ کر نہ دیکھنے کا انتخاب کیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں مطلق العنان حکمران کمزور ہوئے ہیں، مضبوط نہیں اور “یوکرین کبھی بھی روس کا مفتوح نہیں بنے گا”، انہوں نے کہا۔

Advertisement

اگرچہ صدر بائیڈن نے صدر پیوٹن پر انسانیت کے خلاف گھناؤنے جرائم کا الزام تو لگایا لیکن اُنہوں نے اپنی گزشتہ غلطی کو نہیں دہرایا جب اُنہوں نے وارسا میں کہا تھا کہ یہ شخص اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔ اُن کے ہونٹوں پہ جنگ کی برسی عراق جنگ کے قریب تر ہونے کے علاوہ حکومت کی تبدیلی جیسے الفاظ نہیں آئے۔

اس کے برعکس صدر پیوٹن نے اپنے دو گھنٹے کے اہم اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں عالمی اقدار پر کم اور روسی مفادات اور اپنی سلامتی پر زیادہ زور دیا۔ ہاں، مغربی خاندانی اقدار کے زوال پر روایتی حملہ ضرور تھا بظاہر جس کی قیادت کینٹربری کے آرچ بشپ نے کی تھی تاہم یہ مغربی اقدار اور سامراج کے خلاف غیروابستہ تحریک کی التجا کرنے کی تقریر نہیں تھی بلکہ یہ روسی زرعی پیداوار کے اعداد و شمار کی تعریف زیادہ تھی۔

کنگز کالج لندن میں روسی سیاست کے پروفیسر سیم گرین (Sam Greene) نے پہلے کہا تھا کہ صدر پیوٹن کی تقاریر عام طور پر معلوماتی ہونے کے لیے نہیں بلکہ تین اہداف، مُہم جوئی کے لیے بیان بازی کی گنجائش فراہم کرنے، ملکی سامعین کو متحرک کرنے اور غیر ملکی سامعین کو مایوس کرنے کے حصول کے لیے لکھی جاتی ہیں۔

اُنہوں نے دلیل دی کہ تقریر اِسی سانچے کے عین مطابق ہے۔ یہ مخصوص تزویراتی ہتھیاروں کی وضاحت کیے بغیر جنگ شروع کرنے اور جاری رکھنے کا جواز پیش کرتی ہے، کبھی کبھار ڈونیٹسک کے تحفظ کا ذکر بھی کرتی ہے۔ یوکرین بھر پر قبضہ، ایک ایسی آبادی جو بظاہر غیر جمہوری مغربی اشرافیہ کے قبضے میں آگئی تھی، کا واضح طور پر ذکر نہیں کیا گیا۔

اُنہوں نے روسیوں میں ملکی وجود کو نیٹو سے لاحق خطرے کے بارے میں ایک بے ساختہ خوف پیدا کیا اور یہ کہ مغرب کس طرح آزاد خیال جمہوریت کی زبان کو آمرانہ اقدار کا لبادہ اوڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

آخر میں اُنہوں نے “نئی شروعات” کی روسی رکنیت کو معطل کرنے پر مغرب کو ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول کے حوالے سے مبہم طور پر پریشان کرنے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے صدر بائیڈن کی طرح اپنے دشمن کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ طویل سفر کے لیے تیار ہے کیونکہ روسی معیشت پابندیوں کے باوجود محض زندہ نہیں ہے بلکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور نئی برآمداتی منڈیوں پر مبنی ایک زیادہ خود کفیل ادارے کے طور پر پنپ رہی ہے۔

Advertisement

انہوں نے نمو میں توقع سے کم کمی کی طرف اشارہ کیا مگر دفاعی اخراجات میں اضافے اور توانائی کی کم آمدن کے باعث بڑھتے بجٹ خسارے کو نظر انداز کیا۔ ذخائر کی کم سطح کو دیکھتے ہوئے خسارے کا پیمانہ جلد ہی مسئلہ بن سکتا ہے۔ بھرتی ہونے والے افراد کے خاندانوں کے لیے ان کی پیشکش بمشکل ہی شاندار تھی کہ ایک قومی فاؤنڈیشن اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ہر سوگوار خاندان کے لیے ایک ون اسٹاپ شاپ سوشل ورکر ہو۔ انہوں نے ملکی امراء سے کہا کہ وہ مقامی طور پر سرمایہ کاری کریں اور جنگ کے روسی مخالفین اور ہجرت کرنے والوں سے نرمی برتنے کا اشارہ کیا۔ روس میں سیاسی قیدیوں سے ہونے والے سلوک کو دیکھتے ہوئے یہ زیادہ تر خیالی ہی لگتا ہے۔

حتیٰ کہ اُن کی “نئی شروعات” کی معطلی بھی ایک وہم ہے کیونکہ معاہدے میں معطلی کی کوئی شق موجود نہیں اور صدر پیوٹن امریکا کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ تاہم یہ جوہری سلامتی کا آخری معاہدہ ہے جو اُنہیں واشنگٹن پر کچھ سبقت دیتا ہے اور یہ جوہری خطرے کو بھی زندہ رکھے گا۔

آخر میں، ایک تقریر جھوٹ، تاریکی، خود پہ ترس کھاتی تنہائی سے بھری جبکہ دوسری تقریر آفاقی اقدار، اُمید پرستی اور اتّحادی اقدار پر مُحیط تھی۔

بشکریہ: دی گارجین

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
گلوبل صمود فلوٹیلا میں شامل اطالوی کشتی بان نے دوران حراست اسلام قبول کر لیا
بلومبرگ نے پاکستان کو دنیا کی دوسری ابھرتی ہوئی معیشت قراردیدیا
عورت کے کا ندھوں پر 2 دنیا ہوتی ہیں ! فضا علی کا بیٹی اور گھرستی سے متعلق کلپ وائرل
آئی ایم ایف نے پاکستان سے ٹیکس استثنیٰ سے متعلق تفیصلات طلب کرلیں
عرب و اسلامی وزرائے خارجہ کا مشترکہ اعلامیہ: ٹرمپ منصوبے کی پذیرائی، جنگ بندی اور قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ
بھارت کی ہٹ دھرمی ویمنز ورلڈ کپ میں بھی برقرار، میچ سے پہلے ہاتھ نہیں ملایا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر