Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

‘نشے نے میری زندگی تباہ کردی’، کراچی میں منشیات کی کھلے عام دستیابی سے پریشان طالبہ کی دہائی

Now Reading:

‘نشے نے میری زندگی تباہ کردی’، کراچی میں منشیات کی کھلے عام دستیابی سے پریشان طالبہ کی دہائی

آئس کے نشے نے میری پوری زندگی برباد کردی، اب صرف میں ہوں اور میرا نشہ ہے۔ گھر والے سیدھے منہ بات نہیں کرتے اور اس راہ پر لگانے والے دوستوں نے بھی منہ پھیرلیا جب کہ نشے کی حالت میں اگر کوئی میرا فائدہ بھی اٹھانا چاہے تو مجھے فرق نہیں پڑتا، ایسا لگتا ہے اس کا خاتمہ میری موت پر ہی ہوگا۔

یہ بیان کراچی کی نجی جامعہ میں زیر تعلیم ایک لڑکی کا ہے جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بول نیوز سے بات کی۔

نجی یونیورسٹی میں میڈیا اینڈ سائنسس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے والی زینب نسیم (فرضی نام) نے بتایا کہ پہلی بار دوستوں کی محفل میں ہی آئس کا پتہ چلا اور پھر وہی سے مجھے اس کی لت لگ گئی، ابتدا میں اپنی جیب خرچ سے نشہ خریدتی تھی اور پھر کئی بار گھر سے چوری بھی کی لیکن اب کچھ دوست خود ہی لاکر دے جاتے ہیں۔

زینب نسیم کا کہنا تھا کہ میرے دوست اس راہ پر لگا کر مجھے تنہا چھوڑ گئے اور اب وہ ملتے بھی نہیں البتہ جب مجھے نشے کی ضرورت ہوتی تو ان سے کہتی ہوں اور وہ دے کر چلے جاتے ہیں۔  نشے کا کوئی فائدہ نہیں البتہ اس کے نقصانات بہت ہیں، اس وقت انسان ایک الگ ہی دنیا میں چلا جاتا ہے اور اسے اپنا بھی ہوش نہیں ہوتا، اس دوران اگر مجھے کوئی کچھ بولے یا فائدہ اٹھائے تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ روز نشہ کرنا ممکن نہیں ہوتا البتہ ہفتے میں ایک سے دو دن لازمی آئس کا نشہ کرتی ہوں اور نشہ نہ ملنے کے باعث بہت خطرناک کیفیت ہوتی ہے، ہاتھ پاؤں کام کرنے چھوڑ دیتے ہیں، بس یوں کہہ لیں کہ انسان کی مرنے والی کیفیت ہوتی ہے، ایسے میں وہ نشہ پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔

Advertisement

زینب نسیم نے بتایا کہ میں نے نشہ چھوڑنے کی بہت کوشش کی لیکن ہر بار ناکام رہی اور مجھے لگتا ہے کہ اس کا اختتام میری موت پر ہی ہوگا، میری پوری زندگی برباد ہوگئی ہے، میرے بہن بھائی تک مجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے جب کہ میرے بچپن اور اسکول کے دوستوں نے بھی قطع تعلق کردیا ہے، اب صرف میں ہوں اور میرا نشہ ہے، اس کے علاوہ کسی چیز کی طرف دھیان نہیں جاتا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ زیادہ تر نشہ دوستوں کے ساتھ ان کے گھر پر کرتی ہوں اور گھر والوں کو یہ بتاکر جاتی ہوں کہ یونیورسٹی پراجیکٹ کے لیے جارہی ہوں۔

شہر میں منشیات تک رسائی میں اضافہ

اقوام متحدہ کے ادارے برائے منشیات وجرائم کی گزشتہ سال شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 سے 64 سال کی عمر کے 284 ملین افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں  جب کہ گزشتہ 10 سالوں کے دوران  منشیات کے استعمال میں 26 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں منشیات سے براہ راست یا بلواسطہ اموات کی تعداد کا ذکر بھی کیا گیا جو صرف سال 2019 میں 4 لاکھ 94 ہزار ریکارڈ کی گئی جب کہ 2009 سے 2019  کے درمیان ان اموات میں 17.5  فیصد اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان میں بھی منشیات تک رسائی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ورلڈ انڈیکس کی ایک رپورٹ کے مطابق نیویارک کے بعد کراچی دنیا میں سب سے زیادہ منشیات (چرس) استعمال کرنے والا شہر بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وطن عزیز میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد 70 لاکھ کے قریب ہے جب کہ منشیات کی اس لعنت سے لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہر بھی محفوظ نہیں جہاں پولیس اور اینٹی نارکوٹکس کے ادارے اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس مافیا کو لگام دینے میں بظاہر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

Advertisement

آئی جی سندھ کو حال ہی میں موصول ہونے والی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق منشیات فروش تیزی سے نوجوان نسل کو اپنا نشانہ بنارہے ہیں جس کے تحت تعلیمی ادارے ، ریسٹورنٹس اور چائے خانے ان کا آسان ہدف ہوتے ہیں جہاں طلبہ بطور تفریح منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ رپورٹ میں نوعمر لڑکوں، لڑکیوں اور طلبہ کو مصنوعی ادویات اور منشیات کی سپلائی کے انکشاف کے بعد آئی جی سندھ نے اسکولز اور ریسٹورینٹس میں منشیات کی سپلائی کے خلاف اسپیشل برانچ سندھ کو کڑی نگرانی کا حکم جاری کیا ہے کہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔

‘پولیس اور حکومت بہت کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن پرائیویسی سمیت بہت سے معاملات آڑے آجاتے ہیں’

سابق ایس ایس پی کرائم برانچ آصف رزاق نے بول نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جامعات میں منشیات کی روک تھام کے لیے سندھ پولیس اور اینٹی نارکوٹکس رازداری سے اپنا کام کررہی ہوتی ہے اور بیشتر تعلیمی اداروں میں طلبہ کو ایمبیسیڈر مقرر کیا ہوا ہے تاکہ وہ مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی کریں لیکن بدقسمتی سے یہ اب پیسے کا کھیل بن چکا ہے جس میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔ حال ہی میں آپ نے دیکھا بہاولپور یونیورسٹی میں جو اسکیندل سامنے آیا اس میں شاندار کیریئر رکھنے والے ایک سابق عہدیدار سمیت سرکاری یونیورسٹی کے ذمہ داران کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں آصف رزاق کا کہنا تھا کہ آئی جی سندھ اور وزیراعلیٰ سندھ نے حالیہ رپورٹ کے بعد جو کام اسپیشل برانچ کو دیا ہے وہ یہ کام کرتی رہتی ہے اور اگر پولیس منشیات پکڑنے میں کامیاب بھی ہوجائے تو ان کے پاس ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا کیوں کہ یہ لیب میں جاتا ہے اور اگر آپ نے کوئی چیز پکڑی ہے اور وہ لیب میں جاکر شہد میں تبدیل ہوجائے تو ایسے میں پولیس کیا کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے اگر منشیات پکڑ بھی لی تو اس کو ثابت کرنے کے لیے گواہ چاہیے ہوتے ہیں لیکن ان معاملات میں کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا جب کہ یہ پولیس کا سیکنڈری کام ہے، پولیس کا اصل کام تو شہر میں امن وامان برقرار رکھنا ہے۔

شہر میں منشیات کیسے داخل ہوتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ کام  پولیس کا نہیں بلکہ اینٹی نارکوٹک فورس اور ایکسائس کا ہے لیکن چونکہ ان کی نفری کم ہوتی ہے اس لیے پولیس کو بھی یہ کام سونپا جاتا ہے البتہ اگر منشیات کو شہر میں داخل ہونے سے روکنا ہے تو شہر کے تمام داخلی راستوں پر اچھے اقسام کے اسکینرز نصب کرنا ہوں گے جس سے اس میں کمی ضرور آسکتی ہے لیکن اس کو مکمل ختم کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

Advertisement

سابق ایس ایس پی کرائم برانچ نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت بہت کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن اس میں پرائیویسی سمیت بہت سے معاملات آجاتے ہیں کہ وہ کیسے کسی کی مرضی کے بغیر لڑکے یا لڑکی کا خون ٹیسٹ لے سکتے ہیں، اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

کراچی میں آن لائن منشیات سپلائی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کا یہ دائرہ کار نہیں ہے کہ وہ ہر کسی کا پرسنل واٹس ایپ یا دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹ چیک کرے، البتہ اگر ان کے پاس کوئی شکایت آئے گی تو وہ اس پر کارروائی کریں گے۔

کراچی میں منشیات کے اڈے اور قیمتیں

ذرائع کے مطابق کراچی میں منشیات کے 100 سے زائد اڈے ہیں جہاں پر آئس سمیت دیگر منشیات کھلے عام فروخت ہورہی ہے، کراچی کے ضلع جنوبی، ملیر، کورنگی اور ویسٹ میں قائم اڈوں سے کوئی بھی شخص باآسانی آئس فروخت کرسکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر قائد میں آئس کی یومیہ فروخت 10 لاکھ روپے تک ہے، اسکول، کالج اور جامعات کے بچوں میں یہ نشہ بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، گزشتہ پانچ سالوں کے دوران لڑکیوں میں بھی اس کی شرح خطرناک حد تک پھیل رہی ہے۔

کراچی میں چرس کے علاوہ شراب، ہیروئن، کرسٹل میتھ، نیند کی گولیاں اور کوکین وغیرہ سمیت تمام اقسام کی منشیات آسانی سے دستیاب ہیں اور کوئی بھی انہیں آن لائن آرڈر کرکے گھر پر وصول کرسکتا ہے جب کہ کوکین کا استعمال اعلیٰ طبقے کے نوجوانون میں زیادہ مقبول ہورہا ہے۔

ماہر نفسیات سدرہ احمر کے مطابق منشیات میں سب سے مہنگا نشہ کوکین ہے جو آئس سے بھی زیادہ مہنگا ہے  اور وہ صرف ایلیٹ کلاس ہی زیادہ تر استعمال کرتی ہے۔ جہاں تک ان کی قیمتوں کا تعلق ہے تو چونکہ منشیات کے استعمال کے پیچھے بہت بڑا مافیا ہے تو ہر جگہ اس کے ریٹ مختلف ہوتے ہیں یعنی ان کا بنیادی مقصد اس کی فروخت ہوتی ہے جو جس قیمت میں بھی حاصل کرلے۔

Advertisement

منشیات سپلائی کرنے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کوکین سب سے مہنگا فروخت ہوتا ہے لیکن وہ مہنگے علاقوں میں ہی پایا جاتا ہے جس کے بعد کرسٹل میتھ آتا ہے جو 1200 روپے گرام ہے۔ اس کے علاوہ پاؤڈر 1000 روپے گرام، آئس 800  روپے گرام اور چرس 100 روپے گرام میں فروخت ہوتا ہے۔

‘منشیات کا استعمال ایسا زہر ہے جو انسان کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کرتا ہے’

نجی کالج کے طالب علم  ضیاالرحمان (فرضی نام) کے مطابق 19 سال کی عمر میں پہلی بار دوستوں کے ساتھ چرس پینے کا اتفاق ہوا اور اس کے بعد کب اس کی لت لگ گئی، اس کا اندازہ ہی نہیں ہوا، شروع میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ نشہ آپ کی زندگی کے سارے مسائل حل کردے گا لیکن کچھ وقت بعد نشے کے بغیر معمولی کام بھی نہیں ہوتے اور منشیات ایسا زہر ہے جو آپ کو آہستہ آہستہ اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔

خیال رہے کہ نوجوانوں میں ‘آئس نامی’ نشے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے جو پارٹیوں میں زیادہ تر پوش علاقوں کے نوجوانوں کے تفریح کا حصہ بن چکا ہے اور یہ نشہ اب پارٹیوں سے نکل کر تعلیمی اداروں کا رخ کرنے لگا ہے۔ تعلیمی اداروں اور ان کے ہاسٹلز میں مقیم نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد مسلسل اس لعنت کا شکار ہو رہی ہے جب کہ اس نشے میں 24 سے 48 گھنٹوں تک جگانے کی خاصیت موجود ہونے کی وجہ سے طلبہ خاص طور پر امتحانات کے دوران اس جانب راغب ہوتے ہیں تاکہ وہ یکسوئی سے امتحان کی تیاری کرسکیں۔

‘اگر شہر میں منشیات موجود ہے تو تعلیمی اداروں میں بھی آئے گی’

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی نے بول نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کے معاشرے میں منشیات کی موجودگی کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ معاشی حالات کی وجہ سے منشیات میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس حوالے سے مختلف ریسرچ موجود ہیں کہ اس کے نفسیاتی  اور سماجی پہلو بھی ہیں اور مختلف وجوہات کی وجہ سے منشیات کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے۔

Advertisement

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر خالد عراقی کا کہنا تھا کہ طلبہ اس معاشرے کا حصہ ہیں اور اگر شہر میں منشیات موجود ہے تو وہ صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں اور جہاں تک جامعات تک منشیات پہنچنے کا سوال ہے تو وہ اس لیے پہنچتی ہے کہ یہاں آنے والے بچے شہر کا حصہ ہیں اور وہ اسی پس منظر کے ساتھ کالجز اور جامعات کا رخ کرتے ہیں لہذا یہ منشیات جہاں سے شہر میں داخل ہورہی ہے، وہاں سے روکنے اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر خالد عراقی کے مطابق سوال یہ ہے کہ ہم بطور والدین، اساتذہ یا معاشرے کا حصہ ہونے کے ناطے منشیات سے متعلق کتنی آگاہی رکھتے ہیں اور کس حد تک اپنے لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں کہ وہ منشیات کی اس لعنت سے باہر نکل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں منشیات کو ختم کرنا ہے تو اس کو بطور ایونٹ نہیں بلکہ مہم کے طور پر چلانا ہوگا۔

وائس چانسلر جامعہ کراچی نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران جامعہ سے منشیات سے متعلق کوئی کیس سامنے نہیں آیا، یہاں تک کہ جامعات کی کینٹین میں سگریٹ بیچنے پر بھی پابندی عائد ہے جب کہ ہم وقتاً فوقتاً مختلف پروگرامز کے ذریعے طلبہ کو یہ آگاہی دیتے رہتے ہیں کہ منشیات کا استعمال مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اضافے کا سبب ہے۔

ڈاکٹر خالد عراقی نے تسلیم کیا کہ جامعات کے ہاسٹلز میں منشیات کے استعمال کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے گھر والوں سے دور ہوتے ہیں تو ایسے میں ان کی نگرانی نہیں ہوسکتی اور پھر وہ اجنبی دوستوں کے ساتھ ملتے ہیں، لہذا منشیات کی لت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی سرکاری یا پرائیوٹ  تعلیمی ادارہ منشیات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ وہ اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

‘ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے کچھ بچے منشیات جامعات تک پہنچانے میں کردار ادا کرتے ہیں’

ایک نجی جامعہ کے طالب علم طاہر(فرضی نام) نے بتایا کہ پرائیوٹ جامعات میں زیادہ تر امیر گھرانوں کے بچے آتے ہیں جن میں سے کئی بچے اسکول یا کالج سے ہی منشیات کے عادی ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے کلاس فیلوز کو بھی اس جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ دوستی کی خاطر تو کچھ محض دوسروں کی دیکھا دیکھی یا پھر سوشل سرکل میں خود کو تسلیم کروانے کے لیے تفریح کے طورپر اس کا آغاز کرتے ہیں اور اس لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

Advertisement

ایسے کون سے اسکولز ہیں، جہاں یہ بچے منشیات کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں طاہر کا کہنا تھا کہ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے کچھ بچوں کی بیٹھک بچپن سے ہی ایسے دوستوں میں ہوتی ہے جہاں پارٹیوں میں ان کے بھائی کا کوئی دوست، کزن یا پھر گلی کا کوئی جاننے والا مل جاتا ہے اور وہاں سے انہیں لائن مل جاتی ہے جب کہ ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے گھروں میں ان کے باپ ، دادا شراب نوشی وغیرہ کرتے ہیں اور پھر یہی بچے منشیات کو کالجز اور جامعات تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

بچوں تک منشیات کی رسائی سے متعلق طاہر نے کہا کہ دراصل یہ نیٹ ورک بہت مضبوط ہوتا ہے جو بہت رازداری سے کام کرتا ہے اور ایسے مقامات منتخب کرتے ہیں جہاں سے انہیں معلوم ہے کہ انہیں پکڑنا آسان نہیں یا پھر وہ ایسے تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کرتے ہیں جہاں ان کا روپوش ہونا آسان ہوتا ہے، وہ کبھی بھی اسکول کے باہر کھلے عام فوڈ اسٹالز یا دیگر مقامات پر موجود نہیں ہوتے۔

لڑکیوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر طاہر نے کہا کہ زیادہ تر ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں منشیات کا استعمال کرتی ہیں کیوں کہ انہیں گھر سے زیادہ روک ٹوک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، انہیں دوستوں کے پاس اور لیٹ نائٹ پارٹیوں میں جانے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دیگر طبقات کی لڑکیاں اس کا خرچ برداشت نہیں کرسکتیں اور نہ ہی انہیں گھر سے اتنی آزادی ہوتی ہے۔

طاہر نے مزید بتایا کہ منشیات استعمال کرنے والے میرے اکثر دوست کہتے ہیں کہ ان کا اسٹریس بالکل ختم ہوجاتا ہے لیکن میرے بہت قریبی دوست جو اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند تھے، انہوں نے خود سے لڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے عہد کیا کہ وہ اب منشیات کا استعمال نہیں کریں گے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ طاہر نے اپنے قریبی دوست عرفان (فرضی نام) کی مثال دیتے ہوئے کہا عرفان اسکول سے ہی منشیات کی لت میں مبتلا ہوچکا تھا، شروع میں تو اسے بہت مزہ آتا تھا اور پھر یہ سلسلہ یونیورسٹی تک یوں ہی چلتا رہا، اس دوران اس نے حشیش، آئس ، چرس سے لے کر کسی قسم کا نشہ نہیں چھوڑا، نشہ آور گولیوں کا استعمال بھی اس کے لیے ایک عام سی بات بن گئی تھی تاہم پھر اسے محسوس ہوا کہ اس لعنت سے  اس کی سوشل اور اکیڈمک لائف بالکل ختم ہوگئی ہے اور وہ خود سے مایوس ہوگیا تھا۔ بلآخر اس نے ہمت کرکے ری ہیبلیٹشن کروائی اور آج وہ مکمل طور پر صحتیاب ہے اور دوبارہ سے اپنی پڑھائی پر توجہ دے رہا ہے۔

‘اب تک 75 نشے کے عادی نوجوانوں کو زندگی کی جانب واپس لانے میں کامیاب ہوئے ہیں’

کراچی میں نشے کے عادی افراد کے لیے ایم آر سی سی کے نام سے بحالی مرکز چلانے والی ماہر نفسیات سدرہ احمر اپنی مدد آپ کے تحت 75 نشے کے عادی نوجوانوں کو زندگی کی جانب واپس لانے میں کامیاب رہی ہیں جن میں 45 طلبہ بھی شامل ہیں۔

Advertisement

مرکز رہنمائی ری ہیبلی ٹیشن سینٹر (سی ای او ایم آر سی سی) کی سی ای او سدرہ احمر نے بتایا کہ ہمارے پاس  زیادہ تر آئس، ہیرون یا پھر چرس کا نشہ کرنے والے نوجوان آتے ہیں اور بیشتر طلبہ اسٹریس یا پھر پڑھائی پر توجہ دینے کے لیے نشے کی جانب راغب ہوتے ہیں جس کے لیے وہ دھوکے میں آکر آئس نامی نشے کا استعمال شروع کردیتے ہیں تاہم یہ کچھ وقت کے لیے کارآمد ہوتا ہے بعد میں وہ اس میں بری طرح پھنس جاتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نشے کے عادی افراد کے لیے ری ہیب کا دورانیہ بین الاقوامی  معیار کے مطابق ایک سال ہے جس میں ابتدائی 3 ماہ کا علاج انتہائی اہم ہوتا ہے، اگلے 6 ماہ کے دوران وہ بحالی مراکز میں ہی ہوتے ہیں مگر انہیں مخصوص مدت کے لیے گھر جانے کی اجازت ہوتی ہے اور آخری 3 ماہ میں انہیں باقاعدگی سے ماہر نفسیات کے پاس وزٹ کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی نوجوان ری ہیب کا عمل مکمل نہ کرے تو ان کے نشے میں دوبارہ مبتلا ہونے کے بعد زیادہ امکانات ہوتے ہیں تاہم ہمارے پاس ایسے درجنوں لوگ ہیں جو صحتیاب ہونے کے بعد ہمارے مرکز کی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔

‘بطور والد میں خود کو قصور وار سمجھتا ہوں کہ میں اپنا فرض ادا نہ کرسکا’

منشیات کی لت میں مبتلا عدنان خان (فرضی نام) کے والد نے بتایا کہ میرے بیٹے کی اس لعنت میں مبتلا ہونے کا قصوار میں خود کو بھی سمجھتا ہوں کیوں کہ مجھ سے شاید اس کی تربیت اور نگرانی میں کچھ کمی رہ گئی تھی۔ ایسے میں میرا ماننا ہے کہ والدین کی جانب سے اولاد کو منشیات کے خطرات سے آگاہ نہ کرنے کے علاوہ معاشرے میں اس لعنت کی کھلے عام فروخت، تعلیم  کے دوران بچوں پر غیر ضروری دباؤ منشیات پھیلنے کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں جب کہ ملک میں جاری سیاسی ومعاشی عدم استحکام بھی منشیات کے استعمال میں اضافے کی اہم وجہ ہے۔

ری ہیب سے متعلق میرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے یہ اتنا آسان نہیں کیوں کہ ری ہیبلی ٹیشن کا عمل نہ صرف مشکل بلکہ صبرآزما ہوتا ہےاور اس میں خاندان کی مکمل سپورٹ درکار ہوتی ہے۔ تاہم میں نے دیکھا ہے کہ مڈل کلاس طبقے میں ایسے لوگوں کے ساتھ ہمدری رکھنے کے بجائے انہیں دھتکارا جاتا ہے اور ان کے ساتھ زبردستی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ کبھی گھر سے بھاگ کر تو کبھی چھپ چھپا کر یہ عمل دہراتے رہتے ہیں۔

Advertisement

‘ایسی بہت سی نشہ آور چیزیں ہوتی ہیں جس کا علم بچوں کو نہیں ہوتا’

چیئرمین اسکول ایسوسی ایشن طارق شاہ نے بول نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسکولز میں تو ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہوگا، البتہ اسکولز کے باہر جو کھانے پینے کے اسٹالز لگتے ہیں، وہاں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو یہ منشیات بچوں کو فروخت کررہے ہوتے ہیں۔

جب طارق شاہ سے سوال کیا گیا کہ صرف اسکولز کے باہر نہیں بلکہ اسکولز کے اندر بھی پہلے سے عادی شدہ بچے دوسرے بچوں کو منشیات فراہم کرنے کی اطلاعات ملی ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میرے علم میں ایسی کوئی شکایت اب تک نہیں آئی جب کہ ہم نے تو متعدد اسکولز میں ایمبسٹرز بھی مقرر کیے ہوئے ہیں اور انہیں یہ ہدف دیا گیا ہے کہ وہ مشکوک سرگرمیوں کو رپورٹ کریں۔ اس کے علاوہ ہم نے بچوں میں منشیات کی روک تھام اور آگاہی کے لیے متعدد پروگرامز بھی کروائے ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسداد منشیات قوانین، پولیس  اور اینٹی نارکوٹکس کے اداروں کی موجودگی کے باوجود ملک کی عام شاہراؤں سے لے کر تعلیمی اداروں تک ہر قسم کی نشہ آور چیزیں با آسانی کیوں دستیاب ہیں؟ کیا نوجوان نسل کی ذہنی اور جسمانی صحت حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں؟

سال 2017 میں حکومت سندھ نے فیصلہ کیا تھا کہ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں طلبہ و طالبات کا خون ٹیسٹ لیا جائے گا اور نشے کی لت میں مبتلا عادی طلبہ کا علاج بھی حکومتی خرچے پر کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی طے پایا تھا کہ تعلیمی اداروں کے آس پاس منشیات فروشوں پر گہری نظر رکھی جائے گی لیکن اس پر عملی طور پر اب تک کچھ نہیں ہوسکا۔

حکومت کا موقف حاصل کرنے کے لیے متعدد بار صوبائی وزراء سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں سوالات بھی بھیجے گئے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
فتنہ الہندوستان کا انتہائی مطلوب دہشت گرد ہلاک
البانیہ: یورپین ڈیس ایبل اسنوکر چیمپئن شپ میں پاکستان نے گولڈ میڈل جیت لیا
انڈس شیلڈ ایلفا، فضائی جنگی مشق کیلئے پاکستان ایئرفورس کا دستہ آذربائیجان پہنچ گیا
ممتاز گلوکارہ زبیدہ خانم کو مداحوں سے بچھڑے 12 برس بیت گئے
راولپنڈی: پاک، ساؤتھ افریقہ ٹیسٹ سیریز کے لیے فول پروف سیکیورٹی و ٹریفک پلان جاری
وزیراعظم شہباز شریف کی جاتی امراء آمد، نواز شریف سے اہم ملاقات
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر