پشاور ہائیکورٹ/ فائل فوٹو
انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس میں پی ٹی آئی درخواست پر پشاور ہائیکورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔
جاری کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا ہے، ووٹ کے خواہشمند اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ دینے سے محروم کیا گیا، الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو معطل کیا جاتا ہے اور الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس بھی جاری کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفیکیٹ ویب سائٹ پر پبلش کیا جائے،پی ٹی آئی کا بلے کا نشان بھی بحال کیا جائے۔
جاری کردہ فیصلے کے مطابق آئندہ سماعت 9 جنوری 2024 کو ہوگی، الیکشن کمیشن فیصلے معطلی کا حکم 9 جنوری 2024 تک نافذ العمل رہے گا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ 8 فروری کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، 13 جنوری 2024 کو انتخابی نشان الاٹ ہوں گے۔
یاد رہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کو بلے کا نشان واپس کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
پشاورہائی کورٹ میں جسٹس کامران حیات میاں خیل نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی جبکہ گوہرعلی خان، بیرسٹرعلی ظفر، بابراعوان اور دیگر وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا آرڈرمعطل کیا جاتا ہے۔ الیکشن 8 فروری کو اورنشانات13 جنوری کو ہونے جا رہے ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا جارہا ہے۔
پشاورہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
سماعت کے آغاز میں بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قراردیے ہیں، اب ہم الیکشن میں بطورپارٹی حصہ نہیں لے سکتے، انتخابی نشان واپس لیا گیا، اب نشان کے بغیر ہمارے امیدوار الیکشن میں جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیے کہ انتخابی نشان سیاسی پارٹی کی پہنچان ہوتی ہے، سپریم کورٹ نے بھی انتخابی نشان کیس میں اس پر فیصلہ دیا ہے، یہ آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 17 تنظیم سازی کا کہتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف انتخابات پر سوال نہیں اٹھایا بلکہ یہ کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو جنرل سیکرٹری نے کیسے تعینات کیا۔
بیرسٹرعلی ظفرنے دلائل پیش کیے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا حکم دیا، الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا کہ انتخابات ٹھیک ہوئے پھر کہا کہ جس بندے نے انتخابات کرائے اسکی تعیناتی ٹھیک نہیں۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے اور پارٹی سے انتخابی نشان واپس لے لیا، انتخابی نشان نہ ہونے کی صورت میں پارٹی غیرفعال ہو جاتی ہے، انتخابی نشان واپسی لینے کی وجہ سے عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے، انتخابی نشان نہ ہونے کی صورت میں پارٹی کو مخصوص نشستیں بھی نہیں مل سکتی۔
جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ میں نے فیصلہ نہیں پڑھا، کیا صرف یہی لکھا ہے کہ الیکشن کرانے والے کی تعیناتی غلط ہے؟ وکیل علی ظفرنے جواب دیا کہ بالکل الیکشن کمیشن نے یہی لکھا ہے، اس پر انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں، انتخابی نشان ایک بنیادی حق ہے جو ہم سے لے لیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار ہی نہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفرنے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی ہے، بلے کا نشان بھی غلط واپس لیا گیا، پی ٹی آئی کے 8 لاکھ سے زائد ممبرز ہیں اور کسی نے سوال نہیں اٹھایا، الیکشن کمیشن کے پاس آنے والے درخواستگزار کون تھے؟ عام لوگ تھے، پی ٹی آئی کا حصہ نہیں، سول کورٹ میں مناسب ٹرائل کے بغیر ایسے کیسز میں فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔
انھوں نے یہ بھی استدعا کی کہ الیکشن کا فیصلہ غیر قانونی ہے، ایک تعیناتی کی بنیاد پر انتخابی نشان واپس نہیں لیا جا سکتا، پارٹی آئین ہم نے بنایا اور ہم نے ہی عمل کرنا ہے، پارٹی آئین کے مطابق ہی انتخابات کرائے۔
جسٹس کامران حیات نے سوال کیا کہ اگرسیکریٹری جنرل مستعفی ہو جائے تو کیا ہو گا؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ ایڈیشنل سیکریٹری جنرل عہدہ سنبھال لیتا ہے اور اس وقت عمر ایوب ہی تھے۔
جسٹس کامران حیات نے استفسارکیا کہ کیا اسد عمر نے استعفیٰ دیا اور وہ منظور بھی ہوا؟ جس پربیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ جی بالکل لیکن الیکشن کمیشن نے یہ پوچھا ہی نہیں کیونکہ ٹرائل نہیں ہوا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ویسے اس پر آج فیصلہ نہیں دے سکتے، یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انٹرم ریلیف دینے سے لگے گا کہ حتمی فیصلہ بھی دیدیا جس پرجسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ کل کو اگر ہم کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تو پھر پانی سر سے اوپر گزرا ہوگا، کیا پھرالیکشن کمیشن دوبارہ انتخابات کرائے گا؟ ایک آرڈر سے پارٹی کو انتخابات سے نکال دیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ پھراس کے لیے ڈویژنل بنچ تشکیل دیا جائے، یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے، الیکشن کمیشن خود مختارادارہ ہے اوران کے پاس اختیارہے، آپ بتائیں نا کس قانون کے تحت فیصلہ کیا گیا؟
نوید اختر ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ پی ٹی آئی نے مقررہ وقت میں انتخابات نہیں کرائے، ہم نے مقررہ وقت میں انتخابات نہ کرانے کے خلاف درخواست دی تھی، جس پر جسٹس کامران حیات نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن کا وقت دیا تو آپکی بات ختم ہو گئی، اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کونسے اختیار ہیں کہ وہ پارٹی سرٹیفیکیٹ مسترد کرے، اس پر نوید اختر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن جرمانہ لگا سکتا ہے۔
جسٹس کامران حیات نے کہا کہ آپ میرے سوال کا جواب دیں، آپ کبھی ایک اور کبھی دوسری بات کرتے ہیں، جب الیکشن کا اعلان ہو جائے تو کس قانون کے تحت روک رہے ہیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کی تفصیل فراہمی کے بعد الیکشن کمیشن خود کو مطمئن کریگا۔
جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ جب چیئرمین اور سیکریٹری ختم ہو جائے تو پھرکیسے انتخابات کرائینگے، یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے، ہم نے کیس کا فیصلہ نہیں کرنا، آج ہم نے انٹرم ریلیف پر فیصلہ کرنا ہے، پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات بظاہر درست لگ رہے ہیں، ایکٹ 2017 کے مطابق پی ٹی آئی کو 2018 الیکشن لڑنے دیا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی کو پشاور ہائیکورٹ کے بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا، پشاورہائیکورٹ متعلقہ فورم نہیں اس لیے رٹ پٹیشن خارج کی جائے۔ میری بات سن لی جائے، تحمل سے عدالت کی معاونت کرونگا، الیکشن کمیشن اگر پارٹی کو ختم کرے تو ایسی صورت میں سپریم کورٹ جانا ہوگا۔
جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے تو سارے کاغذات جمع کیے اور آپ نے جماعتوں کی فہرست میں شامل کیا، اگر کاغذات نہ دیتے اور الیکشن کمیشن نے ختم کیا ہوتا تو تب سپریم کورٹ جاتے، یہ کہاں لکھا ہے کہ ایک پارٹی انتخابات کرائے اور تفصیل فراہم کرنے کے بعد الیکشن کمیشن اسے تسلیم نہ کرے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سادہ بات ہے کہ یہ کیس ڈویژنل بنچ کا ہے، ان کی استدعا اورانٹرم ریلیف ایک ہی ہے کیسے آپ حکم امتناع دے سکتے ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ یہ چیف جسٹس فیصلہ کرینگے کہ کب ڈویژنل بنچ کو لگے گا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
