
مرزا غالب کا یومِ پیدائش آج منایا جارہا ہے
خدائے سخن مرزا اسد اللہ خان غالب کا 226 واں یومِ پیدائش آج منایاجا رہاہے۔
مرزاغالب نے اپنا پہلا شعر گیارہ سال کی عمر میں کہا تھا اور شاید اس وقت اسد اللہ کو خود بھی علم نہ تھا کہ ان کی شاعری اردو زبان کو رہتی دنیا تک روشن کرتی رہے گی۔
اردوز زبان کے اس بے مثل شاعر مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ اور والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔
آپ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے، بچپن ہی میں یتیمی کا داغ ملا لیکن آٹھ برس کی عمر تک مہربان چچا مرزا نصر اللہ بیگ پرورش کرتے رہے ، تاہم آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی چل بسے۔
ان حالات میں نواب احمد بخش خاں نے مرزا غالب کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا، 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی ، شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے، اس دوران انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔
مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے شاہی قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔
آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک
مرزا غالب اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں، شروع میں وہ فارسی اور مشکل اردو زبان میں شاعری کرتے تھے اور اس زمانے میں اسد ان کا تخلص تھا، تاہم معاصرین کے طعنوں کے بعد انہوں نے اپنی شاعری کا رخ بدلا اور اسے ایسی آسان زبان، تخیل اور فلسفیانہ انداز میں ڈھالا کہ کوئی اور شاعر ان کے مدمقابل نظر نہیں آتا۔
ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اوراشعار میں زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کی گہرائی نے غالب کو عظیم بنایا۔
شاعری میں روز مرہ محاوروں سے دل میں اتر جانے والی سادگی کے کمال نے غالب کو زمانے میں یکتا کر دیا، وہ بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔
غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
کثرت شراب نوشی کے باعث ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی انتقال سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔
غم ہستی کو اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News