تحریکِ انصاف کو بلا مل گیا، الیکشن کمیشن کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم
پشاورہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ پی ٹی آئی کی درخواست منظورکرتے ہوئے الیکشن کمیشن کرسرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم دے دیا۔
پشاورہائی کورٹ نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات اورانتخابی نشان واپسی کیخلاف کیس کی سماعت کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا بحال کردیا۔
پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن وکلا کے دلائل کل مکمل ہوئے تھے۔ کیس میں الیکشن کمیشن سمیت 15 فریقین ہیں، آج 14 میں سے 6 فریقین کے وکلا نے دلائل پیش کیے۔ 8 فریقین یا ان کے وکلاعدالت میں پیش نہ ہوسکے۔
جسٹس اعجاز انوراورجسٹس ارشد علی نے پشاورہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اورانتخابی نشان واپس کیخلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے محفوظ فیصلہ سنایا۔
Advertisementتحریک انصاف کو بلا مل گیا
عدالت کا الیکشن کمیشن کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم
پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرلی
براہ راست دیکھیں:https://t.co/w7GLQEhGrd #BOLNews #PeshawarHighCourt #PTI pic.twitter.com/4VpDpIP5WQ— BOL Network (@BOLNETWORK) January 10, 2024
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قراردینے اورانتخابی نشان واپسی کیخلاف کیس کی سماعت آغازمیں فریق جہانگیر کے وکیل نوید اخترایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آج سپریم کورٹ میں بھی کیس لگا ہے۔
جسٹس اعجاز انورنے کہا کہ یہ بات کل ختم ہوچکی ہے، انہوں نے بتایا وہ وہاں کیس نہیں کررہے، اگر کل یہ نہ بتایا ہوتا تو ہم پھر پرسوں کی تاریخ دیتے۔
بیرسٹر ظفر نے سپریم کورٹ میں کیس پرسوں نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی۔
قاضی جواد ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ میرے مؤکل پی ٹی آئی کے سابقہ ضلعی جنرل سیکرٹری رہے ہیں، انھیں میڈیا سے پتہ چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہورہے ہیں، وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا۔
جسٹس اعجاز انورنے کہا کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائیں، الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قراردیا تو آپ کو چاہیئے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے، آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیئے تھا آپ نے نہیں کیا۔
کیس میں فریق صوابی کے یوسف علی کے وکیل قاضی جوادنے جواب دیا کہ ہمیں توانتخابات میں موقع نہیں دیا گیا اس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے، لاہورہائیکورٹ نے کیس کو خارج کیا ہے۔
جسٹس اعجازانورنے کہا کہ وہ آرڈرآپ نے پڑھا ہے، اس میں کہا ہے کہ کیس پشاور ہائیکورٹ میں ہے اس لیے مداخلت نہیں کرتے، کیا کوئی انتخابات بغیرنشان کے منعقد ہوئے؟
وکیل قاضی جواد نے جواب دیا کہ ماضی میں نان پارٹی انتخابات ہوئے، پارٹیز ختم بھی ہوئی تو نئی بن گئی، دیکھ لیں وہ مارشل لا کے دورمیں ہوا ہے۔
وکیل نے دلائل دیے کہ لیکن یہ سب ایک لیگل فریم کے اندر ہوا ہے، جس پرجسٹس اعجازانورنے کہا کہ اچھا آپ یہ بتائیں آپ کی پارٹی ہے تو کیا ان کو انتخابی نشان ملنا چایئے۔
قاضی جواد نے کہا کہ میں رولز کی بات کرتا ہوں جو قانون ہے وہی ہونا چاہئے۔
جسٹس ارشدعلی نے کہا کہ نہیں ویسے آپ کیا چاہتے ہیں ان کیخلاف انتخابی نشان واپسی کی کارروائی ٹھیک ہے؟ وکیل قاضی جواد نے دلائل میں جواب دیا کہ میں تو قانون کی بالادستی کی بات کرتا ہوں قانون کے مطابق کارروائی کو سپورٹ کرتا ہوں۔
ایڈووکیٹ قاضی جواد نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ایک پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوئی اورایک ہی انتخابی نشان پرمسئلہ کھڑا ہوا، الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان پر مسئلہ حل کیا کیونکہ اس کا اختیار حاصل تھا، میں چاہتا ہوں کہ دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوں اور اس میں حصہ لوں، ان کو شوکاز نوٹسز دیے گئے، یہ ایک تسلسل ہے، یہ کوئی ایک دن میں نہیں ہوا۔
کیس میں فریق کوہاٹ کے شاہ فہد کے وکیل طارق آفریدی نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ سن سکتا ہے، پشاور ہائیکورٹ اس کیس کو نہیں سن سکتا، ہائیکورٹ کے حدود سے متعلق آرٹیکل 199 واضح ہے،
ایڈووکیٹ احمد فاروق نے دلائل میں کہا کہ اپنے کارکنوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دیا، انٹرا پارٹی انتخابات کا اچانک بلبلا اٹھا اوراعلان کیا گیا کہ کابینہ بن گئی جس پرجسٹس اعجازانورنے کہا کہ وہی بلبلا ابھی پھٹا ہے، جج کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگے۔
وکیل احمد فاروق نے کہا کہ انتخابات آئین کے مطابق نہیں کرائے گئے، الیکشن کمیشن فیصلہ کے خلاف بھی سول کورٹ جانا چایئے تھا، الیکشن ایکٹ میں یہ لازمی نہیں کہ پر انتخاباب میں وہی نشان ملے گا، اگر دو جماعتیں مانگ لے تو الیکشن کمیشن کو اختیار ہے،
کیس میں فریق نورین فاروق اور راجہ طاہر کے وکیل میاں عزیز الدین نے دلائل دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس سرٹیفیکٹ مجاز شخص نے جمع نہیں کیا۔ جب فریقین کو معلوم ہوا تو عدالت میں کیس کردیا۔ عدالت نے کیس کمیشن کے پاس بھیج دیا۔ اس کے بعد مجاز شخص کے ذریعے سرٹیفیکٹ جمع کیا گیا۔
وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو کیس میں فریق چارسدہ کے جہانگیرکے وکیل نوید اختر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر جرمانہ ہوسکتا ہے، جس پر جسٹس ارشدعلی نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے یہ کارروائی کی ہے۔
وکیل نوید اخترنے جواب دیا کہ نہیں، الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 215 کے تحت کارروائی کی، جسٹس ارشدعلی نے کہا کہ اس سکیشن میں تو انٹرا پارٹی انتخابات کی بات نہیں ہے۔
نویداخترنے دلائل دیے کہ قانون کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی آئین اورالیکشن ایکٹ کے مطابق ہونے چاہئے، اس رو سے انٹرا پارٹی انتخابات خود بخود 215 سکشن میں آتے ہیں، میرے مؤکل نے پہلے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کیلئے درخواست دی تھی۔
جسٹس اعجازانورنے کہا کہ وہ بات تو ختم ہوگئی نا، جب الیکشن کمیشن نے 20 دن کا وقت دیدیا۔
وکیل نویداخترنے کہا کہ میں نے اس پر بات کرنی ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کیسے ہوئے، جسٹس اعجازانورنے کہا کہ نہیں آپ اس پر بات نہیں کرسکتے ہیں، ہم نے ان کو بھی اس پر نہیں سنا، الیکشن کیسے ہوا یہ شواہد پر پھر بات جائیگی۔
وکیل نوید اخترنے دلائل دیے کہ میرے مؤکل کی بات اہم ہے، جب آنکھ کھلی تو تب سے اس پارٹی میں ہے، عدالت نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ نظریاتی ہے۔ وکیل نے جواب دیا کہ متنازع انتخابات ہوئے، سب نے کہا قبول ہے قبول ہے، سب نے کہا کہ جو بانی چیئرمین کہیں گے وہی ہوگا۔
جسٹس اعجازانورنے کہا کہ یہاں تو سب جماعتیں ایک ہی کے لوگ چلاتے آرہے ہیں، صرف یہی اور ایک اور پارٹی ہے جو ورکر کو آگے آنے دے رہی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر ایک بار پھر دلائل کے لیے روسٹرم پرآئے اورکہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہو یا پشاور ہائیکورٹ، کہیں بھی چینلج ہوسکتا ہے۔ انتخابات یہاں ہوئے اور سیکریٹری جنرل عمرایوب کا تعلق بھی اس صوبے سے ہے۔ اس صوبے میں 2 بار اس پارٹی نے حکومت بھی کی ہے۔ پورے ملک کی مخصوص سیٹیں اس سے متاثر ہونگی۔ یہ کہنا کہ آفس اسلام آباد میں ہے اس لیے کیس یہاں نہیں ہو سکتا غیرمناسب ہے۔
وکیل علی ظفر نے پشاورہائیکورٹ اختیارات کے متعلق مختلف فیصلے عدالت میں پڑھ کر سناتے ہوئے جواب الجواب مکمل کیا۔ اس پرعدالت نے ان سے استفسارکیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
جسٹس ارشدعلی نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے 215 سیکشن میں انٹرا پارٹی انتخابات کا ذکرنہیں، یہ کارروائی آپ نے کیسے کی؟
سکندرمہمند نے جواب دیا کہ 215 سکیشن تب لاگو ہوتا ہے جب اختیار ہو، تو الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے، اس لیے اس درخواست کو مسترد ہی ہونا ہے۔
پشاورہائی کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قراردینے اور انتخابی نشان واپسی کیخلاف کیس میں دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
