ایکس سابق (ٹوئٹر) کی بندش پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے سندھ ہائی کورٹ میں جواب جمع کروادیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپ ایکس کی بندش کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، دورانِ سماعت پی ٹی اے نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا جبکہ وزارت داخلہ اور وزارت ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے جواب کے لیے مہلت طلب کرلی۔
وکیل پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ، دیگراداروں کی جانب سے سیکیورٹی خدشات کی بناء پرانٹرنیٹ سروس بند کی تھی، 8 فروری کو تمام موبائل کمپنیوں کو سروس معطل کرنے کی ای میل بھیجی تھی۔
چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے استفسار کیا کہ آپ کتنے معصوم ہیں؟ معصوم ہیں یا مجبور؟ مجبوری ہے یا کچھ اور؟ اس کی وجوہات بتائیں، ایک طرف کہتے ہیں کچھ بند نہیں کیا دوسری طرف سب بند پڑا ہے۔
انہوں نے دلائل کے دوران وکیل پی ٹی آے کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ اتنے جذباتی مت ہوں، ہمیں بھی اپنا ذہن استعمال کرنا آتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ مفاد عامہ کا مسئلہ خراب نہ ہو، ملک اس طرح کی بندش کرکے نہیں چلتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر پی ٹی اے نے سروس بحال کرنے کا کسی کمپنی کو کہا ہے اور سروس اب بھی معطل ہے تو ایسی کمپنی کو اٹھا کر باہر پھینکیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر پی ٹی اے نے انٹرنیٹ بند نہیں کیا تو اسی لیے تو پوچھا تھا کہ پھر ملک کے معاملات کون چلا رہا ہے، زمینی حقائق کو سمجھے بغیر ملک کے حالات کو ٹھیک نہیں کیا جاسکتا ہے، دنیا مہذب معاشرے سے چلتی ہے ایسے حالات پیدا کرنے سے دنیا آپکو قبول نہیں کرے گی۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم نے انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند کرنے کی وجوہات جاننے کا کہا تھا، آپ نے کہا 9 مئی کی وجہ سے انٹرنیٹ بند کیا تھا، کچھ سیاسی جماعتوں کو مہم اور جلسے نہیں کرنے دئیے گئے، آپ سب نے دیکھا، آج بھی انٹرنیٹ ٹھیک نہیں چل رہا، مختلف طریقوں سے کنٹرول کیا جا رہا ہے بچہ بچہ جانتاہے۔
دوران سماعت وکیل پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی اے کے پاس انٹرنیٹ بند کرنے یا سست کرنے کے کوئی آلات نہیں ہیں۔
وکیل پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ مطلب ہم صرف آرڈر کرتے ہیں انٹرنیٹ بند کرنے یا کھولنے کے آلات ہمارے پاس نہیں ہیں ، جس پر وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ 2009 کے قانون کے تحت پی ٹی اے نے تمام موبائل فون کمپنیوں کو سروس بند کرنے کا کہا، بدنیتی تب ہوتی جب یہ قانون سازی 2023 یا 2024 میں کی گئی ہوتی ۔
جسٹس مبین لاکھو نے ریمارس دیئے کہ اس قانون کے تحت تو مخصوص علاقے میں انٹرنیٹ کا موبائل سروس بند کی جاسکتی ہے، پورے ملک انٹرنیٹ سروس بند کرنے پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ کے فضل سے 8 فروری کو کوئی نقصان نہیں ہوا یہ الیکشن نکل گئے آگے کیا ہوگا یہ دیکھنا ہوگا جو لوگ ملک چلا رہے ہیں یا پارلیمنٹرین ہیں وہ موبائل فون ہی بند کردیں گے ؟2009 کی پالیسی کیا تھا جب الیکشن آئیں گے ہم انٹرنیٹ دوبار بند کردیں گے، بچہ بچہ سب جانتا ہے آپ ہمیں وہ بتائیں جو کوئی نا جانتا ہو، جہاں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہو قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن کررہے ہوں وہاں سروس بند کی جاسکتی ہے۔
وکیل پی ٹی اے نے کہا کہ 9 فروری کے بعد کسی کمپنی کو انٹرنیٹ یا موبائل فون سروس بند کرنے کا نہیں کہا ، جس پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ایکس تو آج بھی بند ہے اگر کوئی کمپنی پی ٹی اے کی ہدایت پر عمل نہیں کرتی تو اس کے خلاف کیا کارروائی کی ہے ؟
وکیل درخواست گزار عبدالمعیز جعفری کا کہنا تھا کہ آج یہ کہے دیں کہ سارے دہشت گرد ایکس پر جمع ہیں تو کیا ایکس کو بند کر دیا جائے گا، 2009 میں تو ایکس سروس پاکستان میں تھی ہی نہیں۔
جبران ناصر نے کہا کہ اگر پی ٹی اے تسلیم کررہا ہے کہ ایکس ان کی ہدایت پر بند نہیں کیا تو کون ہے، جس نے بند کیا ہوا ہے یہ تو نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ ہے پھر ، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کیا ایکس کسی کے کہنے پر یا دباوٴ پر کسی ملک میں اپنی سروس معطل کرسکتا ہے۔
جسٹس مبین لاکھو کا کہنا تھا کہ کیا ایکس نے اپنے کسی آفیشل بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں ہم اپنی سروس بند کررہے ہیں جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 9 مئی کی بات تو سمجھ آتی ہے 8 فروری کے بعد بھی سروس بند ہے یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے، بظاہر لگ رہا ہے کہ سوشل میڈیا مینج کیا جارہا ہے لیکن کون کررہا ہے یہ بھی سامنے آجائے گا۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ جو صحافی نیشنل ٹی وی پر کچھ وجوہات کی بناء پر نہیں کہے پاتے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں لوگ ان صحافیوں کو سنتے ہیں اور یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ الیکشن کے دن انٹرنیٹ بندش پر آئندہ سماعت پر وزارت داخلہ جواب جمع کرائیں، اس کے علاوہ ایکس کی بندش پر بھی جواب طلب کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی بحالی سے متعلق جاری حکم امتناع میں توسیع کردی گئی۔




















