
مخصوص نشستوں کے کیس میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کا اختلافی نوٹ جاری
مخصوص نشستوں کے کیس میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسی نے اختلافی نوٹ جاری کردیا۔
اختلافی نوٹ میں چیف جسٹس پاکستان نے لکھا کہ اکثریتی فیصلے میں آئین اور قانون کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرنا میرا فرض ہے، توقع ہے اکثریتی ججز اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ نظرثانی درخواست جسٹس منصوراورجسٹس منیب نے کمیٹی میں مقررنہیں ہونے دی، فیصلے کی وضاحت کیلئے رجوع کرنے کے حکم کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ وضاحت کے معاملے پر آٹھ ججز نے خود کو باقی بنچ ممبران سے الگ کرلیا۔ اکثریتی فیصلے میں آٹھ ججز پر مشتمل الگ عدالت قائم کر دی گئی، اکثریتی ججز نے فیصلے میں وہ سب کچھ لکھا جو آئین میں موجود ہی نہیں، وضاحت کیلئے رجوع کرنے کی اجازت دینے کا مطلب ہے کہ مقدمہ نمٹایا ہی نہیں گیا۔
چیف جسٹس نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ فیصلے پراسی صورت عمل ممکن ہے جب مقدمہ حتمی طور پر پہنچ چکا ہو، کیونکہ مخصوص نشستوں کا کیس حتمی ہوا ہی نہیں اس لئے فیصلے پرعملدرآمد بھی ممکن نہیں، جو فیصلہ حتمی نہیں اس پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی نہیں ہوسکتی۔
اختلافی نوٹ میں انھوں نے کہا کہ رجسٹرارکے جانے کے بعد ہفتے کے روز ججز نے فیصلہ نما وضاحتی نوٹ جاری کیا، وضاحتی نوٹ جاری کرنے میں سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کو بھی بائی پاس کیا گیا، فیصلہ نما وضاحتی نوٹ جاری کرتے ہوئے کسی فریق کو شنوائی کا موقع نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وضاحتی نوٹ جاری ہوا تو اکثریتی ججز میں سے بیشتر اسلام آباد میں موجود ہی نہیں تھے، دوسری وضاحت کیلئے بھی ججز کا اجلاس کہاں ہوا یہ بھی ایک معمع ہے، اپنے 46 سالہ کیریئر میں کبھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا، وضاحتی نوٹس کو کسی صورت بھی عدالتی قرارنہیں دیا جاسکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ
جسٹس جمال خان مندوخیل نے17 صفحات پرمشتمل اختلافی نوٹ لکھا، مجھے اکثریتی فیصلے اتفاق نہیں اس لیے اپنا اختلافی نوٹ لکھا۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں کہ ممبران اسمبلی 15 روز میں تحریک انصاف میں شامل ہوں، شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ جو بھی الیکشن لڑ رہا ہو اسے الیکش سے قبل اپنی متعلقہ پارٹی کا ٹکٹ آر او کو جمع کرانا ہوتا ہے۔ جو پارٹی کا ٹکٹ یا ڈیکلریشن جمع نہیں کراتا وہ آزاد تصورہوتا ہے۔ الیکشن کمشن میں آراو کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔
اختلافی نوٹ میں انھوں نے لکھا کہ آراو الیکشن سے قبل تمام امیدوارں کے نام پارٹی کے انتخابی نشان کے ساتھ آویزاں کرتا ہے۔ انتخابی رزلٹ بھی آر او کی جانب سے جاری ہونے کے بعد الیکشن کمشن اسے حتمی کرتا ہے۔ آئین میں خواتین اوراقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو جاری کرنے کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News