انڈین ٹیم میں کپتانی کی بڑھتی ہوئی کشمکش، اصل وجہ کیا ہے؟
انڈیا کی کرکٹ ٹیم گزشتہ کئی ماہ سے جس قسم کی کارکردگی دکھارہی ہے اس نے پورے انڈیا میں کرکٹ شائقین کو مایوس کردیا ہے۔ ٹی ٹوینٹی ورلڈکپ جیتنے کے بعد سے ٹیم نے صرف شکستوں کے انبار دیکھے ہیں۔
بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم سے تو بھارتی ٹیم جیت گئی لیکن نیوزی لینڈ سے ہوم سیریز اور آسٹریلیا سے رواں سیریز میں مسلسل شکستوں نے مداحوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا ہے۔ وہ ٹیم جس کی بیٹنگ مثالی ہوتی تھی اور حریف ٹیم کے بولرز پناہ مانگتے تھے آج رنزکے لیے ترس گئی ہے۔
ملبورن ٹیسٹ میں چند گھنٹوں میں بیٹنگ کی پسپائی نے ریکارڈ بک کے ہیروز پر سوال اٹھادئیے ہیں۔ ایک ایسی بیٹنگ جس کے مہان کلاکار درجنوں ریکارڈز کے مالک ہیں اور پیسہ ان پر گھن کی طرح برس رہا ہے۔ اس کا آسٹریلیا میں یکسر ناکام ہوجانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
دوسری جانب بھارتی ٹیم کی مسلسل ناکامیوں پر ہیڈکوچ گوتم گمبھیر بھی برس پڑے۔ ہیڈ کوچ گوتم گمبھیر کی گزشتہ دنوں ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں سے بات چیت کو ایک انڈین اخبار نے بنیاد بناتے ہوئے لکھا ہے کہ گوتم بھی اپنے غصہ کو نہیں روک سکے اور کھلاڑیوں کو وارننگ دے دی کہ اب ہوش میں آجائیں اپنی مرضی سے کھیلنا چھوڑ دیں ٹیم کے لیے صورتحال کے مطابق کھیلیں ورنہ گھر جائیں۔
گھمبیر جن پر اس وقت سخت دباؤ ہے کیونکہ ان کی کوچنگ میں یہ دوسری سیریز ہے جو انڈیا ہارنے کے قریب ہے۔ سڈنی میں جمعہ سے شروع ہونے والا پنک ٹیسٹ انڈیاکے لیے آخری موقع ہوگا اگر وہ اس کو جیت کر سیریز برابر کردے ورنہ ایک اور شکست تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔
گھمبیر رشبھ پنٹ اور ویراٹ کوہلی پر بہت غصہ میں ہیں جو غیر ذمہ دارانہ شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے تھے۔ رشبھ کو تو سنیل گواسکر نے احمق احمق کہا تھا۔ جنہوں نے اچھی خاصی بیٹنگ کرتے ہوئے ایک فضول شاٹ ہوا میں کھیل کر وکٹ گنوادی تھی اسی طرح ویرات کوہلی آٹھویں اسٹمپ پر جاتی ہوئی گیند کا تعاقب کرتے ہوئے آؤٹ ہوگئے تھے۔ گھمبیر نے ایسے شاٹس کو حماقت نہیں بلکہ ٹیم سے دشمنی کہا تھا۔
کیا جھگڑاکپتانی پر ہے؟
انڈین میڈیا اس وقت بھارتی ٹیم کی کارکردگی پر سخت تنقید کررہا ہے۔ اس نے ٹیم کی زبوں حالی کی وجہ ٹیم میں پاور پالیٹکس اور کپتانی کی دوڑ کو قرار دیا ہے کیونکہ کچھ سینیئر بلے باز اپنے پاور کو ختم نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں جبکہ کچھ کپتانی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
ویراٹ کوہلی کے انداز اور رویہ پر انڈین میڈیا کے ساتھ آسٹریلین بھی بہت تنقید کررہا ہے۔ آف دی فیلڈ ان کی ایک صحافی سے جھڑپ نے انھیں کریزی کوہلی کا خطاب دے دیا ہے۔ جو فیلڈ میں کندھے مارتا ہے اور فیلڈ سے باہر صحافیوں سے بدتمیزی کرتا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ کوہلی اپنی کپتانی چھن جانے کے بعد سے تلخ اور ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔ وہ بنا کسی وجہ کے کبھی فینز اور کبھی صحافیوں سے الجھتے ہیں تو کبھی امپائرز اور کھلاڑیوں کے ساتھ تلخ کلامی کرتے ہیں۔
کوہلی اپنی قیادت کے زمانے میں اس قدر طاقتور تھے کہ کوچز تبدیل کرادیتے تھے انیل کمبلے کو فارغ کرکے روی شاستری کو بنوانے کا مقصد اپنی طاقت دکھانا تھا۔
کپتان روہیت شرما بھی ٹیم پر بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ اب ان کے بیٹ سے رنز بن نہیں رہے اور کپتانی میں جیت نہیں مل رہی۔ ٹیم میں کپتانی کو لیکر سب سے زیادہ تلخیاں ہیں ایک طرف ویراٹ کوہلی اندرون پردہ رویندر جدیجاکے لیے تحریک چلارہے ہیں جبکہ دوسری طرف رشبھ پنٹ کو کچھ کھلاڑیوں کی حمایت حاصل ہے۔ جدیجا اس لحاظ سے طاقتور ہیں کہ ان کی اہلیہ حکمران پارٹی کی طرف سے رکن گجرات اسمبلی ہیں اور وزیر اعظم مودی کے قریب ہیں لیکن ان کی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ وہ ہر میچ میں کھیل سکیں۔
کتنے کپتانی کے خواہشمند ہیں اس بات سے قطع نظر انڈین ٹیم کا ایک مسئلہ حد سے زیادہ خود اعتمادی اور لاپرواہی ہے۔
انڈین ٹیم کے لیے یہ سیریز جس قدر اہم تھی اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ آسٹریلیانے اس سیریز کی تیاری کے لیے پاکستان کے خلاف اپنی ون ڈے کی ٹیم کو آرام دیا تھا اور شکست قبول کرلی تھی۔ انڈین کوچ گوتم گمبھیر نے سیریز سے قبل اسے بہت اہم سیریز قرار دیا تھا۔ لیکن اب ان کے لیے رسوائی کا سامان بن گئی ہے۔
کپتانی کی کشمکش، پاور پالیٹکس اور غیر ذمہ دارانہ رویے نے انڈین ٹیم کو ایک نچلے درجہ کی ٹیم بنادیا ہے۔ اور یہ سب اس وقت ہورہا ہے جب چیمپئینز ٹرافی سر پر ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
