
نئی دہلی: بھارت میں فوجی قیادت کے بڑھتے ہوئے مذہبی رجحانات اور ہندوتوا نظریات سے جُڑاؤ نے خطے کے امن و استحکام پر نئے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف کی ہندو روحانی پیشوا جگدگرو رام بھدرآچاریہ سے ملاقات نے نہ صرف بھارتی فوج کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ ملک کے نام نہاد سیکولر تشخص کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔
اس ملاقات میں روحانی پیشوا نے آزاد کشمیر پر قبضے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اسے ’’گرو دکشِنا‘‘ (استاد کو نذرانہ) کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے۔
ماہرین اس بیان کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور بھارت کی نظریاتی شدت پسندی کا منہ بولتا ثبوت قرار دے رہے ہیں۔
آشرم جیسی مذہبی عبادت گاہ میں جارحانہ عزائم کی باتیں کرنا بھارتی معاشرے میں شدت پسند بیانیے کے فروغ کا اشارہ ہے۔
اقلیتوں کے حلقوں میں اس ملاقات کو لے کر شدید تشویش پائی جاتی ہے جو بھارت میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور عسکری اداروں کے مذہبی استعمال کو خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
بھارتی فوجی افسران مذہبی آڑ میں جارحیت کو ہوا دے رہے ہیں جب کہ مودی حکومت روحانی حوالوں سے جنگی عزائم کا جواز تراشنے میں مصروف ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ طرز عمل جنوبی ایشیا میں امن کی کوششوں کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ فوج اور مذہب کے اس امتزاج کو بھارتی سیکولرازم کی روح کے منافی اور خطے میں کشیدگی کو بڑھانے والا اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے علاقوں پر قبضے کے خواب کو اب مذہبی نعروں میں لپیٹ کر پیش کرنا نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ خطے میں استحکام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی بن رہا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News