
جنوبی کوریا کی حکومت جمعرات کو ملک میں کتے کے گوشت پر پابندی کے متعلق باقاعدہ بحث کی شروعات کرے گی۔
حکومت کی جانب سے فیصلہ صدر مون جائے-اِن کی ستمبر میں وزیر اعظم کِم بو-کیوم سے ملاقات میں متنازعہ عمل دی جانے والی نظر ثانی کی تجویز کے بعد آیا۔
دوسری جانب جانوروں کےحقوق کے کارکنان کافی عرصے سے اس روایت کو بین الاقوامی شرمندگی قرار دے رہے ہیں جبکہ روایت پسندوں اس کو کورین روایت قرار دے کر پابندی کی مخالفت کی ہے۔
اس اقدام سے آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات کےلیے تیزی ملی ہے۔ گیونگی صوبے کے گورنر لی جائے-میونگ، جو مون کی پارٹی کے صدارتی امیدوار ہیں، نے سماجی اتفاق سے پابندی لگانے کا کہنا ہے۔
2020 میں نیلسن کی جانب سےہونےوالے ایک پول کے مطابق 84 فیصد جنوبی کوریا کے عوام نے کبھی کتے کا گوشت استعمال نہیں کیا اور نہ ہی مستقبل میں استعمال کرنے کا کوئی ارادہ تھا۔
سروے میں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ 59 فیصد عوام کتےکے گوشت پر پابندی کے حق میں تھے۔
لیکن یونہاپ ایجنسی کے مطابق ریئل میٹر کی جانب سے ہونے والے ایک اور پول میں اس معاملے پر لوگوں میں شدید تقسیم تھی۔38.6 فیصد پابندی کے حق میں جبکہ 48.9 افراد مخالفت میں تھے۔
ہیومین سوسائیٹی کی ایک کمپینر نارا کِم کا کہنا تھا ’زیادہ تر جنوبی کورین لوگ کتے کا گوشت نہیں کھاتے، بالخصوص نوجوان۔ یہ روز مرہ کے کھانے کا حصہ نہیں ہے بلکہ اکثر لوگ کتے کا گوشت کھانے کا خیال ہی ناگوار گزرتا ہے۔‘
ہومین سوسائیٹی سیول میں قائم ایک این جی او ہے جس نے 2015 سے کتے کے گوشت کے فارم سے ڈھائی ہزار سے زائد کتے بچائے ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News