 
                                                                              سائنس دانوں نے وہ مکینیزم دریافت کرلیا ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے زمین کوبالٹ، تانبہ اور پلیٹینم کو زمین کے اوپری سطح کی کھوکھلی جگہوں میں دھکیلتی ہے۔
یہ دھاتیں توانائی کی قابلِ تجدید ٹیکنالوجیز بنانے کے لیے اہم بن چکی ہیں جن میں بیٹری اسٹوریج، سولر پینلز اور فیول سیلز شامل ہیں۔
یہ ’ارضیاتی گولڈی لاک زون‘ کارڈف یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم نے زمین کی اوپری پرت کی تہہ میں دریافت کیا جہاں پر درجہ حرارت تقریباً 1000 ڈگری سیلسیس تک ہوتا ہے۔
یہ صورت حال دھاتوں کے مینٹل سے سطح کے کھوکھلے حصوں میں آنے کے لیے مثالی ہوتی ہے، جہاں ان کی کان کنی کرنا آسان اور سستا ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ وہ ان مخصوص علاقوں کا دائرہ نہیں کھینچ سکتے جہاں پر ممکنہ طور پر یہ دھاتیں سطح کے قریب ہوں۔
لیکن امید کرتے ہیں کہ عمل کا علم ہونا کان کن کمپنیوں کے لیے تلاش کے عمل کو آسان کر دے گا۔
ان دھاتوں میں تانبہ، کوبالٹ، ٹیلوریم اور پلیٹِنیم شامل ہیں جن کی بہت زیادہ مانگ ہے کیوں کہ ان دھاتوں کو بجلی کی وائرنگ ٹیکنالوجیز میں استعمال کیا جاستا ہے۔
یہ دھاتیں بنیادی طور پر زمین کے مینٹل، 15 میل سے زیادہ کی گہرائی، میں ذخیرہ ہوتی ہیں۔
مینٹل چٹانوں کی ایک موٹی تہہ ہے جو مرکز اور اوپری سطح کے بیچ میں ہوتی ہے۔
اتنی گہرائی میں موجود ان دھاتوں تک پہنچنا کھدائی کے اوزاروں کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ لیکن زمین میں کچھ مخصوص موقعوں پر قدرت ان دھاتوں کو اوپر سطح پر لا سکتی ہے۔
ٹیم نے بتایا کہ ایسا مائع چٹان کے بہنے سے ہوتا ہے جس کو ’میگما‘ کہا جاتا ہے۔ جو مینٹل سے جاری ہونا شروع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ اوپری سطح تک پینچتا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

 
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                 