جاپانی سائنس دانوں نے پُر اسرار جل پری کی ممی کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے جس کی کافی عرصے سے اوکے یاما پریفیکچرمیں عبادت کی جارہی تھی۔
کُوراشِکی یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ دی آرٹس کی محققین کی ٹیم اس پُر اسرار شے کی ممی بنی باقیات کا سائنسی تجزیہ کر رہے ہیں تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ وہ دراصل کس چیز کی بنی ہے۔
اس ’جل پری کی ممی‘، جس کی لمبائی ایک فٹ کی ہے، نے یہ نام اپنا اوپری جسم انسان کی طرح جبکہ جسم کا نچلا حصہ مچھلی کی دم کی طرح ہے۔
300 سال پُرانی یہ ممی،جس کے ناخن، دانت اور بال اتنے طویل عرصے بعد بھی موجود ہیں، کے چہرے پر وہ تاثرات تک موجود جس طرح بچہ چیختا ہے۔
آساکُوچی کے شہر میں قائم اینجوئین عبادت گاہ کے سربراہ پیشوا کوزین کوئیڈا نے اس شے کو ایک لکڑی کے بکس سے نکالا۔
گزشتہ ماہ فروری کی دو تاریخ کو اسے اسکول کے اندر موجود جانوروں کے اسپتال میں ایک جائزے کے لیے رکھا گیا تھا۔
آشی شِمبون نامی اخبار کے مطابق سربراہ پیشوا کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس امید پر اس کی عبادت کی کہ یہ کورونا وائرس کی عالمی وباء کو ختم کرنے میں مدد دے گی۔
کوئیڈا کے مطابق اس ممی کو عوام کے لیے تقریباً 40 سال قبل رکھا گیا تھا، لیکن حال ہی میں اس کو آگ سے محفوظ جگہ پر رکھا گیا ہے تاکہ اس کو نقصان نہ پہنچ سکے۔
اوکایاما فوکلور سوسائیٹی کےہِروشی کِنوشیتا کا کہنا تھا کہ اس ممی کی کوئی مذہبی اہمیت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا جاپانی جل پریوں کے متعلق لافانیت کے قصے مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ جل پری کا گوشت کھا لیں تو آپ کبھی نہیں مریں گے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
