
آسمانی بجلی کے ایک معمے کے حوالے سے سائنسدانوں کا اہم بیان سامنے آ گیا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ بجلی کیسے بنتی اور چمکتی ہے۔ بادلوں کی ٹھوس پرت پر برف اور پانی کے ذرات موجود ہوتے ہیں جب وہ ذرات آپس میں ملتے ہیں یا رگڑ کا باعث بنتے ہیں تو ان میں الیکٹرون کا چارج پیدا ہوتا ہے۔
کچھ پارٹیکل (+) مثبت یا پوزیٹو اور کچھ (-) منفی یا نیگیٹیو چارج میں بدل جاتے ہیں۔ جبکہ زمین بھی Positively چارج ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں۔
اس طرح negatively چارج الیکٹرون آسمان سے زمین کی طرف جیسے ہی بڑھتے ہیں تو ایک روشنی نمودار ہوتی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف ہوا کو چیرتے ہوئے پہنچتی ہے اور اسکے ارد گرد پیدا ہونے والی گرمی کی وجہ سے کڑک دار آواز بنتی ہے جو بجلی کی روشنی کے ساتھ گرج چمک کہلاتی ہے۔
دنیا میں کتنے بجلی کے وار زمین پر ہوتے ہیں؟
ایک اندازے کے مطابق گرج چمک کے طوفان کہ دوران ہر سیکنڈ تقریباً 100 سے زائد بجلی کے جھٹکے آسمان سے زمین کی طرف گرتے ہیں، جبکہ روزانہ کی بنیاد پر 8 ملین اور بجلی گرنے کی یہ تعداد سالانہ 3 ارب تک پہنچ جاتی ہے۔
آسمانی بجلی اکثر زمین سے بھی ٹکراتی ہے مگر کبھی کبھار یہ عمل الٹا بھی ہوتا ہے، کی ہاں آسمانی بجلی کی لہر زمین کی جانب آنے کی بجائے اوپر خلا کی جانب لپکتی ہے اور سائنسدانوں کے لیے یہ کسی معمے سے کم نہیں۔
اسے gigantic جیٹ کہا جاتا ہے جو آسمانی بجلی کی ایسی غیر معمولی لہر ہوتی ہے جو بادلوں سے اوپر خلا کے قریب تک جاتی ہے۔
اب پہلی بار اس حوالے سے سائنسدانوں نے نئی تفصیلات جاری کی ہیں۔
جرنل سائنس ایڈوانسز میں شائع تحقیق میں 2018 میں اوکلاہاما میں gigantic جیٹ کے واقعے کا تجزیہ کیا گیا۔
آسمانی بجلی کی یہ لہر بادلوں سے 50 میل اوپر تک گئی تھی۔
جارجیا ٹیک ریسرچ انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں gigantic جیٹ کی ساخت اور وجہ پر روشنی ڈالی گئی اور اس کا تھری ڈی نقشہ تیار کیا گیا۔
محققین کے مطابق ہم بادل کے اوپر بہت زیادہ ہائی فریکوئنسی (وی ایچ ایف) ذرائع کو دیکھنے میں کامیاب رہے، سیٹلائیٹ اور راڈار ڈیٹا کو استعمال کر کے ہم نے یہ جانا کہ بجلی کی یہ لہر کہاں سے نکلی تھی۔
اس لہر کی تصویر ایک امریکی فوٹوگرافر کیون پیلوک نے کھینچی تھی اور اس کو دیکھ کر سائنسدانوں نے تحقیق کا فیصلہ کیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ نیگیٹو الیکٹریکل چارج بادلوں میں جمع ہونے پر بجلی کی لہر آسمان کا رخ کرتی ہے۔
محققین کے مطابق اب بھی اس بارے میں کافی کچھ جاننا باقی ہے اور ہم اپنے تحقیقی کام کو مزید آگے بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News