چاند تک پہنچنا، نسل انسانی کا اب تک کا سب سے عظیم کارنامہ مانا جاتا ہے،پہلی دفعہ انسان نے اپنے سیارے کے علاوہ کسی اور سرزمین کو چھوا ہے۔
دنیا کا پہلا انسان، جس نے پہلی دفعہ ماورائے زمین کسی اور جگہ پر اپنے قدم رکھنے کا کارنامہ سرانجام دیا، امریکی آسٹروناٹ نیل آرمسٹرونگ نے بجا طور پر درست کہا تھا کہ “چاند پر رکھنے جانے والا یہ پہلا معمولی قدم، انسانیت کی ایک لمبی چھلانگ ہے”۔
لیکن سائنسی ترقی کے اس دور میں بھی بعض ناسمجھ و نادان افراد ، انسانیت کے اس عظیم کارنامے کو جھٹلانے کی سعی لاحاصل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوتے ہیں، ان کو اپنے بعض مفروضے اور سازشی تھیوریز کی بناپر چاند پر انسانی لینڈنگ ایک فیک یا فراڈ ہی لگتی ہے، جس کو وہ امریکی سازش قرار دیتے ہیں۔
اب ان کے اس بیان پر ہنسا ہی جاسکتا ہے کیونکہ ایسے بہت سے دلائل موجود ہیں، جس سے انکے اس بے کار کلیم کو رد کیا جاسکتا ہے کہ انسان چاند پر نہیں گیا۔
ان ہی دلائل میں سے ایک دلیل اتنی صاف موجود ہے جو واضح طور پر چاند پر انسانی موجودگی کے بارے میں بتاتی ہے، چاند پر انسان نے ایسے آئینے نصب کیے ہیں جس سے مختلف تجربات کرنے میں سائنسدانوں کو مدد ملتی ہے”۔
ان آئینوں کی چاند پر موجودگی ہی دراصل وہ ناقابل تردید ثبوت ہے کہ باقاعدہ انسان چاند تک پہنچا، اسکی سطح پر اترا اور انکو اپنے ہاتھوں سے وہاں نصب کیے۔
کیونکہ اس طرح کیے بغیر انکو وہاں صرف کسی خلائی جہاز سے پھینک کر لگانا اور اسکو صحیح سے ایڈجسٹ کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے اور نہ ہی 1969 کی ٹیکنالوجی اس قابل تھی کہ یہ مرحلہ باآسانی طے کرسکتے تھے۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر انسان چاند تک نہیں پہنچا، تو کیسے اور کب یہ پانچ آئینے، چاند کی سطح پر پہنچے اور کس نے انکو وہاں نصب کیے؟ کیا وہ کوئی جن بھوت یا پھر کوئی ایلین تھا، جس نے یہ آئینے نصب کیے؟ ایک سازشی تھیوری گھڑنے والے کے پاس اسکا کوئی جواب نہیں ہوتا۔

انسانی قدموں کے نشانات سے رنگا ہوا، چاند کی دھول میں بیٹھا ہوا،یہ ایک 2 فٹ چوڑا پینل ہے جس میں 100 آئینے زمین کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
یہ آئینے جن کوریفلیکٹرز کہا جاتا ہے، دراصل وہ آلات ہیں جو روشنی کو اپنے منبع پر واپس منعکس کرتے ہیں، مطلب جہاں سے روشنی خارج ہو، اسی سمت میں واپس منعکس کرتے ہیں، ایسے کل پانچ آئینے جن میں اپالو پروگرام کے عملے کے ذریعے تین اور پروگرام(رشین چاند کا خلائی پروگرام) کے ذریعے دو کو ریموٹ لینڈرز کے ذریعے چاند کے مختلف پانچ مقامات پر نصب کیا گیا تھا ۔

قمری ریفلیکٹرز نے 1969 سے قمری لیزر رینج کا استعمال کرتے ہوئے زمین اور چاند کے مابین فاصلے کی درست پیمائش کو قابل بنایا ہے۔
سائنس دان اپالو مشن کے دور سے چاند پر نصب ان ریفلیکٹر ز کااستعمال کر رہے ہیں تاکہ ہمارے قریبی پڑوسی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکیں۔
یہ کافی سیدھا سادھا تجربہ ہے،ایک ریفلیکٹر پر روشنی کی بیم پھینکیں اور روشنی کے اس سے ٹکرا کر واپس آنے میں جتنا وقت لگتا ہے اسکی پیمائش کریں اس پیمائش نے ہمیں دہائیوں قبل بڑی دریافتیں اور معلومات حاصل کرنے میں بہت مدد کی۔
ان آئینوں کی بدولت حاصل ہونے والے سب سے بڑے اور کچھ اہم انکشافات میں سے ایک یہ ہے کہ زمین اور چاند آہستہ آہستہ اس رفتار سے دور اور الگ ہو رہے ہیں جس شرح سے ہمارے ناخن بڑھتے ہیں، مطلب کچھ 1.5 انچ (3.8 سینٹی میٹر) سالانہ کی شرح سے دور ہورہے ہیں۔

یہ وسیع ہوتا ہوا فرق زمین اور چاند کے درمیان کشش ثقل کے تعامل کا نتیجہ ہے۔
چاند پر نصب اس طرح کے پانچ منعکس کرنے والے پینل یاآئینے ہیں دو کو بالترتیب 1969 اور 1971 میں اپالو 11 اور 14 عملے نے پہنچایا تھا۔
ان میں سے ہر ایک پینل تقریباً 100 چھوٹے آئینوں سے بنا ہوتا ہے، جنہیں سائنس دان “کارنر کیوبز” کہتے ہیں، کیونکہ وہ شیشے کے کیوب کے کونے ہوتے ہیں ان آئینے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ روشنی کو کسی بھی سمت سے منعکس کر سکتے ہیں۔
300 کارنر کیوبز کے ساتھ ایک اور پینل کو 1971 میں اپولو 15 خلابازوں نے گرا دیا تھا جو ایک مشینی ربوٹک روور کے ذریعے چاند پر نصب کیا گیا۔
سوویت روبوٹک روور جسے Lunokhod 1 اور 2 کہا جاتا ہے، جو 1970 اور 1973 میں اترے تھے، دو اضافی ریفلیکٹرز لے کر گئے تھے، جن میں سے ہر ایک میں 14 آئینے انسٹال تھے۔
اجتماعی طور پر، یہ ریفلیکٹرز اپالو دور کے آخری کام کرنے والے سائنسی تجربے پر مشتمل ہیں۔
کچھ ماہرین کو شبہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان ریفلیکٹرز پر دھول مٹی اور گرد و غبار جم سکتاہے، ممکنہ طور پر چاند کی سطح پر مائیکرو شہاب ثاقبوں کے ٹکرانے کے اثرات کے بعد نتیجے کے طور پر، دھول روشنی کو آئینے تک پہنچنے سے روک سکتی ہے اور آئینے کو بھی موصل بنا سکتی ہے اور ان کے زیادہ گرم ہونے اور کم کارگر ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
