Advertisement
Advertisement
Advertisement

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم بوڑھے کیوں ہو جاتے ہیں؟ وجہ جانیے

Now Reading:

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم بوڑھے کیوں ہو جاتے ہیں؟ وجہ جانیے

آپ نے کبھی سوچا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم بوڑھے کیوں ہوتے جاتے ہیں اور بڑھاپے کا ارتقا کے عمل سے کیا تعلق ہے؟ یہ سوال انسانی دماغ کے لیے ہزاروں برس سے معمہ بنا ہوا ہے جس کا کوئی واضح جواب آج تک نہیں مل سکا۔

ہزاروں سال کے اس غور و فکر کے باوجود اس سوال کو کوئی واضح جواب نہ ملنا اپنی جگہ افسوس ناک تو ہے تاہم انسانی ذہن اس حوالے سے اب تک کافی کچھ جان بھی چکا ہے۔

جسمانی نظام کا ٹوٹتے جانا:

جیسے جیسے ہم بوڑھے ہوتے جاتے ہیں، ہمارے جسم کے بہت سے نظاموں کی کارکردگی کم یا خراب ہوتی جاتی ہے، ہماری بینائی کمزور ہوتی جاتی ہے، جوڑ اپنی مضبوطی کھونے لگتے ہیں اور جلد پتلی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

ہم جتنے بوڑھے ہوتے جاتے ہیں اتنے ہی ہمارے بیمار پڑ جانے، ہڈیوں کے ٹوٹ جانے اور بالآخر مر جانے کا امکانات زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔

Advertisement

جرمنی کی فرائی بُرگ یونیورسٹی کے ارتقائی حیاتیات کے پروفیسر ٹوماس فلاٹ کہتے ہیں کہ یہ وہی تبدیلیاں اور بتدریج شکست و ریخت کا عمل ہیں جن کا زیادہ تر جانداروں کو اپنی زندگی میں سامنا رہتا ہے۔

سائنسی طور پر زیادہ بہتر جینز ان جینز کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کی تولیدی کامیابی کو بڑھا سکیں۔

کئی نسلوں کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہی جینز کسی بھی آبادی میں بہت عام ہو جاتے ہیں چاہے وہ آبادی انسانوں کی ہو یا دوسرے جانداروں کی۔

بڑھاپے کے ساتھ ساتھ قدرتی طریقہ انتخاب کا کمزور پڑتے جانا:

حیاتیاتی ارتقا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ارتقا کے عمل کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ ایک بار جب کوئی جاندار اپنی نسل کی افزائش کے عمل سے کامیابی سے گزرتا ہے تو اس کے بعد اس کا اپنے بچوں میں کسی بھی طرح کے جینز کی منتقلی کا عمل متاثر نہیں ہوتا، یہ منتقلی تولیدی عمل کی تکمیل کے ساتھ ہی مکمل ہو جاتی ہے۔

بڑھاپے میں کسی انسان یا جاندار کی حالت بہت اچھی ہے یا خراب، یہ بات اس جاندار کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے اہم نہیں ہوتی، اس لیے کہ وہ اپنی افزائش نسل کی اہلیت کھو چکا ہوتا ہے۔

Advertisement

ارتقا کوئی مرحلہ وار مکمل ہونے والا نہیں بلکہ کسی درخت سے مسلسل نئی شاخیں پھوٹتے رہنے جیسا مستقل عمل ہے جس دوران کئی حیاتیاتی انواع ناپید بھی ہو جاتی ہیں۔

ماضی میں انسانوں کو اور آج بھی قدرتی یا جنگلی ماحول میں زندہ رہنے والے بہت سے جانداروں کو ایک ہی طرح کے حالات کا سامنا رہا ہے۔

وہ اکثر بہت بوڑھے اس لیے نہیں ہوتے تھے کہ ان کا پُرخطر ماحول ہی بڑھاپے سے پہلے ان کی موت کی وجہ بن جاتا تھا۔

پروفیسر فلاٹ کے الفاظ میں اگر یہی حقیقت کھل کر بیان کی جائے تو وہ جاندار جو بہت بوڑھے ہو جاتے ہیں ارتقائی نقطہ نظر سے بے فائدہ ہو جاتے ہیں۔

جینیاتی تبدیلیاں یا میوٹیشنز:

ایک لمحے کے لیے تصور کیجیے کہ آپ کو موروثی طور پر محض اتفاقاﹰ کوئی ایسی جینیاتی تبدیلی بھی وراثت میں مل گئی جو آپ کے بوڑھا ہونے پر منفی انداز میں اثر انداز ہو سکتی ہو، ایسی صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ یہ میوٹیشن آپ کو تو متاثر نہ کرے لیکن وہ آپ کے جینومز میں موجود رہے گی اور آپ کی آئندہ نسلوں میں بھی منتقل ہو سکے گی۔

Advertisement

یہ عمل نسل در نسل اور ہمیشہ جاری رہتا ہے اور کئی ایسی جینیاتی تبدیلیاں ہمارے جینز میں جمع ہوتی رہتی ہیں جو بڑھاپے کو ہمارے لیے بہت تکلیف دہ بھی بنا سکتی ہیں، اس کی ایک بڑی مثال ہنٹنگٹن نامی وہ بیماری ہے جو طویل عرصے تک منفی جینیاتی تبدیلیاں جمع ہوتے رہنے کے نتیجے میں لاحق ہوتی ہے

اس مہلک بیماری کا آغاز اکثر صرف 35 برس کی عمر کے قریب ہو جاتا ہے۔

تو پھر جدید دور کی طبی نگہداشت، بہتر خوراک، حفظان صحت کی بہتر سہولیات اور زیادہ سازگار حالات زندگی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟

یہی کہ ہم اوسطاﹰ زیادہ طویل عرصے تک زندہ رہتے ہیں لیکن ہمیں بڑھاپے میں انہی جین میوٹیشنز کے منفی اثرات کا سامنا پھر بھی کرنا پڑتا ہے۔

کچھ جاندار دوسروں سے زیادہ طویل زندگی کیوں پاتے ہیں؟

اگر قدرت کے پورے نظام حیات کو دیکھا جائے تو بوڑھا ہونا ایک بہت ہی پیچیدہ اور کافی منفرد عمل بھی ہے لیکن کچھ جاندار بالکل بوڑھے ہوتے محسوس نہیں ہوتے۔

Advertisement

مثال کے طور پر ہائیڈرا کہلانے والے جاندار جن کا تعلق نسلی طور پر جیلی فش اور کورلز یا مونگے کی چٹانوں سے ہوتا ہے، بظاہر کبھی بوڑھے ہوتے ہی نہیں اور ایسے لگتے ہیں جیسے لافانی ہوں۔

آج تک پایا جانے والا دنیا کا قدیم ترین فقاریہ جانور گرین لینڈ شارک جس کی اوسطا عمر چار سو سال تک ہوتی ہے۔

درختوں کی بھی ایسی بہت سی اقسام ہیں جو بظاہر بوڑھی نہیں ہوتیں اور کچھ تو ہزاروں سال تک زندہ رہتی ہیں۔ خاص طور پر Methuselah نامی درخت تو تقریباﹰ پانچ ہزار سال تک زندہ رہتا ہے۔

اس کے برعکس گرین لینڈ شارک اگر 150 برس کی عمر میں اپنی جنسی بلوغت کو پہنچتی ہے تو وہ اوسطاﹰ 400 سال تک زندہ بھی رہتی ہے.

دوسری طرف بہت سے جاندار بڑے نازک اور مختصر عرصہ حیات کے مالک ہوتے ہیں، مثال کے طور پر انسانوں کو دوران نیند کاٹنے والا ایک عام مادہ مچھر عموماﹰ صرف 50 دن زندہ رہتا ہے۔

اس سوال کا ابھی تک کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا کہ جانداروں کے مجموعی اوسط عرصہ حیات میں اتنا زیادہ فرق کیوں پایا جاتا ہے لیکن ایک بات ہے کہ مختلف جانداروں کی جسمانی بلوغت، افزائش نسل کے عمل اور عرصہ حیات پر ان کا ماحول کبھی اگر منفی طور پر اثر انداز ہوتا ہے تو کبھی مثبت طور پر یہی عوامل ان کے جلد یا دیر سے بوڑھا ہونے کی وجہ بھی بنتے ہیں.

Advertisement

بوڑھا ہونے کے عمل سے متعلق حیاتیاتی علوم کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے پوسٹ ڈاکٹورل ریسرچر سیباستیان گروئنکے کہتے ہیں کہ ایسے جاندار جن کے عام حالات میں جلد مر جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، ان کا اوسطا عرصہ حیات بھی مختصر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی زندگی میں زیادہ عرصے تک زندہ رہنے کے بجائے توجہ کا مرکز افزائش نسل کا عمل ہوتا ہے۔

ایسے جانداروں کی نسلی بقا کے لیے یہ عمل بھی فطرت ہی کا طے کردہ ہوتا ہے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
سوشل میڈیا ٹرینڈز فالو کرنے والے کن ذہنی امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں؟
بیماری کی صورت میں چیونٹیاں بھی انسانوں کی طرح احتیاطی تدابیر اختیار کرتی ہیں، تحقیق
غلطی سے ملازم 87 ہزار امریکی ڈالر کا مالک بن گیا، واپس کرنے سے انکار
بھارتی بینک کی وائی فائی آئی ڈی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نام سے تبدیل، ہنگامہ برپا ہوگیا
سال 2026 میں کتنے سورج اور چاند گرہن ہوں گے؟ جانیے
پلاسٹک سے پاک حیرت انگیز فولڈ ایبل واٹر بوتل تیار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر