
کیا کوچز روز بدلنے سے ٹیم بھی بدل جائے گی؟
کرکٹ میں روایتی طور پر کوچز کی اہمیت بہت زیادہ ہے لیکن دو دہائی قبل تک کوچ انفرادی طور پر تو کوچنگ کرتے تھے لیکن قومی ٹیم کی کوچنگ ایک انوکھی بات ہوتی تھی۔ اگر کسی ٹیم کا کوئی کوچ ہوتا بھی تو اس کے اختیارات اور ٹیم میں تبدیلی کے حقوق بہت کم ہوتے تھے۔ ان کی ذمہ داری زیادہ تر نیٹ پریکٹس تک ہوتی اور کپتان کو مشورہ دیتے تھے لیکن میچ کے دوران ان کی حیثیت تولیے سنبھالنے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
لیکن جب 90 کی دہائی میں ماڈرن کرکٹ نے جنم لیا اور میچز کی تعداد بڑھنے لگی تو کوچ کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔
پاکستان کرکٹ میں کوچز کا کردار 90 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب عمران خان کا دور ختم ہوا۔ عمران خان جب تک کپتان رہے مطلق العنان رہے۔ ٹیم سلیکن سے پلیئنگ الیون تک وہ تن تنہا فیصلے کرتے تھے۔ اپنے گیارہ سالہ دور میں انھوں نے مینیجر کا کردار بھی کم کردیا اور اسے پاسپورٹ بیگ سنبھالنے تک محدود کردیا۔
لیکن ان کے بعد جب پاکستان ٹیم میوزیکل چیئر بن گئی اور کپتانی کی جنگ شروع ہوئی تو کوچز کا کردار بھی شروع ہوگیا۔
اس دور میں مشتاق محمد، وسیم راجہ۔ ہارون رشید، جاوید میاں داد، انتخاب عالم، مدثر نذر، مشتاق احمد اور ثقلین مشتاق کوچز مقرر ہوئے۔ ان سب کے ادوار جس اہتمام سے شروع ہوتے تھے اتنی ہی بے بسی اور لاچارگی سے ختم ہوجاتے تھے۔ گروپنگ ہونے کے باعث اپنے پسندیدہ کوچز بنوائے جاتے۔ اس دور میں وسیم اکرم اور وقار یونس گروپس نے پاکستان کرکٹ کو سخت نقصان پہنچایا۔ فکسنگ کے الزامات سے لے کر منشیات کے استعمال کے الزامات نے ٹیم کو برباد کردیا جب کہ ایسے میں کوچز بھی تماشا بن گئے۔
اختلافات اس قدر بڑھ گئے کہ مشتاق محمد نے بحیثیت کوچ اپنے ہی کپتان رمیز راجہ کی ٹیم میں جگہ پر تنقید کی اور وسیم راجہ مرحوم نے چند ہفتوں کے بعد ہی کوچنگ چھوڑ دی۔
اس زمانے میں ماجد خان جیسے سخت گیر منتظم بھی ہار مان گئے اور عمران خان نے کوچز کی تقرری کو مذاق قرار دے دیا تھا۔ بورڈ کی کھلاڑیوں پر گرفت اس قدر کمزور تھی کہ کھلاڑی چیئرمین بورڈ نسیم شاہ پر کھلے عام تنقید کرتے تھے کیونکہ نسیم شاہ بھی بیک ڈور سے چیئرمین بنے تھے۔
پاکستان کرکٹ میں جاوید میاں داد پہلے کوچ تھے جن کے زمانے میں پاکستان نے انڈیا کو انڈیا میں ہرایا لیکن ان کی مبینہ بدزبانی نے ان کا دور ہمیشہ وقت سے پہلے ختم کیا۔
پاکستان کرکٹ میں اس صدی کے آغاز میں غیر ملکی کوچ کا تجربہ کیا گیا۔ جنوبی افریقہ کے رچرڈ پائبس کو پہلی دفعہ کوچ مقرر کیا گیا۔ وہ وسیم اکرم کے دوست تھے اور انہی کے مشورے پر اس وقت کے چئیئرمین سیف الرحمن نے مقرر کیا تھا۔ پائبس ایک پروفیشنل کوچ تھے لیکن بہت کمزور۔ پاکستان جب 2001 میں انگلینڈ کے دورے پر تھا تو کپتان وقار یونس ان کے کسی مشورے کو نہیں مانتے تھے۔ ان حالات سے دل برداشتہ ہوکر وہ 2003 کے ورلڈکپ کے بعد کوچنگ چھوڑ گئے۔
پاکستان کرکٹ میں دوسرے غیر ملکی کوچ باب وولمر تھے۔ باب وولمر نے بہت عرصہ برصغیر میں گزارا تھا اس لیے ذہنیت سمجھتے تھے۔ انھوں نے ٹیم کے ارکان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کیے اور ایک خوشگوار فضا پیدا کی وہ خوش قسمت تھے کہ دو انا پرست کھلاڑی ریٹائر ہوچکے تھے۔ ان کے دور میں پاکستان نے بہت سی اہم فتوحآت سمیٹی لیکن 2007 کے ورلڈکپ میں ان کی اچانک موت نے ان کا کیریئر ختم کردیا۔ وہ ایک مثبت ذہن اور بہترین اخلاق کے حامل تھے۔ سابق کپتان یونس خان کہتے ہیں کہ باب وولمر جیسا انسان بہت کم ملتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کرکٹ سے سچی محبت کی۔
وولمر کے بعد جیوف لاسن ڈیو واٹمور اور مکی آرتھر کوچ بنے لیکن سب کے ادوار تنازعات میں گھرے رہے۔ لاسن بہت پرعزم تھے لیکن انہیں زبان کا مسئلہ درپیش رہا۔ ان کی انگلش کھلاڑیوں کو سمجھانے کے لیے مدثر نذر کو لایا گیا تھا۔ واٹمور کے سینئیر کھلاڑیوں سے اختلافات رہے کیونکہ واٹمور بھی اناپرست تھے۔
مکی آرتھر کے کریڈٹ پر چیمپیئنز ٹرافی ہے لیکن وہ ایک متنازعہ کوچ تھے۔ وہ چند کھلاڑیوں کے علاوہ کسی کی بات نہیں سنتے تھے پھر ان کے بورڈ سے بھی مسائل رہے کیونکہ انہیں نجم سیٹھی لائے تھے لہذا رمیز راجہ اور پھر ذکاء اشرف نے فارغ کردیا۔
موجودہ کوچ جیسن گلیسپی پاکستان کے ٹیسٹ ٹیم کے کوچ ہیں۔ گلیسپی ایک کامیاب کرکٹر لیکن سطحی کوچ ہیں۔ انہیں کسی قومی ٹیم کی کوچنگ کا تجربہ نہیں ہے تاہم انگلینڈ کے خلاف سیریز کی جیت نے انہیں معروف کردیا ہے۔ پاکستان کے وائٹ بال کوچ گیری کرسٹن بورڈ سے اختلافات پر استعفیٰ دے کر جاچکے ہیں اور اب آئندہ تین سیریز کے لیے عاقب جاوید کو وائٹ بال کوچ مقرر کیا گیا ہے۔
پاکستان میں کوچز کا تنازع کیوں ہے؟
اگرچہ کوچز کے تنازع ہر ٹیم میں ہیں۔ انڈیا میں جس طرح ویرات کوہلی نے انیل کمبلے کو فارغ کراکے روی شاستری کو کوچ بنوایا تھا۔ وہ اپنی ایک مثال ہے۔ آسٹریلیا، انگلینڈ اور سری لنکا میں بھی کوچز کے بے حد مسائل ہیں۔ ڈیرن لہمن اور مینڈس جیسے لوگ بھی متنازع انداز میں گھر بھیجے گئے۔
پاکستان میں یہ تنازع اس لیے شدید ہے کہ بورڈ اور کھلاڑیوں کے درمیان کوچ فٹ بال بن جاتا ہے۔ بورڈ اپنے جائز ناجائز فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے کوچز کو استعمال کرتا ہے جب کہ کپتان اپنے فیصلوں پر ڈٹ جاتا ہے جس سے کوچ کو حکمت عملی بنانے میں دشواری ہوتی ہے۔ اگرچہ مثالیں موجود ہیں کہ کوچز کھلاڑیوں کے گروپ بنواتے ہیں اور انھہیں بورڈ کے خلاف اکساتے ہیں۔ 2006 کے انگلینڈ ٹور میں جس طرح وقار یونس بولنگ کوچ کی حیثیت سے بورڈ چیئرمین کے خلاف کپتان انضمام الحق کو اکسارہے تھے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
پاکستان میں کوچز کی تبدیلی بھی اکثر کھلاڑیوں کے کہنے پر ہوتی ہے۔ کپتان اور سینئر کھلاڑی اگر کسی کوچ کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں تو بورڈ مجبور ہوجاتا ہے کہ اسے ہی مقرر کرے اور پھر کوچ ان کھلاڑیوں کا ترجمان بن جاتا ہے۔ ان میں سیلیکشن کمیٹی کے چئیئرمین بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ سابق چیئرمین ذکاء اشرف کے دور میں انضمام الحق نے جس طرح سینٹرل کنٹریکٹ کے لیے دخل اندازی کی اور کھلاڑیوں کے ترجمان بنے اس نے غلط روایت کو فروغ دیا۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر ظہیر عباس کے خیال میں کوچز کو گیم پلان اور پلیئنگ الیون تک محدود رہنا چاہیے لیکن ٹیم سلیکشن ایک الگ پینل ہونا چاہیے۔
ماضی میں بورڈ نے نیا تجربہ کرتے ہوئے مصباح الحق کو کوچ اور سلیکشن کا مالک بنایا تھا اور انہوں نے پسند ناپسند کو فروغ دیا۔ وہ ٹیم کے تمام اختیارات کے مالک بن گئے۔ ان کا پہلا اختلاف سرفراز احمد کی کپتانی سے سبکدوشی کی صورت میں آیا اور پھر اختلافات بڑھتے گئے۔ ان کے دور میں پاکستان نے بہت سی شکستیں برداشت کیں۔
بورڈ نے جب ان کی جگہ ثقلین مشتاق کو کوچ بنایا تو قدرت کا نظام جیسی غیر ذمہ دارانہ باتیں وجود میں آگئی۔ ثقلین کبھی بھی ہیڈ کوچ کے قابل نہیں تھے لیکن پسند ناپسند نے ان کا دور بڑھادیا۔
جب مسلسل شکستیں بڑھنے لگیں تو پھر غیر ملکی کوچ تلاش کیے جانے لگے لیکن کوئی بھی پروفیشنل کوچ پی سی بی کے بچکانہ فیصلوں کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں۔ جیسن گلیسپی بھی بھاری بھرکم معاوضے کم سے کم دن پاکستان میں رکنے کے وعدے پر آگئے لیکن گیری کرسٹن چند ماہ ہی کوچ رہے۔ کرسٹن ایک مانے ہوئے کوچ ہیں اور لاتعداد فتوحات ان کے کریڈٹ پر ہیں لیکن وہ سلیکشن کے مسائل اور پاکستان آکر رہنے کے بورڈ کے فیصلے پر استعفیٰ دے گئے۔
اگر ان سب فیصلوں کو دیکھا جائے تو ایک بات واضح ہے کہ بورڈ کی بے جا مداخلت کے باعث کوچز ہمیشہ الگ ہوتے رہے۔ پی سی بی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ ماڈرن کرکٹ میں کوچ ٹیم کا دماغ ہوتا ہے اور اسے مکمل اختیارات چاہیے۔ انگلینڈ کے کوچ برینڈن میکولم کپتان بدلنے تک کا حق رکھتے ہیں اور کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔
پاکستان کے نئے کوچ عاقب جاوید
آسٹریلوی کپتان اسٹیو واہ نے کہا تھا کہ میں اتنی قمیضیں نہیں بدلتا جتنے پاکستان کپتان بدل دیتا ہے۔ شاید ان کا جملہ مکمل یوں ہوتا کہ کوچ بھی اتنے بدلے جاتے ہیں جتنے کپتان۔
اب پی سی بی نے عاقب جاوید کو چیمپئنز ٹرافی تک وائٹ بال کا کوچ مقرر کیا ہے۔ وہ پہلے ہی چیئرمین سلیکشن کمیٹی بھی ہیں۔ عاقب جاوید اس سے قبل 2009 ورلڈکپ میں معاون کوچ تھے اور متحدہ عرب امارات اور سری لنکا کی کوچنگ کرچکے ہیں۔ لاہور قلندرز کے وہ 9 سال تک کوچ رہے ہیں۔ انہوں نے بہت سے نوجوان کھلاڑی روشناس کرائے ہیں۔
عاقب جاوید نے سب سے زیادہ شہرت انگلینڈ کے خلاف گذشتہ سیریز میں اسپن پچز بنواکر حاصل کی ہے۔ وہ اچانک پاکستان کرکٹ کے سب سے اہم شخص بن گئے تھے۔ اگرچہ وہ اس وقت سب سے بااختیار شخص ہیں۔ پی سی بی اس وقت ان کے گرد گھوم رہی ہے۔ وہ کوچ بننا بھی چاہتے تھے لیکن وہ دو عہدے ایک ساتھ رکھنے کے بارے میں پر یقین نہیں تھے۔ اب عارضی طور پر کوچ بننے کے بعد وہ شاید دونوں میں سے ایک عہدہ رکھیں۔
ان کا پہلا ہدف زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز ہے جو ممکنہ طور پر پاکستان جیت لے گا۔ اس کے بعد ویسٹ انڈیز سے سیریز ہے جو پاکستان میں کھیلی جائے گی اور وہ بھی جیت جائیں گے لیکن اصل امتحان چیمپیئنز ٹرافی ہوگا۔ پھر اگلا سوال یہ ہے کہ کیا وہ اظہر محمود کے ساتھ کام کرسکیں گے جو اس وقت اسسٹنٹ کوچ ہیں جب کہ ماضی میں اظہر محمود کے ساتھ ان کے اختلافات رہے ہیں کیونکہ اظہر محمود وسیم اکرم گروپ کے سمجھے جاتے ہیں اور عاقب جاوید اپنے کیریئر میں بہت کم مواقع ملنے کی وجہ وسیم اکرم کو قرار دیتے ہیں۔ میچ فکسنگ کیس میں جسٹس عبدالقیوم کے فیصلوں پر عمل درامد نہ ہونے پر بھی تنقید کرتے رہے ہیں۔
عاقب جاوید کس قدر کامیاب ہوں گے یہ سمجھنا بہت آسان ہے کیونکہ پاکستان ٹیم اس وقت مناسب کارکردگی دکھارہی ہے۔ تاہم اگلی دو سیریز ملک سے باہر ہونے کے باعث کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے ایک روزہ سیریز جیتنے کے بعد ٹی ٹوئنٹی سیریز میں آسٹریلیا سے یک طرفہ شکست کھا گئی۔ یہ پاکستان ٹیم کا 80 سال سے المیہ ہے کہ کارکردگی اچانک خراب ہوجاتی ہے۔
کوچنگ ایک مشکل اور کل وقتی کام ہے جس میں مکمل انہماک کی ضرورت ہے لیکن ایک مثبت اور بہتر نتیجہ کے لیے ضروری ہے کہ بیرونی دباؤ کم سے کم ہو اور کوچز کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔
لٹل ماسٹر سنیل گواسکر کہتے ہیں کہ کرکٹ میں بہتر نتیجہ روز بروز فیصلے بدلنے سے نہیں بلکہ مستقل مزاجی سے ملتے ہیں۔ انہوں نے انیل کمبلے کو ہٹانے پر کوہلی پر بھی بہت تنقید کی تھی۔ اسی طرح عمران خان جو کوچ کے کبھی حامی نہیں رہے لیکن جب ان کی حکومت میں مصباح الحق کو کوچ بنایا گیا تو انہوں نے بورڈ کو ہدایت کی تھی کہ کم ازکم دو سال کوچ رکھا جائے تاکہ طویل منصوبہ بندی کی جاسکے۔
عاقب جاوید عارضی کوچ ہیں۔ اس لیے کوئی طویل منصوبہ بندی تو نہیں ہوسکتی لیکن پی سی بی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر روز کوچ بدلنے سے ٹیم نہیں بدل سکتی۔ ایک مضبوط ٹیم مستقل کوچ ہی تیار کرسکتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News