
چہل ستون کے شاہی محل کے اس ہال میں تاریخ کے بہت سے یادگار لمحات کو محفوظ کیا گیا ہے۔ ایک منظرمیں یہ لمحہ محفوظ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ترکستان کا بادشاہ نادر محمد خان اپنے معزول کئے جانے کے بعد صفوی بادشاہ عباس دوم کے دربار میں 1658ء میں حاضر ہوا ہے اور اپنی سلطنت دوبارہ حاصل کرنے کیلئے کمک کا طالب ہوا ہے۔ اس موقع پر صفوی بادشاہ اپنے وزراء ، درباری مصاحبین، امراء و رؤساء کے علاوہ شاہی موسیقاروں اور گویوں کو حاضر ہونے کا کہتا ہے ۔ ان کے ساتھ نازک اندام رقاصائیں بلوائی جاتی ہیں اور محفلِ رقص و سرود کا آغاز ہوتا ہے۔ درباری حاضرین نہایت مودب انداز میں دوزانو ہو کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ ترکستان کا معزول بادشاہ نادر محمد خان شاہ عباس دوم کے ساتھ آمنے سامنے تخت پر بیٹھا ہے۔
ایسی ہی ایک اور تاریخی پینٹنگ ہندوستان کے دوسرے مغل بادشاہ نصیرالدین ہمایوں کی ہے۔
ہمایوں 26 دسمبر 1530ء کو 22 سال کی عمر میں تخت نشین ہوا اور اس کے تین روز بعد اس کی باقاعدہ تاج پوشی ہوئی۔ تخت سنبھالنے کے دس سال بعد 17 مئی 1540ء کو شیرشاہ سُوری نے اس سے تخت و تاج چھین لیا۔ شیر شاہ سُوری ہمایوں سے 38 برس بڑا تھا وہ ہمایوں کی تخت نشینی سے ایک سال پہلے 1529ء میں بہار کا خودمختار حکمران بنا اور گیارہ سال بعد ہمایوں کا تختہ اُلٹ کا پورے ہندوستان کا حکمران بن بیٹھا۔پانچ سال بعد شیرشاہ سوری فوت ہوگیا تو اس کی جگہ پر اس کا بیٹا اسلام شاہ دہلی کے تخت پر بادشاہ بن بیٹھا۔ ہمایوں ہندوستان میں پہلے سندھ آیا ، پھر وہاں سے وہ تہران کے شمال مغرب میں زنجان پہنچا جہاں پہلے صفوی حکمران شاہ طہماسب نے اپنی بادشاہت قائم کر لی تھی۔ یہاں ہمایوں نے پناہ حاصل کی۔ چہل ستون میں موجود ایک بورڈ پر موجود تحریر کے مطابق ہمایوں اپنے ہی سگے بھائی اور ظہیرالدین بابر کے بیٹے مرزا عسکری کی فوجوں سے بھاگ کر ایران میں پناہ گزیں ہوا تھا۔ اُس وقت تک شیرشاہ سُوری فوت ہو چکا تھا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا عادل شاہ سُوری دہلی کا تخت سنبھال چکا تھا۔ ایران کے شاہ طہماسب نے ہمایوں کو 12 ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک لشکر اور اپنے تین سو ذاتی وفادار گارڈز کا دستہ دینے سے پہلے بطور مہمان خاصی خاطر تواضع کی۔ چہل ستون میں زنجان کے شاہی محل کی دعوت کی ایک پینٹنگ موجود ہے اور یہ محل کے بائیں جانب دیوار پر لگائی گئی ہے۔ یہ پینٹنگ اپنے دور کے معروف مصور نے بنائی ہے۔ اس تصویر میں ہمایوں اور طہماسب ایک دوسرےکے آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔ تصویر میں دونوں بادشاہوں کے دائیں اور بائیں ایرانی اور مغل شہزادے، عمائدینِ سلطنت، امراء مملکت، شاہی مقربین، وزراء اور درباری حکماء اور شعراء، درباری موسیقار اور گلوگار اور رقاصائیں موجود ہیں۔ اس موقع پر بادشاہوں کی شادمانی و سرمستی کیلئے رقاصاؤں کا رقص جاری ہے۔ رقاصاؤں کے گندھے ہوئے بالوں کی چوٹیاں ان کی پنڈلیوں تک دراز نظر آتی ہیں۔ دربار میں بالائی تخت پر بیٹھے دونوں بادشاہوں کے سامنے لذتِ کام و دہن کا خاصا اسباب موجود ہے ۔ درباریوں کے سامنے بھی مشروبات کی صراحیاں اور اور تازہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی طشتریاں رکھی ہیں۔ طویل جلاوطنی کے بعد ایرانی فوجی کمک لے کرہمایوں جب ہندوستان واپس آ رہا تھا تو اس سے کافی پہلے شیرشاہ سُوری ستگھرا میں موجود میر چاکر خان رند سے تعاون کا طلبگار ہوا تھا مگر چاکر خان رند نے شیرشاہ سوری سے تعاون کرنے سے انکار کردیا تھا۔ لیکن جب ہمایوں ایرانی فوج لے کر دہلی کی طرف بڑھ رہا تھا تو 1555ء میں میرچاکرخان رند کا بیٹا میرشہداد خان رند اپنی فوج لے کر ہمایوں کی فوجوں کے ساتھ شامل ہو گیا اور 1556ء میں مغل فوج نے دہلی فتح کرلیا اور سُوری بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس پر ہمایوں نے بلوچ سردار میر چاکرخان رند کو جاگیریں خدام اور گھوڑے دیئے۔
چہل ستون کی پینٹگز میں ایک اور ہینٹنگ ولی محمد خان اُزبک کی ہے جو اشترخانی سلطنت کے بانی جانی بیک کا بیٹا تھا۔ یہ بخارہ کے حکمران خان کہلاتے تھے۔بخارا کے خانوں کی یہ سلطنت 1501ء سے 1785ء تک قائم رہی۔ جبکہ 1533ء سے 1540ء تک بخارہ اس کا دارالسلطنت رہا۔ ولی محمدخان 1605ء سے 1611ء تک اس سلطنت کا حکمران رہا۔ یہ اپنے بھائی باقی محمد خان کے انتقال کے بعد اشتر خانی سلطنت کا حکمران بنا مگر امام قُلی خان نے اس کی مخالفت کی۔ بخارا کی سیاسی اشرافیہ ولی محمد خان کی حمایت کر رہی تھی۔ وہ اس سے پہلے بلخ اور بدخشاں کا گورنر رہا تھا جبکہ وہاں کے تاجر اور زمیندار امام قلی خان کی حمایت کر رہے تھے۔ اس دوران ولی محمد خان پر قاتلانہ حملہ ہوا مگر وہ اس حملے سے بچ نکلا اور ایران کے صفوی بادشاہ شاہ عباس اول کے دربار میں جا پہنچا اور اس سے مدد کا طلبگار ہوا۔ شاہ عباس اول نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے اسے ایک فوج کے ساتھ بخارا روانہ کیا مگر ولی محمد خان بغاوت کچلنے میں ناکام رہا اور وہ انتقال کر گیا اور اس کے فوت ہو جانے کے بعد امام قُلی شاہ بخارا کا حکمران بن گیا۔ چہل ستون کی یہ تصویر ان لمحوں کی شہادت ہے جب بلخ، بدخشاں، بخارا کی اشترخانی ریاست کا مفرور بادشاہ شاہ عباس اول کے دربار میں اس کی مدد حاصل کرنے کیلئے آیا تھا کہ وہ بھی شاید ہندوستان کے مغل بادشاہ ہمایوں کی طرح اپنا تخت و تاج دوبارہ حاصل کر سکے مگر وقت اور حالات اپنا فیصلہ کرتے ہیں۔ یوں بھی ہمایوں 15 سال کی جلاوطنی اور دربدری کے بعد تخت دوبارہ حاصل کر کے صرف چھ مہینے ہی جی پایا تھا۔ وہ 48 سال کی کل عمرمیں دس سال بادشاہ اور 15 سال جلاوطن رہنے کے بعد دوبارہ تخت سنبھال کرجنوری 1556ء میں فوت ہوگیا ۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News