
ہم اکیوریم سے نکل کر گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اپنی نئی منزل کی طرف جا رہے ہیں۔ اب ہمیں چہل ستون محل کے باغ اور عجائب گھر جانا ہے جسے یونیسکو نے آثارِ قدیمہ کا عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔ ہم اکیوریم سے اُلفت اسٹریٹ پر چلتے ہیں اور دریائے زائندہ کے ساتھ ساتھ چل پڑتے ہیں۔ ہمارے بائیں طرف جادۂ سلامت ہے۔ یہی راستہ ہمیں باشگاۂ ورزشی قدیم جلالان کے قریب لے جاتا ہے۔ آگے ہم تفریحی پارک کارتینگ ناژوان کے قریب سے گزرتے ہیں۔ پھر ہم حبیب اللہی ایکسپریس وے کے قریب جا پہنچتے ہیں۔ وہاں ہمارے ایک جانب میدانِ سہروردی ہے۔ہم مرزا کوچک خان لوکل لین کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ یہاں ایک سرکاری دفتر نظر آتا ہے جس کا نام ادارہ کل راہداری و نقل وحمل جادہ ای استان اصفہان لکھا ہوا ہے۔ آگے خدیجتہ الکبریٰ ہائی اسکول کے قریب سے گاڑی گزرتی ہے۔ ذرا آگے پارسیان انشورنس کمپنی کا دفتر ہے۔پھر یکے بعد دیگرے کپڑوں کے تین اسٹور آتے ہیں۔ پھرتو لگتا ہے کہ آگے خواتین اور مردوں کے کپٹروں کے اسٹور ہی آتے جا رہے ہیں۔آگے ایک بولوار شاپنگ سنٹر آتا ہے۔ ذرا اور چلتے ہیں تو فراشچین کلچرل اینڈ آرٹس کمپلکس کی عمارت پر نظر پڑتی ہے۔ پھر ہم دریائے زایندہ کے دوسرے کنارے پر آجاتے ہیں۔یہاں آگے پُل 33 کا باغ ہے۔ اب ہم مطاہری روڈ پر چل رہے ہیں۔ یہاں بائیں انقلاب اسکوائر ہے۔ پھر ایک ایلیمنٹری اسکول اور مڈل اسکول سے گزرتے ہوئے ادب ہائی اسکول کے قریب پہنچتے ہیں۔ اس کے بعد اصفہان سنٹرل لائبریری آتی ہے۔ کچھ دیر اور چلنے کے بعد ہماری منزل آگئی۔ اب ہم چہل ستون کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ میں نے 32 سال پہلے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں چہل ستون کا علاقہ دیکھ رکھا ہے۔ کابل کے چہل ستون اور اصفہان کے چہل ستون میں بہت زیادہ فرق ہے۔ کابل کا چہل ستون بالا حصار پہاڑ کے مغرب میں واقع ہے اور ہم جنوب سے لوگر اور چہاراسیاب اور ریشخور کے علاقے سے ہوتے ہوئے چہل ستون میں پہنچے تھے۔ یہاں افغان فوج کا جنرل ہیڈ کوارٹر تھا۔ اس کے بر عکس اصفہان کے چہل ستون کے اندر داخل ہوتے ہی یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ ہم لاہور کے شالامارباغ میں پہنچ گئے ہیں۔ دراصل یہ ایک شاہی محل ہے۔جہاں بارہ دری قسم کی عمارت، اس کے سامنے ایک بڑا وسیع پانی کا پُول ہے اور یہ محل ایک باغ میں واقع ہے۔ہمارے لاہور کا شالامار باغ مغل بادشاہ شاہجہان نے شاہی مہمانوں کو شاہانہ طرزِ رہائش کا احساس دلانے کیلئے کشمیر کے شالا مار باغ جیسابنوایا تھا۔ شاہجہان کا شاہی مورخ محمد صالح کمبوہ لکھتا ہے کہ کشمیر کے باغات سے متاثر ہوکر شالامار باغ بنوایا گیا تھا اور یہاں کے درختوں اور پھولوں کیلئے یہ خاص اہتمام کیا گیا تھا کہ یہ کشمیر کے باغات کا تاثر دیں۔ شالا مار باغ کی تعمیر پونے چار سو سال پہلے 12 جون 1641ء کو شروع ہوئی تھی اور یہ باغ صرف اٹھارہ ماہ کی مدت میں مکمل ہوا تھا جبکہ اصفہان کے چہل ستون باغ کی تعمیر اس کے بعد ہی ایرانی بادشاہ عباس دوم صفوی کے دور میں ہوئی تھی جو شالامارباغ لاہور کی تکمیل کے دوران 30 اگست 1642ء کو تخت نشیں ہوا۔
اس باغ کا نام چہل ستون اس لئے رکھا گیا کہ یہ تاثر دیا جائے مگر درحقیقت اس محل کی عمارت کا یہ حصہ 40 ستونوں پر کھڑا ہے۔ میں وہاں جا کر ستونوں کو گننے لگا تو یہ تو 20 ستون تھے۔ میں زین سے کہاکہ یہ ستون تو گنیں۔ انہوں نے گن کر بتایا کہ یہ 20 ستون ہیں۔ اب ایک الجھن پیدا ہوگئی کہ اس باغ کو چہل ستون باغ کیوں کہا جاتا ہے۔ اس پر زین نے کہا کہ سامنے پانی کے پُول کو دیکھیں، ان 20 ستونوں کا عکس پانی میں پڑ رہا ہے۔ اس طرح محل کے بیس ستون اور پانی میں نظر آنے والے 20 ستونوں کے عکس مل کر40 ہوجاتے ہیں۔
ایرانی صفوی شاہ عباس دوم اور اس کے جانشین اس باغ میں شاہی مہمانوں اور غیرملکی سفیروں سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔ اور ملاقاتیں یا تو سامنے ٹیرس میں یا پھر اس کے ساتھ ہی بنے ہوئے وسیع وعریض ہال میں ہوتی تھیں۔ یہ باغ 6 لاکھ 40 ہزار مربع فٹ رقبے پر بنا ہوا ہے جبکہ اس کے ارد گرد کا علاقہ ملا کر یہ رقبہ 31لاکھ 13 ہزار مربع فٹ بنتا ہے۔ جس طرح نقشِ جہاں کے عالی قاپو محل کی آرائش و زیبائش کیلئے پینٹنگز لگائی گئی ہیں اسی طرح اس چہل ستون محل کی زیب وزینت کیلئے بھی شاندار پینٹنگز لگائی گئی ہیں۔
اس محل میں لگی ایک پینٹنگ میں جنگ چالدران کے مناظر دکھائے گئے ہیں جو 1514ء میں ترکانِ عثمان اور ایران کے صفوی حکمرانوں کے درمیان لڑی گئی تھی اور اس جنگ میں صفویوں کو شکست ہوئی تھی۔ اس جنگ میں ترکی نے مشرقی اناطولیہ اور شمالی عراق کے علاقے صفوی حکمرانوں سے چھین لئے تھے اور اس طرح ترک مغربی آرمینیا تک چلے گئے تھے۔ ان دنوں جب ہم ایران میں تھے ہم نے آرمینیا اور ایران کی سرحد پر ترکی کی مدد سے اسرائیل کی نقل و حرکت کی خبریں سنی تھیں۔ یہ مفادات کی سیاست بھی عجیب شئے ہے۔ ہمارے مسلمان حکمران عالمی اجتماعات میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی ظالمانہ اور بے رحمانہ کارروائیوں پر گرجتے برستے ہیں اور درپردہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف اس کی ریشہ دوانیوں کے ہمدم و ہمنوا بن جاتے ہیں۔جنگ چالدران ایک 41 سالہ تباہ کن جنگ کا نقطۂ آغاز تھی، جس کا خاتمہ 1555ء میں معاہدۂ اماسیہ کے نتیجے میں ہوا اور صفوی بادشاہ عباس اول نے آرمینیا اور عراق کے شمالی علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا تھا۔
اس چہل ستون محل کے شاہی ہال میں اس جنگ کے مناظر کو ظاہر کرنے والی ایک اور پینٹنگ پر نظر پڑتی ہے۔ واٹرلُو کی جنگ عیسائی جرنیل ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے اورچالدران کی جنگ مسلمان جرنیل آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے مگر حقیقت یہ ہے جنگ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ جنگ کی منطق بھی نہیں ہوتی۔ جنگ دراصل مفادات کا کھیل ہوتا ہے۔ جنگ تضادات کا کھیل ہوتی ہے۔ جنگ دراصل قبضہ گیری کیلئے ہوتی ہے یا قبضہ گیری کے خلاف ہوتی ہے۔ چالدران کی جنگ کے مناظر دیکھ کر میں انسانوں کی نامعقولیت پر دُکھی ہوجاتا ہوں۔ (جاری ہے)
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News