
کراچی پارکنگ مافیا
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) پارکنگ کی مد میں شہر سے سالانہ 7 کروڑ سے زائد آمدنی کے باوجود غیرقانونی پارکنگ کے مسائل کو حل کرنے اور شہریوں کی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
وطن عزیز میں جہاں عوام آئے دن اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہیں، وہیں کراچی کے شہریوں کو مہنگائی کے طوفان کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر مختلف مافیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جنہوں نے شہریوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔
کراچی میں اگر آپ شاپنگ مال، کاروباری مراکز، دفاتر، مارکیٹس اور تفریحی مقامات سمیت کہیں بھی جانا چاہتے ہیں تو وہاں پارکنگ مافیا کا راج دکھائی دے گا۔ غیر قانونی پارکنگ کے علاوہ جن مقامات پر انتظامیہ کی جانب سے پارکنگ فیس لاگو کی گئی ہیں، وہاں بھی زائد فیس وصول کی جاتی ہے۔ جس میں انہیں مبینہ طور پر سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔
سندھ حکومت کے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت بلدیہ عظمیٰ کراچی (کے ایم سی) سے حاصل کیے گئے ڈیٹا کے مطابق کراچی میں موٹر سائیکل کی پارکنگ فیس 10 روپے اور گاڑی کی فیس 30 روپے مقرر کی گئی ہے لیکن افسوس شہر کے مخلتف مقامات پر غیر قانونی ، یہاں تک کہ کے ایم سی کی اپنی پارکنگ میں موجود کارندے موٹرسائیکل کے 20 سے 30 اور گاڑی کے 50 سے 100 روپے تک پیسے وصول کرتے ہیں۔
کے ایم سی کے ڈپٹی ڈائریکٹر چارج پارکنگ محمد وسیم سراج نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں کسی بھی مقام پر چارجڈ پارکنگ بائی لاز 1975 کے تحت پارکنگ وصول نہیں کی جارہی جو موٹر سائیکل کی 10 روپے اور گاڑی کی 30 روپے ہے تاہم اگر کوئی ٹھیکیدار اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ہم انہیں 3 نوٹس بھیجتے ہیں جس کے بعد ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے جس میں ان سے ٹھیکہ واپس لینا بھی شامل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کے ایم سی کی پارکنگ میں زیادہ تر ہمارے اپنے ورکرز نہیں ہوتے بلکہ ہمارے کچھ سپروائزرز ہوتے ہیں اور باقی دیہاڑی کی بنیاد پر لوگوں کو رکھا جاتا اور وہ بھی جب تک کوئی سائٹ آکشن نہیں ہوجاتی، ایک بار آکشن ہوجائے پھر ہمارا واسطہ صرف ٹھیکدار سے ہوتا ہے، دراصل ہمارے پاس اتنا اسٹاف نہیں کہ ہم ہر جگہ اپنے لوگ کھڑے کریں۔
یہ مافیا اپنی مرضی کے مطابق شہر کے کسی بھی مقام پر غیرقانونی پارکنگ بنا کر پیسے کمانا شروع کردیتے ہیں، کراچی کے تقریباً تمام سروس روڈ، اسپتال، پارک، فوڈ اسٹریٹ کے علاوہ زینب مارکیٹ، صدر، طارق روڈ، ملینیئم مال، قائدآباد موبائل مارکیٹ سمیت شہر کی تمام بڑی مارکیٹوں میں پارکنگ مافیا کے کارندے موجود ہوتے ہیں جو شہریوں سے اپنی مرضی کے مطابق پیسے وصول کرتے ہیں، حتیٰ کے بیشتر مقامات پر پل کے نیچے بھی غیر قانونی پارکنگ بنائی گئی ہے لیکن متعلقہ ادارے اور کمشنر کراچی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
کراچی میں غیر قانونی پارکنگ چلانے والے ایک ٹھیکدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مجھے تو بمشکل روزانہ کی بنیاد پر 2 سے 3 ہزار روپے ہی ملتے ہیں۔ دراصل شہر کی تمام غیر قانونی پارکنگ میں ڈی ایم سی، پولیس سمیت اعلیٰ حکام ملوث ہوتے ہیں، جو ہم سے ’بھتہ‘ وصول کرتے ہیں اور ہم بھی ان کی سرپرستی کی وجہ سے یہ پارکنگ چلا پاتے ہیں اور اگر کوئی ٹھیکدار پیسے دینے سے انکار کردے تو اس کے خلاف کارروائی کرکے وہاں دوسرا شخص کھڑا کردیا جاتا ہے۔
کے ایم سی نئے مقام پر پارکنگ کیسے شروع کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب ڈپٹی ڈائریکٹر چارج پارکنگ نے کہا کہ کچھ مقامات پر ہم تجرباتی بنیادوں پر بھی پارکنگ کا سلسلہ شروع کرتے ہیں اور اگر وہاں سے روزانہ کی بنیاد پر 10 سے 15 ہزار کی آمدن ہوتی ہے تو ہم اسے آکشن میں ڈال دیتے ہیں ورنہ اسے بند کردیتے ہیں۔
کے ایم سی پارکنگ کی آکشن سے متعلق انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر شاہراہ فیصل کا سالانہ اندازہ ہم 30 لاکھ روپے لگاتے ہیں تو اس میں اوپن بڈ ہوتی ہے، کوئی 31 تو کوئی 32 لاکھ کی بولی لگاتا ہے اور جہاں بات فائنل ہوجاتی ہے، ہم اس ٹھیکدار کو سائٹ دیکر اس کی 12 قسطیں بنالیتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر قائد میں پارکنگ کی مد میں روزانہ تقریباٍ کروڑ کی آمدن ہوتی ہے۔
کے ایم سی کی آمدن سے متعلق رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈپٹی ڈائریکٹر چارج پارکنگ نے بتایا کہ ہمارا سالانہ ہدف ساڑھے 8 کروڑ روپے ہوتا ہے اور پچھلے سال یعنی جون 2022 سے جولائی 2023 کے دوران ادارے نے 7 کروڑ 51 لاکھ روپے جمع کیے۔
بلدیہ عظمیٰ کی جانب سے فراہم کیے گئے ڈیٹا کے مطابق شہر میں کے ایم سی کے کل 36 چارجڈ پارکنگ ایریاز ہیں جس میں ضلع شرقی میں 15، ضلع وسطی 7، ضلع جنوبی 10 اور ضلع کورنگی میں صرف 4 پارکنگ زون فعال ہیں۔
میرے پوچھنے پر محمد وسیم سراج نے بتایا کہ شہر میں کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں کے ایم سی کی پارکنگ ریزور ہے، وہاں گاڑیوں کی پرچیاں نہیں کٹتی بلکہ ہمیں ماہانہ ایک فکس رقم ملتی ہے، کچھ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کچھ دیگر اداروں نے اپنے ورکرز کی پارکنگ کے لیے وہ مقامات لیے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف مقامات پر موجود کے ایم سی پارکنگ سے حاصل ہونے والی رقم میں بھی فرق آتا رہتا ہے، یعنی ہم دعوے کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ ہر ماہ ہمیں اتنی رقم ملے گی، البتہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اپنا سالانہ ہدف پورا کریں اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کراچی کے ریڈ زون ميں سڑکوں پر پارکنگ سے ٹریفک جام رہنا معمول بن گیا ہے، جس سے نہ صرف عوام کو پریشانی کا سامانا کرنا پڑتا ہے بلکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس یا کسی مریض کو اسپتال لے جانے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔
پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک جام سے متعلق سوال پر محمد وسیم سراج کا کہنا تھا کہ شہر کی اکثر مارکیٹوں کے سامنے پارکنگ میں زیادہ تر موٹرسائکلیں ان دکان والوں کی ہی ہوتی ہیں جو صبح سے رات تک وہیں ہوتی ہیں، ایسے میں جب کسٹمر ان کے پاس آتے ہیں تو انہیں مجبوراً روڈ والی سائیڈ پر گاڑی لگانی پڑتی ہے جس کی وجہ سے ٹریفک میں خلل پیدا ہوتا ہے۔
کراچی کے ایک شہری تنویر (فرضی نام) نے بتایا کہ میں ایک نجی ادارے کا ملازم ہوں اور روز میرا گزر راشد منہاس روڈ سے ہوتا ہے۔ اس روڈ پر بڑے بڑے سپر مارٹ قائم ہوگئے ہیں جن کے باہر پارکنگ کی وجہ سے روزانہ ایک گھنٹے دیر سے گھر پہنچتا ہوں۔ اسی ٹریفک میں اکثر و بیشتر ایمبولنسس بھی پھنسی ہوتی ہیں۔
شہری کا کہنا تھا کہ کراچی میں پارکنگ مافیا اپنی من مانی اور غنڈہ گردی سے لوگوں سے پیسے بٹورتے ہیں، حالانکہ مخلف علاقوں کے کمشنرز کی جانب سے موٹرسائیکل کے لیے پارکنگ کی رقم 10 روپے ہے لیکن یہاں علاقے کی مناسبت سے پرچیوں پر پیسے لکھے ہوتے ہیں، کوئی 20 تو کوئی 30 روپے وصول کرتا ہے جب کہ پوش علاقوں میں تو فیس اس سے بھی زیادہ وصول کی جارہی ہیں۔
تنویر نے مزید کہا کہ پارکنگ عملہ انتہائی بدتمیز اور بد تہذیب ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ موجود فیملی کا بھی خیال نہیں رکھتا اور اگر آپ انہیں بتائیں کہ موٹرسائیکل کی پارکنگ 10 روپے ہے تو وہ گالیاں دینے پر اتر آتے ہیں، حتی کہ آپ انہیں پیسے نہ دیں تو وہ آپ کی گاڑی ٹریفک پولیس سے اٹھوا دیتے ہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ ایک بار زینب مارکیٹ کے باہر پارکنگ کے کارندے سے پیسوں پر میری بحث ہوئی اور جب میں واپس آیا تو میری موٹرسائیکل وہاں موجود نہیں تھیں، میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ آپ کی گاڑی ٹریفک پولیس والے لے گئے ہیں۔
کے ایم سی پارکنگ زون میں فیس بورڈ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ڈپٹی ڈائریکٹر چارج پارکنگ کا کہنا تھا کہ ہم نے شہر کے تقریباٍ تمام پارکنگ زون میں فیس بورڈ لگائے تھے لیکن وہ کچھ ہی عرصے میں یا تو نشئی اکھاڑ کر لے جاتے ہیں یا پھر وہاں کا ٹھیکدار جان بوجھ کر جس جگہ پر ریٹ لکھے ہوتے ہیں وہاں کوئی تصویر یا اسٹیکر لگادیتا ہے۔
قائدآباد موبائل مارکیٹ کے سامنے پارکنگ میں دیہاڑی کی بنیاد پر کام کرنے والے ایک کارندے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ مجھے ٹھیکدار کو جواب دینا ہوتا ہے اور اگر دن کے پیسے کم ہوئے تو وہ میری دیہاڑی سے پیسے کاٹ دیتا ہے اور مجھے روز کے 600 روپے ملتے ہیں جب کہ یہاں پر دو مختلف لوگ ڈیوٹی دیتے ہیں۔
کراچی کے ایک ٹریفک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بہت سے علاقوں میں غیر قانونی پارکنگ موجود ہونے کے باوجود ہم لوگ کارروائی نہیں کرپاتے کیوں کہ ہمارے پاس موٹرسائیکلیں اٹھانے کے لیے لفٹر موجود نہیں ہیں اور جہاں تک مارکیٹوں کے سامنے پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک جام ہونے کا سوال ہے تو اس میں عوام ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے جس کی وجہ قانون سے لاعلمی ہے۔
غیر قانونی پارکنگ سے مخصوص موٹرسائیکلیں اٹھانے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، جن تھانوں کے پاس لفٹر ہوتے ہیں وہ اکثر غیر قانونی پارکنگ میں کارروائیاں کرتے ہوئے موٹرسائیکلیں وہاں سے اٹھاتے ہیں، اس میں پولیس کی پارکنگ والوں کے ساتھ کوئی ملی بھگت نہیں ہوتی۔
خیال رہے کہ کراچی میں قائم غیر قانونی پارکنگ سے اکثر موٹرسائیکل یا گاڑی چوری ہونے کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں لیکن ایسے میں اس مافیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور عموماٍ یہ دیکھا گیا ہے کہ اس چوری میں خود پارکنگ مافیا ملوث ہوتا ہے۔
وسیم (فرضی نام) نے مجھے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل میری موٹرسائیکل کورنگی مارکیٹ سے چوری ہوگئی تھی۔ عید کے دنوں میں فیملی کے ساتھ مارکیٹ گیا تو پارکنگ والے 50 روپے مانگ رہے تھے اور میں نے پیسے دینے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں شاپنگ سے فارغ ہوکر آیا تو میری موٹرسائیکل موجود نہیں تھی جس پر میں نے ایف آئی آر بھی کٹوائی لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کے پارکنگ ڈائریکٹ محمد وسیم سراج نے پارکنگ سے گاڑیاں چوری ہونے سے متعلق سوال پر بتایا کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں کیوں کہ ہم تو صرف جگہ کے پیسے لے رہے ہیں، یہ تو حکومت اور پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن افسوس موٹرسائیکل چوری ہونے پر وہاں دیہاڑی پر موجود لڑکوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے، حالانکہ ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا وہ تو صرف موٹرسائیکل کے لیے جگہ فراہم کرتے ہیں، اس کی حفاطت کرنا ان کے ذمہ نہیں۔
غیر قانونی پارکنگ سے متعلق محمد وسیم سراج کا کہنا تھا کہ زیادہ تر غیر قانونی پارکنگ ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں ہیں کیوں کہ وہاں پر کچی آبادی والے زیادہ ہوتے ہیں، ہم ان کے خلاف وقتاً فوقتاً کریک ڈاؤن کرتے رہتے ہیں جس میں ہم ڈی آئی جی ٹریفک اور پولیس سمیت تمام متعلقہ اداروں کو آن بورڈ لیتے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرواتے ہیں لیکن وہ کچھ وقت بعد دوبارہ آجاتے ہیں، یہ ویسا ہی ہے جیسے شہر بھر میں پتھاروں کو ہٹایا جاتا ہے لیکن وہ دوسرے دن پھر آباد ہوجاتے ہیں، دراصل اس کے پیچھے ہمارا سسٹم ہے جو سب جانتے ہیں کہ کس طرح چلایا جاتا ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ہمیں اختیارات دیں، اگر ہمیں مجسٹریٹ جتنے اختیارات مل جائیں اور ہم کسی بھی بندے کو موقع پر ہی گرفتار کرسکیں تو شہر بھر میں غیر قانونی پارکنگ کے مسائل میں کمی آئے گی۔
ماضی میں صوبائی حکومت یہ ذمہ داری بلدیہ عظمیٰ کراچی پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتی تھی لیکن اب تو نہ صرف بلدیاتی حکومت پاکستان پیپلزپارٹی کی ہے بلکہ وہ گزشتہ 18 ماہ کے دوران وفاق میں بھی اتحادی حکومت کا اہم حصہ تھی لیکن اس کے باوجود اس مافیا کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ اب دیکھنا ہے کہ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کراچی کے شہریوں کو اس مافیا سے چھٹکارا دلانے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
میئر کراچی کا موقف حاصل کرنے کے لیے ان سے اور ان کے اسٹاف سے متعدد بار رابطہ کیا گیا، حتیٰ کہ انہیں سوالات بھی بھیجے گئے لیکن ان کی جانب سے متعدد بار یاد دہانی کے باجود کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News