
ارشد شریف قتل از خود نوٹس کیس کل سماعت کے لیے مقرر
پاکستان کے معروف اور سینئر اینکر پرسن ارشد شریف کے قتل کیس میں ایک ماہ بعد دوبارہ اور مکمل رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس کی جانب سے ارشد شریف قتل کیس میں تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے تاہم کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی خصوصی بنچ سماعت نے کی۔
دوران سماعت سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کوایک ماہ بعد دوبارہ اور مکمل رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
سماعت کی تفصیلات :
دوران سماعت سربراہ جے آئی ٹی اویس نے اہم انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہمیں ارشد شریف کے قتل سے متعلق ابھی تک کوئی مواد نہیں ملا جبکہ کینیا کے حکام ہمیں تفتیش کیلئے مکمل رسائی نہیں دے رہے ہیں۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کا کہنا تھا کہ کینیا کے حکام نے ابھی تک ہمیں جائے وقوعہ تک رسائی ہی نہیں دی ہے تاہم کینیا نے ابھی صرف باہمی قانونی معاونت کی حد تک پاکستان کیساتھ رضامندی ظاہر کی ہے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کینیا حکام کو آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے تھا جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی پر الزام نہیں لگانا چاہتے نہ کسی کو مورد الزام ٹھرارہے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس کیس سے متعلق غلطیاں کی گئیں ہیں اور رپورٹ کو پبلک کردیا گیا، رپورٹ درست تھی یا غلط اس پر بات نہیں کررہے لیکن رپورٹ پبلک ہونے سے سب محتاط ہوگئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو اندرون ملک سے متعلق ہے جبکہ دورسرا غیر ملکی پہلو ہے،اندرون ملک تحقیقات ہوسکتی ہیں لیکن بیرون ملک وزرات خارجہ کا تعاون درکار ہے، وزرات خارجہ متعلقہ غیرملکی حکام سے رابطہ کرکے تحقیقات میں معاونت کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے واپس آنےسے اب تک کے درمیان کچھ ایسا ہوا ہے کہ کینیا اب تعاون نہیں کر رہا ہے۔
اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ کو کینین وزیر خارجہ نے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی لیکنیقین دہانی کے باوجود کینیا میں قتل کی جائے وقوعہ پر اسپیشل جے آئی ٹی کو کیوں جانے نہیں دیا گیا؟
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ بار بار ایک ہی کہانی سنائی جا رہی ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کینیا سے سفارتی تعلقات بھی قائم رکھنے ہیں یہ بیچیدہ معاملہ ہے۔
اس معاملے پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف قتل کے تین زاویئے ہیں کہ ارشد شریف کو پاکستان سے بھاگنے پر کس نے مجبور کیا؟، کیا تحقیقات ہوئیں کہ ارشد شریف کے خلاف ملک بھر میں مقدمات کس نے درج کرائے؟ اور کیا پتہ لگایا گیا کہ ارشد شریف کو ایسا کیا دیکھایا گیا کہ وہ ملک سے باہر چلے گئے؟ اور جب تمام کڑیاں جڑیں گی تو خود ہی پتا چل جائے گا کہ ارشد شریف سے جان کون چھڑوانا چاہتا تھا۔
انہوں نے سوال کیا کہ ارشد شریف کے موبائل اور دیگر سامان کہاں ہے؟ جس پر سربراہ جے آئی ٹی کا کہنا تھا کہ ان کے موبائل اور آئی پیڈ کینیا کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے پاس ہیں جبکہ ان کا باقی سامان موصول ہوچکا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی کے ارکان کہاں ہیں؟ جس پر سربراہ جے آئی تی نے جواب دیا کہ تین ارکان عدالت میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک ماہ کا وقت دیتے ہیں ارشد شریف قتل کیس میں کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں مکمل رپورٹ دیں، کینیا میں وکیل کریں اپنے قانونی حقوق کی معلومات لیں، جو کرنا ہے کریں لیکن حقائق تک پہنچیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ارشد شریف قتل کیس کے اہم کردار خرم اور وقار کے ریڈ وارنٹ کے لیے انٹرپول کو لکھ دیا گیا ہے۔
بعدازاں عدالت نے دو ہفتوں بعد رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت مارچ تک کے لیے ملتوی کردی ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس کی جانب سے ارشد شریف قتل کیس میں تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News