سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی جانب سے چار صفحات پر مشتمل 28 ستمبر کو ہونے والی فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے۔
حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ سب کو فیض آباد دھرنے سے متعلق حقائق کے لیے مزید وقت دیا جاتا ہے۔ فیض آباد دھرنے سے متعلق تحریری طور پر فیکٹس جمع کرائے جاسکتے ہیں اور نظرثانی درخواستوں کی واپسی سے متعلق بھی تحریری طور پر آگاہ کرنے کی مہلت دی جاتی ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی نے نظر ثانی درخواست واپس لینے کی استدعا کی ہے، پی ٹی آئی نے تسلیم کرلیا کہ فیض آباد دھرنے کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق تھا۔
حکم نامے کے مطابق آئی بی کی جانب سے بھی نظرثانی درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے، وفاق اور وزارت دفاع نے بھی فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے نظرثانی واپس لینے کی استدعا کی ہے۔
تحریری فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ شیخ رشید نے ایدووکیٹ آن ریکارڈ نے التواء کی استدعا کی، شیخ رشید ایڈووکیٹ آن ریکارڈ آئندہ سماعت پر دلائل دیں یا متبال وکیل کا بندوبست کرے۔
حکم نامے کے مطابق ایم کیو ایم کے ایڈووکیٹ ریکارڈ کے مطابق انکا موکل سے رابطہ نہ ہو سکا، ایدووکیٹ آن ریکارڈ کو موکل ایم کیو ایم سے رابطہ کرنے کی مہلے دی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت دفاع اپنی نظرثانی درخواست پر مزید کاروائی نہیں چاہتی، آئی بی، پیمرا، پی ٹی آئی نے بھی متفرق درخواست کے ذریعے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی۔
حکم نامے میں بتایا گیا کہ درخواست گزار شیخ رشید نے نیا وکیل کرنے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی،جبکہ درخواست گزار اعجاز الحق نے فیصلے کے پیراگراف نمبر چار پر اعتراض اٹھایا، دوران سماعت کیس سے متعلق چار سوالات اٹھائے گئے اور یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ طویل وقت گزرنے کے باوجود نظرثانی کیس کیوں سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی؟
تحریری فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ نظرثانی درخواستیں واپس لینے کے لیے ایک ساتھ متعدد متفرق درخواستیں کیوں دائر کی گئیں؟ کیا آئینی و قانونی اداروں کا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کا فیصلہ آزادانہ ہے؟ کیا فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا؟
حکم نامے کے مطابق کچھ درخواست گزاروں کی عدم حاضری پر انہیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے، عدالت نے مشاہدہ کیا کہ کچھ لوگوں نے عوامی سطح پر کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ کیا ہوا، ان لوگوں کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں عدالت نے ان کا نکتہ نظر مدنظر نہیں رکھا۔
جسٹس امین الدین خان نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے پیراگراف 17 کے تحت یہ مؤقف عدالت کے لیے حیران کن ہے، عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی بھی متاثرہ فریق آگے بڑھ کر تحریری طور پر اپنا مؤقف پیش کر سکتا ہے۔ عدالت ایک اور موقع دیتی ہے کوئی بھی شخص حقائق منظر عام پر لانا چاہے تو اپنا بیان حلفی عدالت میں پیش کرے۔
حکم نامے میں مزید بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا ایک محدود وقت کے لیے تھا اس کے دائرہ کار کو وسیع نہیں کیا جانا چاہیے، کوئی بھی فریق یا کوئی اور شخص اپنا جواب جمع کروانا چاہے تو 27 اکتوبر تک جمع کروا دے، کیس کی ائندہ سماعت یکم نومبر کو ہوگی۔
گزشتہ سماعت کا احوال
سپریم کورٹ آف پاکستان میں 28 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کی تاہم سماعت کے آغاز میں ہی فریقین نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ توقع تھی ایک نظر ثانی درخواست آئے گی لیکن تین آگئیں اور آج فیصلہ درست مان رہے ہیں تو نظر ثانی درخواستیں کیوں دائر کی گئیں۔
سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے تمام فریقین کو 27 اکتوبر تک تحریری معروضات جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ آج سب فریقین موجود نہیں تھے، فریقین کو حاضری کا ایک اور موقع دیا جاتا ہے، وزارت دفاع نے کہا کہ ہم نظرثانی درخواست واپس لے رہے ہیں، آئی بی اور پیمرا نے بھی نظر ثانی واپس لینے کی درخواست کی ہے، پی ٹی آئی نے بھی نظر ثانی واپس لینے کی درخواست کی ہے، اعجاز الحق کے وکیل نے تحریری بیان حلفی جمع کرانے کی مہلت مانگی، الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھی نظرثانی واپس لینے کی استدعا کی، کچھ فریقین عدالت میں موجود نہیں، تمام فریقین کو ایک اور موقع فراہم کرتے ہیں اور اٹارنی جنرل عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے بارے میں رپورٹ دیں۔
فیض آباد دھرنا کیس
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2017 میں فیض آباد ٹی ایل پی کے دھرنے پر ازخودنوٹس لیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں سخت آبزرویشن دی تھیں۔
آئی ایس آئی، وزارت داخلہ سمیت متاثرہ فریقین نے سپریم کورٹ میں 15 اپریل 2019 کو نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔
بعدازاں 11 اپریل 2019 کو تحریک انصاف، ایم کیو ایم نے بھی فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر نظرثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔ ایم کیو ایم نے ایڈو کیٹ عرفان قادر اور پی ٹی آئی نے علی ظفر ایڈوکیٹ کے توسط سے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی تھیں۔
اگر آپ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں تو ہمارےفیس بک پیج https://www.facebook.com/BOLUrduNews/ کو لائک کریں
ٹوئٹر پر ہمیں فولو کریں https://twitter.com/bolnewsurdu01 اور حالات سے باخبر رہیں
پاکستان سمیت دنیا بھر سے خبریں دیکھنے کے لیے ہمارے کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکن پر کلک کریں
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
