Advertisement
Advertisement
Advertisement

فیض آباد دھرنا کیس؛ وزارت دفاع اور آئی بی کی نظر ثانی درخواستیں خارج

Now Reading:

فیض آباد دھرنا کیس؛ وزارت دفاع اور آئی بی کی نظر ثانی درخواستیں خارج
چیف جسٹس فائز عیسیٰ

فیض آباد دھرنا کیس؛ وزارت دفاع اور آئی بی کی نظر ثانی درخواستیں خارج

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزارتِ دفاع اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی فیض آباد دھرنا کیس کی نظر ثانی کی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دیں۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللّٰہ بھی شامل تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ مسٹر ابصار عالم کہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آکر کہا کہ ہمیں بتایا گیا وہ راستے میں ہیں۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار

چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم نے وزرات دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزام لگائے ہیں، کیا اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔

Advertisement

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ آپ سے متعلق ہیں، ابصار عالم کے الزامات درست ثابت ہوئے تو معاملہ وزارت دفاع کے دائرہ کار میں آئے گا۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ  کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ رپورٹ کس کو دے گی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیٹی وزارت دفاع کو رپورٹ جمع کرائے گی، پہلا اجلاس 26 اکتوبر کو ہوچکا ہے، کمیٹی رپورٹ عدالت میں بھی پیش کی جائے گی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیدیا۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پر سوالات اٹھ گئے

 سپریم کورٹ نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھا دیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی فیصلے کے بعد ملک آئین پر چل رہا ہے؟ کیا آپ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ آج ملک آئین کے مطابق چل رہا؟

Advertisement

چیف جسٹس نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے پر آج تک عمل کیوں نہیں کیا گیا، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوئے اور واپس چلے گئے، دھرنا اچانک نہیں ہوا، ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ کمیٹی رپورٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، کمیٹی ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ تحقیقات کس چیز کی کرنی ہیں؟ کیا تحقیقات سیلاب کی کرنی ہے یا کسی اور چیز کی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا کمیٹی کی منظوری کابینہ نے دی ہے؟ کمیٹی کا قیام کس قانون کے تحت ہوا ہے؟

” کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا”

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ واضح کریں کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے، کمیٹی کے قیام کی دستاویز صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے، کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ابصار عالم یا کوئی کمیٹی میں پیش ہونے سے انکار کرے تو کیا ہوگا؟ کمیٹی اگر انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت بنتی تو شاید کچھ کر بھی سکتی، حکومت نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیلئے کچھ نہیں کیا، انکوائری کمیشن قانون کے تحت بنی کمیٹی کو تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں، حکومت پھر صاف کہہ دے کہ اس نے کچھ نہیں کرنا۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پر عدم اطمینان کا اظہار

Advertisement

سپریم کورٹ نے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکوائری ایکٹ کے تحت نیا کمیشن تشکیل دیا جائے گا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کمیشن کیلئے وفاقی حکومت کی منظوری درکار ہوتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ حکومت فیصلے پر عملدرآمد چاہتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی بالادستی ہر قیمت پر قائم کرنی ہوتی ہے، فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ تاریخی ہے۔

کیا نظرثانی دائر کر کے واپس لینا مذاق ہے؟ چیف جسٹس کا استفسار

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصلے کیخلاف پہلے نو نظرثانی درخواستیں آئیں پھر سب نے اچانک واپس لے لیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والے شخص کو بھی کمیشن کا سربراہ بنا سکتی ہے۔

Advertisement

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا نظرثانی دائر کرکے واپس لینا مذاق ہے؟ کونسا قانون کہتا ہے نظرثانی دائر ہوجائے تو فیصلے پر عمل نہیں کرنا؟ کیا ہماری حکومت نے کینیڈا کی حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ ایک شخص کینیڈا سے آتا ہے اور پورا ملک اوپر نیچے کرکے چلا جاتا ہے، کینیڈا نے سکھ رہنما کے قتل پر کتنا ردعمل دیا ہے، کیا ہم کینیڈا میں جا کر انکے پورے ملک کو ڈسٹرب کرسکتے ہیں؟ کیا کینیڈا سے آنے والے نے ٹکٹ خود خریدی تھی؟ پاکستان کا اتنا ہی درد ہے تو یہاں آ کر کیوں نہیں رہتے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے 70 سال سے آئین کی بالادستی قائم نہیں ہوسکی، جب تک آئین کے مطابق ملک لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، ملک میں ایلیٹ کیپچر ہے جو آئین پر عمل نہیں ہونے دیتی۔

انہوں نے کہا کہ سوال صرف آئین کا ہے جو عوام کیلئے ہے، اشرافیہ کا نہیں، ذوالفقار علی بھٹو کا ریفرنس سپریم کورٹ میں زیرالتواء ہے۔

“دھرنے کے وقت وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی”

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ فیض آباد دھرنے سے ملک کو کتنا معاشی نقصان ہوا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنے ہاتھوں سے نقصان کر رہے ہیں کسی کو فکر ہی نہیں، کئی لوگ تو اپنی املاک کا نقصان رپورٹ ہی نہیں کرتے۔

Advertisement

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا اس وقت کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے عدالت کو حقائق بتائے؟ دھرنے کے وقت وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ملک کو باہر سے خطرہ ہے یا اندر سے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملک کو اندر سے خطرہ ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فوج اتنی مضبوط ہے کہ باہر سے کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔

چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا کو فوری طلب کرلیا اور کہا کہ چیئرمین پیمرا کون ہیں، کدھر ہیں؟ انکو فوری بلائیں، ہم 11:30 پر پھر سے سماعت کرینگے۔

فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی، تاہم چیئرمین پیمرا سلیم بیگ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

نظرثانی درخواست کس کے کہنے پر دائر کی تھی؟ چیف جسٹس کا چیئرمین پیمرا سے سوال

چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ آپکے وکیل نے سابق چیئرمین پیمرا کے بیان نہ پڑھنے کا بیان دیا، آپکے وکیل کے بیان پر ہمیں تعجب ہوا، کیا ابصار عالم کا بیان آپ نے پڑھا؟ اس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ ابصار عالم کے ذاتی بیان حلفی کے حقائق کے بارے میں لاعلم ہوں۔

Advertisement

چیف جسٹس نے کہا کہ آپکو ذاتی طور پر کچھ علم ہے یا نہیں، اس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ دفتری امور کی تصدیق کرسکتا ہوں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کب سے چیئرمین پیمرا ہیں؟ سلیم بیگ نے جواب دیا کہ میں 28 جون 2018 سے چیئرمین پیمرا ہوں، چیئرمین پیمرا بننے سے پہلے انفارمیشن میں بطور پی آئی او فرائض سر انجام دے رہا تھا۔

چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے سوال کیا کہ نظرثانی درخواست کس کے کہنے پر دائر کی تھی؟ ہم نے آپ کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں، انکے خلاف کھڑے ہوں جو مداخلت کر رہے ہیں، اگر نظرثانی دائر کرنے کا فیصلہ آپ کا اپنا تھا تو فائل پر نوٹنگ دکھائیں۔

چیئرمین پیمرا نے کہا کہ نظرثانی دائر کرنے کا فیصلہ میرا اپنا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈریں نہیں، اللہ آپ کو لمبی عمر دے لیکن جانا ہم نے واپس اسی کے پاس ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ عدالت نے تو صرف پیمرا کو کارروائی کا حکم دیا تھا، پیمرا کو کارروئی کے حکم سے کیا مسئلہ تھا جو نظرثانی دائر کی، جس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ نظرثانی دائر کرنا ہماری غلطی تھی۔

چیف جسٹس نے ڈی جی لاء پیمرا سے سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے نظرثانی کس کے کہنے پر دائر ہوئی؟ ڈی جی لاء پیمرا نے جواب دیا کہ نظرثانی دائر ہوئی تو میری پوسٹنگ پنجاب میں تھی، پیمرا اتھارٹی کا کوئی تحریری فیصلہ موجود نہیں کہ نظرثانی دائر کی جائے گی۔

چیئرمین پیمرا نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے؟ چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ

Advertisement

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ چیئرمین پیمرا سچ بولنے سے قاصر ہیں، پیمرا قانون کے مطابق بورڈ کے فیصلے تحریری ہونگے زبانی نہیں،  کیا چیئرمین پیمرا نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیئرمین پیمرا کو علم ہی نہیں کہ نظرثانی کیسے دائر ہوئی تھی، نظرثانی درخواست پر دستخط صرف چیئرمین پیمرا کے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظرثانی دائر کرنے کا فیصلہ چیئرمین کا اپنا تھا، چیئرمین صاحب آپ سے تین حکومتیں بہت خوش تھیں، کس سے ڈرتے ہیں؟

فیصلے میں پیمرا کیخلاف کیا تھا جو نظرثانی دائر کی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ابصار عالم نے پریس کانفرنس کی اور وزیراعظم کو خط لکھ کر بھی حقائق بتائے، حیرت ہے اس وقت کے وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف نے کچھ نہیں کیا، ابصار عالم نے خط نوازشریف کو لکھا تھا، کرسی سے اترنے کے بعد ہر وزیراعظم کہتا ہے میں مجبور تھا، اس معاملے کی بہت سنگین انکوائری ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کیخلاف درخواست گزار کون تھا؟ ابصار عالم نے بتایا کہ منیر احمد نامی شخص کے حوالے سے سنا کہ وہ ایجنسیوں کا بندا ہے، اس کے بعد مزید کسی تحقیق کی گنجائش نہیں تھی، میرے خلاف درخواستیں فیض آباد دھرنے سے پہلے ہی دائر ہوچکی تھیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ فیصلے میں پیمرا کیخلاف کیا تھا جو نظرثانی دائر کی؟ ابصار عالم نے جواب دیا کہ ڈان اور جیو کے لیک آؤٹ پر پیمرا نے کارروائی کی تھی، میری تعیناتی کے دوران ڈان اور جیو اپنی پوزیشن پر بحال ہوگئے تھے۔

Advertisement

کیا پیمرا نے دباؤ میں آکر نظرثانی دائر کی؟ چیف جسٹس کا ابصار عالم سے سوال

چیف جسٹس نے ابصار عالم سے سوال کیا کہ عدالت نے پیمرا کے حق میں فیصلہ دیا لیکن وہ کہتا ہے فیصلہ واپس لو، کیا پیمرا نے دباؤ میں آ کر نظرثانی دائر کی ہے؟ اس پر ابصار عالم نے کہا کہ مارچ 2019 میں نظرثانی دائر ہوئی، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید تھے، تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں پیمرا کو وزارت اطلاعات یا ایجنسیوں نے کہا ہوگا، مجھے علم نہیں کہ زبانی حکم اگر کسی نے دیا تھا تو کون ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے مکالمہ کیا کہ سچ انسان کو آزاد کر دیتا ہے، ہمارے سامنے تو آپ سچ بول نہیں رہے کمیشن شاید آپ سے اگلوا لے، ہم آپ سے سچ سننا چاہتے ہیں۔

دوران سماعت پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر نظرثانی درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی جبکہ اٹارنی جنرل نے پی ٹی آئی کی درخواست واپس لینے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواست واپس لینے کے معاملے پر شیخ رشید کو نوٹس جاری کر دیا۔

چیف جسٹس کا الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال

Advertisement

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے بھی نظرثانی کسی کے حکم پر دائر کی تھی؟ الیکشن کمیشن نے قانون کو محظ دکھاوا قرار دیا تھا، وکیل نے کہا کہ ان ریمارکس سے لاتعلقی کرنا چاہتے ہیں، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کر دیا ہے، سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی بھی دائر کی اور فیصلے پر عمل بھی کر رہے ہیں، اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ صرف قانون کو کاسمیٹک یعنی دکھاوا قرار دینے کا لفظ حذف کرانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ اپنے جواب میں خادم رضوی کو حافظ کیوں لکھا ہے؟ خادم رضوی کو آہینی ادارہ اتنی عزت کیوں دے رہا ہے؟ عدالتی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے کیا کارروائی کی؟

وکیل قمر افضل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کمیٹی تشکیل دی تھی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ  کیا الیکشن کمیشن قانون کے مطابق کوئی کمیٹی بنا سکتا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنا موقف لے چکا تھا اس پر کیا انکوائری کرنی تھی؟

“الیکشن کمیشن اپنے فیصلے پر نظرثانی کیلئے تیار ہے”

Advertisement

چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر الیکشن کمیشن قانون پر عمل نہ کرے تو عدالت کیا کر سکتی ہے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا توہین عدالت کی کارروائی اچھی لگے گی؟ وکیل نے جواب دیا کہ توہین عدالت کی کارروائی کسی صورت اچھی نہیں لگے گی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنے فیصلے پر نظرثانی کیلئے تیار ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی ادارے کا احترام ہے لیکن وہ اپنی ذمہ داری بھی ادا کرے۔

انفرادی درخواست گزاروں کو ہم نہیں سنیں گے، چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ تحریک لبیک نے کوئی نظرثانی درخواست دائر نہیں کی، تحریک لبیک کو فیض آباد دھرنا فیصلہ درست لگا ہوگا، انفرادی درخواست گزاروں کو ہم نہیں سنیں گے، تمام متعلقہ درخواست گزاروں کو ہم نے سن لیا ہے۔

Advertisement

عدالت نے کہا کہ ابصار عالم نے کچھ شخصیات پر الزامات عائد کیے، اگر حکومت کمیشن قائم کرتی ہے تو تمام الزامات کمیشن کے سامنے رکھے جائیں، ابصار عالم نے کہا وہ انکوائری کمیشن کے سامنے سارا بیان کھل کر دیں گے۔

“حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سنجیدہ نہیں لیا”

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کے بارے میں بتایا، اٹارنی جنرل کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا نوٹیفکیشن تاحال جاری نہیں کیا گیا، کمیٹی نے تحقیقات کیسے کرنی ہیں اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ حکومت انکوائری کمیشن تشکیل دے گی۔

 سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کی تشکیل سے متعلق مہلت طلب کی، اٹارنی جنرل کے مطابق کمیشن تشکیل دیکر عدالتی فیصلے پر مکمل عملدرآمد ہوگا۔

عدالت نے مزید کہا کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سنجیدہ نہیں لیا، آئی بی، وزارت دفاع اور پیمرا نے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی جبکہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی۔

کیس کی سماعت کا فیصلہ جاری

Advertisement

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں وزارتِ دفاع، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور تحریک انصاف کی نظرثانی اور فریق بننے کی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔

عدالت نے شیخ رشید کو نوٹس جاری کر دیا اور اعجاز الحق کی درخواست نمٹا دی۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی ٹی ایل پی سے متعلق رپورٹ واپس لینے کی استدعا منظور کرلی جبکہ الیکشن کمیشن کی ایک ماہ کا وقت دینے کی استدعا بھی منظور کر لی گئی۔

سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 15 نومبر تک ملتوی کر دی۔

حکم نامہ جاری

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا جس کے مطابق وزارت دفاع اور آئی بی کی نظر ثانی درخواستیں واپس لینے کی بیناد پر خارج کی جاتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی نظر ثانی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔

Advertisement

 سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق چیئرمین پیمرا سے پوچھا نظرثانی خود دائر کی تھی یا کسی نے ہدایت کی تھی، چیئرمین پیمرا نے جواب میں مکمل خاموش رہے، چیئرمین پیمرا سے پوچھا نظرثانی کس بات پر چاہتے تھے، چیئرمین نے جواب دیا کہ ایکشن نہ لینے والے پیراگراف پر نظرثانی چاہتے تھے۔

حکم نامے میں بتایا گیا کہ پیمرا کی نظرثانی درخواست میں ایسا کوئی گرائونڈ نہیں لیا گیا تھا، چیئرمین پیمرا سے پوچھا کیا کسی نے حکم دیا تھا کہ نظرثانی دائر کرو؟ چیئرمین پیمرا نے عدالتی سوال کے جواب میں کہا بس۔

سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ چیئرمین پیمرا قانون پر عملدرآمد میں سنجیدہ نہیں لگتے، بظاہر چیئرمین پیمرا نظرثانی دائر کرنے میں کسی کے کٹھ پتلی تھے۔

حکم نامے کے مطابق شیخ رشید کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی بقول کا ان موکل سے کوئی رابطہ نہیں، رابطہ نہ ہونے پر نظرثانی واپس لینے کا بیان کیسے دیا جا سکتا ہے؟ شیخ رشید نظرثانی درخواست کی پیروی کرنا چاہیں تو عدالت آ سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے حکم نامے میں بتایا گیا کہ اعجاز الحق نے عدالتی فیصلے میں دھرنے کی حمایت پر مبنی پیراگراف کی تردید کی، اعجاز الحق نے بیان حلفی میں کہا حساس ادارے کی انکے حوالے سے دھرنے کی حمایت کی رپورٹ درست نہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ ایم کیو ایم نے بھی نظرثانی درخواست واپس لینے کی استدعا کی، ایم کیو ایم کی نظرثانی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔

Advertisement

چیف جسٹس نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ الیکشن کمشن رپورٹ کے مطابق اسکروٹنی کمیٹی کو ٹی ایل پی نے مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کیں، ٹی ایل پی کے مالی کھاتوں میں بے ضابطگی پر ان سے بینک تفصیلات مانگی گئیں، ٹی ایل پی نے 15 لاکھ سے زائد فنڈنگ کے ذرائع نہیں بتائے، حیران کن طور پر الیکشن کمیشن نے کہا کوئی بے ضابطگی نہیں پائی گئی، لگتا ہے الیکشن کمیشن نے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لئے بغیر تسلیم کر لی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے حکم نامے میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پندرہ لاکھ کی فنڈنگ کو پینٹس (انتہائی کم) قرار دیا، الیکشن کمیشن کی ٹی ایل پی سے متعلق رپورٹ واپس لینے کی استدعا منظور کرلی۔

حکم نامے کے مطابق ٹی ایل پی کے معاملے کا آئین اور قانون کے مطابق جائزہ لینے کا وقت مانگا گیا، الیکشن کمیشن کی ایک ماہ کا وقت دینے کی استدعا منظور کر لی۔

سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق کمیشن آف انکوائری تشکیل دیا جائے گا، توقع ہے کمیشن تمام نظرثانی درخواستیں دائر کرنے کے حسن اتفاق کی بھی تحقیقات کرے گا، یہ تحقیقات بھی ہونے کی توقع ہے کہ کیا تمام نظرثانی دائر کرنے کی ہدایت ایک ہی جگہ سے آئی تھی۔

حکم نامے کے مطابق وکیل تیمور ملک نے عدالتی حکم پر نظرثانی کی استدعا کی، انکی نظرثانی درخواست خارج کر دی گئی، آئندہ سماعت پر الیکشن کمیشن کو آنے کی ضرورت نہیں؟ الیکشن کمیشن کو ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔

اگر آپ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں تو ہمارےفیس بک پیج https://www.facebook.com/BOLUrduNews/ کو لائک کریں۔

Advertisement

ٹوئٹر پر ہمیں فالو کریں https://twitter.com/bolnewsurdu01 اور حالات سے باخبر رہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر سے خبریں دیکھنے کے لیے ہمارے  کو سبسکرائب کریں   اور بیل آئیکن پر کلک کریں۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
سہیل آفریدی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست پر اعتراضات دور
سپریم کورٹ بار الیکشن: ہارون الرشید اور توفیق آصف آمنے سامنے، پولنگ جاری
پشاور ہائیکورٹ کا گورنر خیبرپختونخوا کو نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لینے کا حکم
نئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کا انتخاب پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج
توشہ خانہ ٹو کیس؛ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کا اہم بیان سامنے آگیا
بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی ہتک عزت کیس میں تاریخی فتح؛ یوٹیوبر عادل راجہ کے الزامات جھوٹے قرار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر