Advertisement
Advertisement
Advertisement

سپریم کورٹ، فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل

Now Reading:

سپریم کورٹ، فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل
سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کردیا۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔

بنچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بینچ کا حصہ تھے۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کیا جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے 5 ججز کے فیصلے سے اختلاف کیا۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس سردار طارق مسعود نے بنچ سے الگ ہونے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ بنچ سے الگ ہونا جج کی مرضی ہے، میں بنچ سے الگ نہیں ہو رہا۔

Advertisement

بنچ پر اعتراض ہے، لطیف کھوسہ کا مکالمہ

لطیف کھوسہ نے عدالت سے مکالمہ کیا کہ بنچ پر اعتراض ہے، اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا آپ کو نوٹس ہوا ہے؟ جب فریقین کو نوٹس ہوگا تب آپ کا اعتراض دیکھیں گے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ بیٹھ کر کیس سن رہے ہیں اسلئے بول رہا ہوں، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا ہم کھڑے ہوکر کیس سنیں؟ بیٹھ کر ہی مقدمہ سنا جاتا ہے۔

فیصل صدیقی نے اعتراض اٹھایا کہ حکومت نجی وکلاء کی خدمات حاصل نہیں کر سکتی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نجی وکلاء کی خدمات کیلئے قانونی تقاضے پورے کیے ہیں، مناسب ہوگا پہلے درخواست گزاروں کو سن لیا جائے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ ہمیں سنے بغیر معطل نہیں کر سکتی۔

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ فیصلہ معطل کرنے کی صرف استدعا ہے ابھی معطلی ہوئی نہیں، نوٹس ہوا ہی نہیں اور آپ لوگوں نے بولنا شروع کر دیا ہے۔

Advertisement

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ نے درخواستیں ناقابل سماعت اپنے تحریری نوٹ میں قرار دی تھیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اب تو مقدمہ مکمل ہوچکا فیصلہ بھی آ چکا ہے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ اعتراض ختم ہونے کے بعد ہی عدالت دلائل سن سکتی ہے۔ جج کا بنچ سے الگ ہونا سب سے پہلی ترجیح ہوتا ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال کیا کہ اعتراض دائر کس کی جانب سے کیا گیا ہے؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اعتراض سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے دائر کیا ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو دلائل دینے کی ہدایت کر دی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سینئر وکیل خواجہ حارث کو پہلے موقع دینا چاہتا ہوں۔

 “سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہونا قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں”

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ون میں ترمیم 1967 میں ہوئی، ترمیم کے ذریعے سویلینز کے آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کی اجازت دی گئی، آرمی ایکٹ کی ترمیم کے تحت صرف 102 افراد کا نہیں بلکہ فوجی تنصیبات پر حملے یا ورغلانے والوں کا ٹرائل ہوتا ہے، عدالت نے آرمی ایکٹ کی شقوں کو ہی چار ایک کے تناسب سے کالعدم قرار دے دیا۔

Advertisement

خواجہ حارث نے خصوصی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس پر جسٹس سردار طارق نے کہا کہ دو لائن میں ایک قانون کی پوری سیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں میں پہلے ان دفعات کو برقرار رکھا گیا تھا، ایف بی علی کیس میں ان دفعات کو برقرار رکھا گیا، اس کیس میں 8 رکنی بنچ کا فیصلہ تھا، حالیہ فیصلے میں پانچ رکنی بنچ نے چار ایک کی اکثریت سے ان دفعات کو کالعدم قرار دیا، اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں بھی ان دفعات کو برقرار رکھا گیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ہر سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو رہا، صرف ان سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا جو قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ فیصلے کی وجوہات آنے دیں، دیکھنا ہوگا ان نکات پر فیصلے میں کیا رائے دی گئی ہے۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ مناسب ہوگا تفصیلی فیصلے کا انتطار کر لیں۔

وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کا انتظار کرنا ہے تو عدالتی حکم معطل کرنا ہوگا، فوج کی تحویل میں 104 افراد سات ماہ سے ہیں، ملزمان کیلئے مناسب ہوگا کہ ان کا ٹرایل مکمل ہوجائے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل مکمل ہوگئے تھے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بہت سے ملزمان شاید بری ہو جائیں، جنہیں سزا ہوئی وہ بھی تین سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔

Advertisement

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہے کہ سزا تین سال سے کم ہوگی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کم سزا میں ملزمان کی حراست کا دورانیہ بھی سزا کا حصہ ہوگا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو بری ہونے والے ہیں انہیں ضمانت کیوں نہیں دے رہے۔

 گزشتہ روز 23 فوجیوں کی شہادت کا تذکرہ

سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران گزشتہ روز 23 فوجیوں کی شہادت کا تذکرہ بھی ہوا۔

کل جو 23 بچے شہید ہوئے ان پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کیسے ہو گا؟ جو فوجی جوانوں کو شہید کر رہے ہیں ان کا تو اب ٹرائل نہیں ہو سکے گا کیونکہ قانون کالعدم ہو چکا، جنہوں نے کل 23 جوان شہید کیے ان سویلینز کا ٹرائل اب کس قانون کے تحت ہو گا؟ سیکشن 2 ون ڈی کالعدم ہونے کے بعد دہشتگردوں کا ٹرائل کہاں ہو گا؟

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت موقع دے تو اس معاملے پر سیر حاصل دلائل دیں گے، جسٹس سردار طارق نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے قانون کالعدم ہے اور عدالت ٹرائل جاری رکھنے کا حکم دیدے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کالعدم ہونے کی حد تک فیصلہ معطل کرنے کی استدعا ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اتنی جلدی کیا ہے اٹارنی جنرل صاحب! اٹارنی جنرل نے کہا کہ جلدی یہ ہے کہ غیر ملکی دہشتگردوں کے ٹرائل بھی نہیں ہو پا رہے۔

Advertisement

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ گرفتار لوگ دہشتگرد ہیں تو بری کیوں کر رہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ لوگ تو اپنے شہری ہیں بس بھٹک گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو مقدمات کے حتمی فیصلے سنانے سے روک دیا اور فریقن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

یاد رہے 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی لاجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیرآئینی قرار دیا تھا، جس کے بعد انٹراکورٹ اپیلیں وفاقی حکومت، وزارت دفاع اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

بعدازاں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے فیصلہ چار ایک کی بنیاد پر سنایا تھا، فیصلے میں سپریم کورٹ نے ملڑی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی کو آئین کے بر خلاف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملزمان کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مقدمات عام عدالتوں میں چلائیں جائیں گے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
سہیل آفریدی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست پر اعتراضات دور
سپریم کورٹ بار الیکشن: ہارون الرشید اور توفیق آصف آمنے سامنے، پولنگ جاری
پشاور ہائیکورٹ کا گورنر خیبرپختونخوا کو نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لینے کا حکم
نئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کا انتخاب پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج
توشہ خانہ ٹو کیس؛ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کا اہم بیان سامنے آگیا
بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی ہتک عزت کیس میں تاریخی فتح؛ یوٹیوبر عادل راجہ کے الزامات جھوٹے قرار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر