
الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے، مخصوص نشستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری
اسلام آباد: مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے فل بنچ کی سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں، میری نظر میں مسئلہ تناسب سے زیادہ نشستیں دینے کا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 13 رکنی بنچ مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کر رہا ہے۔
ایڈووکیٹ جبزل کے پی روسٹم پر آ گئے، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی روسٹم پر آئے اور کہا کہ صاحبزادہ حامد رضا نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا، انہوں نے کاغذات نامزدگی میں وابستگی سنی اتحاد کونسل سے ظاہر کی تھی، مخصوص نشستیں ملیں تو کنول شوزب سنی اتحاد کونسل کی امیدوار ہونگی۔
چیف جسٹس کی کاغذات نامزدگی کی کاپیاں کروا کر تمام ججز کو دینے کی ہدایت
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ غیر مسلم ممبر نہ رکھنے والی شق جے یو آئی کے منشور میں بھی ہے، جے یو آئی کو اس کے باوجود مخصوص نشستیں ملی ہیں، الیکشن کمیشن اس بات کو کنفرم کر دے گا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب باتیں ہوا میں ہیں آپ نے ہمیں دستاویز سے نہیں دکھایا۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی کیساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟ وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے حامد رضا کو روکا جا رہا تھا، الیکشن کمیشن نے زبردستی آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی صاحب اگر آپ نے کاغذات فائل کیے ہونگے تو سوالات نہ پوچھنا پڑتے، کاغذات کے بغیر آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ الیکشن کمشین سے مانگا گیا تھا۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن نے صاحبزادہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی پیش کر دیے جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت دی کہ کاغذات نامزدگی کی کاپیاں کروا کر تمام ججز کو دیں۔
نشستوں پر منتخب ارکان کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل
جسٹس منصور علی شاہ نے نشستوں پر منتخب ارکان کے وکیل مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن کب جاری ہوا؟ جس پر وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سوال کا جواب الیکشن کمیشن بہتر دے سکتا ہے۔
وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم امتناع دیا تو اضافی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی رکنیت معطل ہوگئی، انتخابات سے پہلے مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرانے والے ہی بعد میں دعویٰ کر سکتے ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان کا پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ
دوران سماعت وکیل مخدوم علی خان نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہ دینے کا فیصلہ کیا، پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حیرت کی بات ہے سلمان اکرم راجہ اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائیکورٹ کی بات ہی نہیں کی، دونوں وکلاء نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بات کی۔
جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے، چیف جسٹس
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیاکہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، اگر یہ بات درست ہوئی تو یہ سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کیلئے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔ وکیل نے کہا کہ فی الوقت صاحبزادہ حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے کہ انکے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا، الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا،اس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اپیلوں میں یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قانون واضح ہے کہ جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے، ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا۔
ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل
وکیل نے دلائل دیے کہ عدالت کے سامنے درخواست گزار سنی اتحاد کونسل ہے، تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد نے کوئی امیدوار کھڑا کیا نہ مخصوص نشستوں کی فہرست دی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے امیدوار ثابت ہوگئے تو مختلف معاملہ ہوجائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی کسی جماعت کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے پھر اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ایک پارٹی کا ٹکٹ دیکر دوسری جماعت میں شامل ہوجائے تو یہ منحرف ہونا ہے، میری نظر میں ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا، فارم 33 سے واضح ہوگا کہ کون کس جماعت سے ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔ جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیاکہ کیا کسی امیدوار نے کاغذات جمع کرانے کے بعد پارٹی وابستگی سے علیحدگی کا اظہار کیا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ چار مارچ کو الیکشن کمیشن نے خود کہا کہ تمام امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر پارٹی کے لوگوں کو آزاد قرار دیا؟
آرٹیکل پانچ کے تحت ہر شخص آئین پر عملدرآمد کا پابند ہے، چیف جسٹس
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ بلوچستان سے ایک جماعت دس نشستیں لے اور مخصوص کیلئے فہرست جمع نہ کرائی، اگر کوئی جماعت فہرست جمع نہ کرائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مخصوص نشستیں نہیں چاہتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسمبلی کا مکمل ہونا لازمی نہیں ہے، اسمبلی نشستوں اور ارکان میں فرق ہوتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا اصول سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتا ہے آزاد جیتنے والے شامل نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آپ اصول کی بات کرتے ہیں تو آئین کا حوالہ بھی دیں، آرٹیکل پانچ کے تحت ہر شخص آئین پر عملدرآمد کا پابند ہے، آپ بھی ڈکٹیٹر کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، میں نے اس وقت وکالت چھوڑ دی تھی، کوئی ڈکٹیٹر آئے تو سب وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ جمہوریت آتی ہے تو سب لوگ چھریاں نکال لیتے ہیں، آئین میں دیا گیا اصول واضح ہے تو ہم کیوں نئی جہتیں نکال لیتے ہیں؟ آئین مقدس ہے اس پر عمل کرنا لازم ہے آپشن نہیں، تاریخ کی بات کرنی ہے تو پوری طرح سے کریں۔
آئین کی خلاف ورزی پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج بھی آئین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ عدالت بھی اس سب میں ملی ہوئی ہے، بطور سپریم کورٹ ہم نے اپنا سر ریت میں دبا لیے ہیں، سب یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے ہم ماضی کی بات کر رہے ہیں، ایک دن ہمیں کہہ دینا چاہیے کہ بہت ہوچکا، آئین کی خلاف ورزی پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں اہم ترین درخواست آٹھ فروری کے انتخابات کے حوالے سے ہے، لاپتہ افراد کے کیسز اور بنیادی حقوق کی پامالیاں سیاسی مقدمات نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنی غلطیاں ہم سب کو تسلیم کرنی چاہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آٹھ فروی کے انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کا کیس زیرالتواء ہے، جبری گمشدگی والوں کو یہ کہ کر بولنے نہیں دیا جاتا کہ سیاسی کیس ہے۔
خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی کو متنازعہ نہ بنائیں، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا مخصوص نشستوں کی بنیاد پر عام انتخابات کے آوٹ کم کو مکمل تبدیل کر دیا جائے؟ جو جماعتیں اکثریت نہیں لے سکیں انہیں مخصوص نشستوں سے اکثریتی کر دیا جائے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے یہ نہیں دیکھنا کیا منطق میں درست ہے یا نہیں، ہم نے یہ دیکھنا ہے آئین میں کیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی کو متنازعہ نہ بنائیں، مسئلہ حقیقی نمائندگی کا ہے خو جینوئن الیکشن سے آتا ہے، متاثر اس سب میں ایک سیاسی جماعت ہو رہی ہے اور ہم اسے نظر انداز کرنا چاہتے ہیں، 2018 میں جو ہوا تھا وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت کے پاس آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کا اختیار ہے، اس عدالت کے پاس آرٹیکل 184 تین کا اختیار بھی موجود ہے، جو آج ہو رہا ہے شاید کل پھر اس عدالت کو اس پر پچھتاوے کا اظہار کرنا پڑے گا۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حقیقت ہے سنی اتحاد لسٹ دی نہ انتخابات میں حصہ لیا، جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 2 فروری 2024 والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط تشریح پر ہے، کیا ہمیں الیکشن کمیشن کے غلط تشریح پر مبنی فیصلہ نہیں دیکھنا چاہیے یا نظر انداز کردینا چاہیے۔
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اگر غلط تشریح والا فیصلہ چیلنج نہیں ہوا تو اسے نظرانداز ہی کرنا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ اگر ایک سیاسی جماعت ہے جو بہت مشہور ہے لیکن انتخابات سے بائکاٹ کرلیتی ہے، کیا عوام کی سپورٹ کے باوجود بائیکاٹ کرنے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی؟
مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کر لئے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند کے دلائل
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کاشیڈول ایک اہم دستاویز ہوتا جس میں مخصوص اورجنرل سیٹیں شامل ہوتیں، جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی کے لیے ایک تاریخ دی جاتی، مخصوص نشستوں کابھی نوٹیفکیشن ہوتاہے۔
وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیے کہ فارم 33 جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے ہوتا ہے، ریٹرننگ افسران مخصوص، جنرل نشستوں کے فارم 33 کی اسکروٹنی کرتےہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فارم 33 میں ایک کالم پارٹی وابستگی کا بھی ہوتا ہے، کیا پارٹی وابستگی کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرتا ہے یا کاغذات نامزدگی کے مطابق لکھا جاتا ہے؟ کیا الیکشن کمیشن فیصلہ کرےگا کہ امیدوار کی کس سیاسی جماعت سے وابستگی ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ فارم 66 مخصوص نشستوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے دی گئی لسٹ ہوتی، جنرل اور مخصوص نشستوں کی لسٹ کا طریقہ کار بلکل ایک طرح کا ہے، کاغذات نامزدگی پہلی اسٹیج ہوتی ہے، خواتین، اقلیتوں کی سیٹوں کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی جنرل نشستوں کی ہے، خواتین کی مخصوص نشست وزیراعظم کے لیے بھی امیدوار ہوسکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیاکہ ایسا ممکن ہو سکتا کہ ایک ہی حلقے سے ایک ہی پارٹی کے دو امیدوار ہوں؟ کوورنگ امیدوار ہوتے، جس پر وکیل سکند ربشیر نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں، پارٹی سربراہ اپنے آئین کے مطابق پارٹی ٹکٹ دیتا ہے۔
مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ نے مزید سماعت جمعرات 11:30 بجے تک ملتوی کر دی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News