
انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست؛ چیف جسٹس پی ٹی آئی کے التوا مانگنے پر ناراض
اسلام آباد: چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی انتخابات کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر پی ٹی آئی کی جانب سے التوا مانگنے پر ناراضی کا اظہار کیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی 3 رکنی بینچ کا حصہ تھے۔
پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ وکیل اکبر ایس بابر احمد حسن نے عدالت کو بتایا کہ ایڈووکیٹ حامد خان کی التوا کی درخواست آئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے اکبر ایس بابر کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ التوا کی درخواست کا پیراگراف نمبر دو پڑھیں، تاہم حامد خان کی فیملی مصروفیت کے بارے میں پیراگراف پڑھا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ تو کوئی ناول نما التوا کی درخواست ہے، اس سے پہلے اس نوعیت کی درخواست نہیں دیکھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن ہو گئے؟ جس پر وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ 3 مارچ کو انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے جو چیلنج ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں تو بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس انٹراپارٹی انتخابات کا ہے لیکن اسے بلے کے نشان کا کیس مشہور کیا گیا، عدالت میں موجود بہت سے معزز افراد نے فیصلے پر ڈھول پیٹا، تبصرہ جو بھی کریں لیکن سچ تو بولیں، ہوسکتا ہے اس بار ڈھول بجانے والے فیصلہ بھی پڑھ لیں، التواء کی آج جتنی درخواستیں آئی تھیں سب خارج کی ہیں۔
چیف جسٹس نے اکبر ایس بابر کے وکیل کو ہدایت دی کہ نظرثانی درخواست پڑھیں اس میں کیا لکھا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نظرثانی کس بنیاد پر چاہتے ہیں مناسب ہوگا یہ درخواست گزار ہی بتائیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے تحریک انصاف عدالتی فیصلے سے متاثرہ نہیں تھے، اگر پی ٹی آئی کو کوئی نقصان ہوا ہوتا تو فوری طور پر نظرثانی دائر کرتی، سپریم کورٹ نے 13 جنوری کو فیصلہ دیا اور نظرثانی چھ فروری کو دائر کی گئی، نظرثانی دائر کرنے کیساتھ جلد سماعت کی کوئی درخواست بھی دائر نہیں کی گئی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ پروپیگنڈا ایسا کیا جاتا ہے کہ کیس مقرر ہی نہیں ہو رہا، کیس لگایا تو کوئی آیا نہیں، نظرثانی 29 مئی کو لگانا چاہتے تھے لیکن علی ظفر چار جون تک چھٹیوں پر تھے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی کو دل کا عارضہ ہوگیا جس پر بعد میں کیس مقرر نہیں ہوسکا، پی ٹی آئی کے اس کیس میں سات وکلاء تھے آج کوئی بھی نہیں آیا۔
سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اس درخواست کی بنیاد پر کیس ملتوی کرنے کی حامی نہیں، جب نئے انتخابات ہوچکے تو اس نظرثانی کی ضرورت کیا ہے؟
وکیل اکبر ایس بابر نے بتایا کہ نئے انتخابات بھی الیکشن کمشین میں چیلنج کر رکھے ہیں، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نئے انتخابات کا معاملہ عدالت کے سامنے نہیں ہے اس پر بات نہ کریں۔
بعدازاں عدالت نے انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 21 اکتوبر تک ملتوی کردی اور کہا کہ آئندہ سماعت پر التوا کی کوئی درخواست قبول نہیں کی جائے گی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News