ہائیکورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے 251 بھرتیوں سے روک دیا
کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی نے آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر علی طاہر نے کہا کہ بنیادی طور پر عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگائی گئی ہے، جوڈیشل کمیشن کے از سرِنو تشکیل سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین عدلیہ کا نہیں پارلیمنٹ کا وژڈم ہے، آپ نے آئین کے آرٹیکل 239 کا جائزہ لیا ہے؟ آرٹیکل 239 کے مطابق آئین کی کوئی ترمیم پر کسی بھی عدالت میں سوال نہیں کیا جاسکتا، ہمارا دائرہ اختیار کیا ہے اس میں؟
وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے طے کیا کہ آئینی ترامیم بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، جس پر عدالت نے کہا کہ ہمارے پاس سپریم کورٹ کے اختیارات نہیں ہیں، جو اختیارات ہائی کورٹ کے پاس ہے وہی کرسکتے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ راولپنڈی بار کے فیصلے میں کہاں لکھا ہے کمیشن میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی؟ عدلیہ کی آزادی پر قدغن کیسے ہے یہ بتائیں؟ دو فورمز نے کیسے عدلیہ کی آزادی متاثر کی ہے؟ پارلیمنٹ کو عوام نے منتخب کیا ہے۔
بیرسٹر علی طاہر نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اسٹیک مشکوک ہے، الیکشن پٹیشن زیر سماعت ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے معاملات میں ہمیشہ 184-3 کے تحت اختیار حاصل ہوتا ہے، ہمارے پاس 184-3 کے اختیارات نہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں حکومتی افراد شامل ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ کیا آپ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ بدنیت ہیں؟
وکیل بیرسٹر علی طاہر نے کہا کہ ان لوگوں نے ججز کی تعیناتی کرنی ہے اور انہوں نے ہی ججز کے کارکردگی جانچنا ہے۔
بعدازاں عدالت نے آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا اور اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو بھی نوٹس کردیے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
